ہوم << دو طرفہ تعلقات کیسے نبھائیں - انصر خان کھچی

دو طرفہ تعلقات کیسے نبھائیں - انصر خان کھچی

دو طرفہ تعلقات کیسے نبھائے جائیں ؟ یہ سوال ہر شخص ،ہر ادارے بلکہ ہر ریاست کے لیے اہم ہے۔برابر کی سطح کے تعلقات ہوں تو وہ کسی نہ کسی طرح نبھا ہی لیے جاتے ہیں ۔اس کے لیے بہت زیادہ حساسیت نہیں ہوتی۔

نہ بڑے کے احترام کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے اور نہ چھوٹوں پر شفقت ضروری ہوتی ہے،بلکہ ایک دوسرے سے برابری کی بنیاد پر معاملہ کیا جاتا ہے جیسے دو دوستوں ، بھائیوں ،بہنوں ،یا دو کاروباری حریفوں کا معاملہ ہوسکتا ہے ، لیکن جن رشتوں میں درجات کا فرق ہوتا ہے جیسے والدین اولاد،میاں بیوی،استاذ شاگرد، منیجر اور ملازم وغیرہ تو وہاں دو طرفہ تعلقات نبھانے کیلئے خاص اہتمام کرنا پڑتا ہے۔آئیے اس حوالہ سے اسلام کا نسخہ اکسیر سمجھنے کی کوشش کرتے کریں۔

ہم میاں بیوی کے رشتے کو نبھانے کیلئے اسلامی تعلیمات کا جائزہ لیتے ہیں ۔ہمیں تین طرح کی ہدایات نظر آتی ہیں ۔ ایک وہ ہدایت ہے جو طاقتور فریق یعنی شوہر کو دی جارہی ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہ اللہ کی بندیاں تمہارے ما تحت ہوگئی ہیں ۔ جو تم کھائو انہیں کھلائو ،جوتم پہنو انہیں پہنائو ، یعنی ان کو معاشی آسودگی میں اپنے ہم پلہ رکھو۔ کوئی احساس محرومی نہ ہونے پائے۔ان پر شفقت اور احسان کرتے رہو۔

ظلم کا سوچنا بھی منع ہے۔دوسری طرف کمزور طبقہ کی طرف سے یہ خطرہ ہوتا ہے کہ وہ کسی ظلم کی صورت میں اگر فوری ردعمل کرے گا تو اس سے بات بڑھے گی، لہذا اگر ظلم ناقابلِ تحمّل ہے تو خلع وغیرہ کے ذریعے الگ ہوجائو ، لیکن اگر عام طور پر ظلم نہیں کیا جاتا، بلکہ کسی خاص حالت میں ، غصے یاصدمے کی وجہ سے اتفاقًا ظلم ہوگیا تو بھی شوہر کی اطاعت جاری رکھے اور صبر کرے۔شوہر (طاقتور فریق کے ضمیر کو جاگنے دے۔یاد رہے یہ وہ فریق ہے جسے ظلم سے پہلے ہی روکا جاچکا ہے۔

کبھی جذبات یا غفلت میں ظلم ہوسکتا ہے اور یہ عارضی کیفیت ہوگی۔اگر اس کیفیت کو نظرانداز کیاجائے تو یہ ختم ہوجائیگی،لیکن اگر ردعمل کیا جائے تو یہ مزید بڑھ کر جنگ کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔گویا کمزور فریق کیلئے اسلام کا نسخہ صبر اور اطاعت ہے۔دیکھیے ! ــ آ پ ﷺ نے فرمایا کہ اگر شوہر بلائے تو تنور پر بھی بیٹھی ہو تو فوراً جائے۔اسی طرح فرمایا کہ اگر اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو بیوی کا شوہر کو سجدہ کرنے کا حکم دیا جاتا۔یعنی اس کی اطاعت ہرحال میں کیا کرے۔ اسی طرح فرمایا کہ شوہر اگر ایک پہاڑ سے دوسرے دوسرے پیاڑ پر پتھر لے جانے کا کہے تو بھی اطاعت کرے۔

ظاہر ہے یہ ایک لغو کام بھی ہے پرمشقت کام بھی ہے اور عورت سے ایسا کام لینا ظلم بھی ہے،لیکن پھر بھی اطاعت کا حکم دے کر ردعمل کی سوچ کا خاتمہ فرمادیا گیا۔گویا طاقتور کو شفقت کا اور کمزور کو اطاعت کا حکم دیا تاکہ طاقتور اکثرشفقت کرے اور کبھی زیادتی کی نوبت آئے تو کمزور کی اطاعت سے بات آگے نہ بڑھے۔تیسری قسم کی ہدایات کا تعلق خاندان اور آس پاس کے لوگوں کے لیے ہیں ۔انہیں ہدایات دی گئی ہیں کہ لڑائی جھگڑے کی صورت میں صلح کرائیں۔حتّیٰ کہ انہیں اصلاح احوال کے لیے کسی قدر غلط بیانی کی بھی اجازت دی گئی ہے۔

گویا طاقتور فریق کی زیادتی یا کمزور کا ردعمل ہوا تو آس پاس کے لوگ سنبھال لیں گے۔اندازہ کیجئے کہ اگر تینو فریق ان اپنی اپنی ہدایات پر عمل کریں تو کتنا بہترین خاندان وجود میں آئے گا ،کتنا خوبصورت فیملی سٹم اور دلکش معاشرہ نکھر کر سامنے آئے گا ۔لیکن عام طور پر خاندان بکھرے ہوئے ہیں ، معاشرہ ایک عدم اتفاق اور ناچاقی کی کیفیت سے دوچار ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی ہدایات پر عمل کرنے کی بجائے دوسرے کی ہدایات کو دلیل بنایا جاتا ہے۔بیوی کہتی ہے کہ میرے یہ یہ حقوق ہیں ،جو تم کھاتے ہو مجھے کھلائو ،جب تمہارے کپڑے آئیں گے میرے بھی آئیں گے،لہذٰا سب چیزوں میں برابری کرو، شوہر کہتا ہے جی میرا اتنا بڑا حق ہے کہ تمہیں پتھر اٹھانے کا کہوں تو بھی تمہیں ماننا ہوگا ، مجھ سے حقوق مانگنے کا سوچنا بھی گناہ ہے .

جبکہ خاندان والے چھوٹے جھگڑوں کو طرف داریوں سے بڑھادیتے ہیں۔ہرایک اپنی اپنی ہدایات پر عمل کرے تو ایسا کبھی نہ ہو ۔یہ مثال ہمارے لئے ایک نسخہء کیمیا ہے۔ چاہے والدین کے اولاد کے ساتھ تعلقات ہوں یا بڑے بھائی کے چھوٹے بہن بھائیوں سے معاملات ہوں ۔ چاہے باس اور ماتحت کے تعلقات ہوں یس استاذ کے شاگردوں سے رویے ہوں ۔

طاقتور اور بااثر فریق کو ہمیشہ نرمی اور شفقت سے چلنا چاہیے اور کمزور فریق کو صبر اور اطاعت کے ساتھ اور باہر کے لوگوں کو ان رشتوں کو باقی رکھنے اور مضبوط کرنے کے لیے ہرممکن کوشش کرنا چاہیے۔ یہی راز ہے دوطرفہ تعلقات کو بہترین حالت میں نبھانے کا