ہوم << مانچسٹر - امجد اسلام امجد

مانچسٹر - امجد اسلام امجد

مانچسٹر‘ لندن کے بعد غالباً برطانیہ کا سب سے بڑا شہر ہے جہاں اپنے ہم وطن بھی تعداد میں بہت زیادہ ہیں اور یہاں ان کی موجودگی سڑکوں پر آویزاں دوکانوں کے بورڈوں اور دیسی کھانوں کی بہتات سے بھی ہر طرف محسوس ہوتی ہے۔

لندن روانگی سے قبل فائقہ بی بی اور ان کے میاں ہمایوں صاحب نے ایک عشائیے کا وعدہ لے لیا تھا اور چونکہ ہمارے پاس صرف یہی ایک رات تھی چنانچہ بہت سے دوستوں سے معذرتیں کرنا پڑیں۔ ساٹھ کی دہائی میں آنے والے بیشتر لوگ بھی مانچسٹر اور بریڈ فورڈ میں بسائے گئے جس کی وجہ غالباً انھیں غیر تربیت یافتہ مزدوروں کے طور پر ان علاقوں میں موجود فیکٹریوں میں بھرتی کرنا تھا یہ اور بات ہے کہ ان دوستوں کی تیسری اور چوتھی نسلیں اب ہر میدان میں نہ صرف آگے ہیں بلکہ سیاست میں بھی ان کی نمایندگی بہت شاندار اور غیر معمولی ہے۔

یہاں سے یورپی یونین کے منتخب ہونے والے نمایندوں نے بھی پاکستان کے لیے بہت سی مراعات حاصل کرنے میں کلیدی رول ادا کیا ہے جس کی ایک روشن ترین مثال ہمارے دوست ڈاکٹر سجاد کریم ہیں جن سے چند برس قبل لاہور میں عزیزی ابرار الحق کے توسط سے ملاقات ہوئی تھی اور پھر یہ دو طرفہ رشتہ محبت پھیلتا ہی چلا گیا ان کے بے حد محبت بھرے اصرار پر جمعے کے روز دوپہر کا کھانا ان کے گھر پر طے پایا جو کوئی بیس میل کے فاصلے پر برنلے کے قریب ہے۔دلچسپ اور پرلطف بات یہ ہوئی کہ ابرار الحق بھی اپنے ’’سہارا‘‘ کی فنڈ ریزنگ کے لیے آئے ہوئے ہیں۔

لنچ میں اپنے بھائی میجر اسرار کے ساتھ شامل ہوئے اور یوں کچھ دیر کے لیے سجاد کریم کا گھر لاہور کی شکل اختیار کر گیا۔ یورپی یونین‘ برطانیہ کے اندرونی سیاسی خلفشار‘ پاکستان کی صورت حال اور وہاں سیلاب سے پیدا ہونے والی صورت حال پر گفتگو کے ساتھ پرانی یادوں اور لطائف کا سلسلہ بھی چلتا رہا اور وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔ تقریب میں لوگ تو خاصی بڑی تعداد میں آئے مگر معلوم ہوا کہ گزشتہ تقریباً ایک ماہ سے روزانہ کوئی نہ کوئی فنڈ ریزنگ سیلاب کے حوالے سے ہوتی ہے۔

غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کا یہ دورہ چونکہ برباد شدہ دیہاتوں میں اسکولوں کی تعمیر نو اور مرمت سے متعلق تھا اس لیے اس میں اس طرح کی فوری جذباتی اپیل کم تھی جس کا تعلق متاثرین کی حفاظت اور آبادکاری سے تھا مگر اس کے باوجود صورتحال قابو میں رہی۔ اسٹیج سیکریٹری کے فرائض خاکسار تحریک کے بانی علامہ عنایت اللہ مشرقی کے پوتے ڈاکٹر رحمان نے سرانجام دیے جو یہاں برطانوی اور پاکستانی تہذیب کے فروغ کے حوالے سے قائم ایک بہت بڑے ادارے کے سربراہ ہیں اور جن سے ان کے شاندار تاریخی دفتر میں بھی کچھ دیر پہلے ملاقات رہی تھی۔

اشتیاق میر کسی وجہ سے نہ آ سکے چنانچہ ان کی کتاب بھی برادرم صابر رضا کے حوالے کی گئی جو گزشتہ تیس برس سے مانچسٹر میں ہونے والی ہر ادبی تقریب میں سب سے پیش پیش ہوتا ہے۔ فائقہ گل سے چند برس قبل اسی شہر میں ایسی ہی ایک تقریب میں ملاقات ہوئی تھی جس میں انھوں نے مجھ پر لکھی گئی ایک کتاب ’’امجد فہمی‘‘ دو ہزار پاؤنڈ میں خریدی جو میں نے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کو یہ کہہ کر پیش کی تھی کہ اس سے ہونے والی آمدنی کو میری طرف سے بطور عطیہ قبول کر لیا جائے۔انھوں نے ہمارے وفد سے ملاقات کرانے کے لیے اپنے کچھ خاص احباب کو بھی مدعو کر رکھا تھا دونوں میاں بیوی نے میزبانی کے فرائض اس جوش اور خوشدلی کے ساتھ ادا کیے کہ دل خوش ہو گیا۔

نصر اقبال پاکستان میں ایک اعلیٰ سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد اب مستقل طور پر برطانیہ آ گئے ہیں جہاں ان کے خاندان کے بہت سے افراد پہلے سے موجود ہیں جب کہ ان کا آبائی تعلق وہاڑی سے ہے جہاں سے اس وقت بھی ان کے چھوٹے بھائی طاہر اقبال ایم این اے ہیں۔ یہاں وہ اعزازی طور پر غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ یو کے کے سی ای او بھی ہیں اور اس مشن سے ان کی جذباتی وابستگی کا عالم یہ ہے کہ ہمارے قیام کا سارا عرصہ انھوں نے گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر کسی اور کو بیٹھنے نہیں دیا اور تقریباً ہر روز نہ صرف پانچ چھ گھنٹے انتہائی خوشدلی سے گاڑی چلائی بلکہ ہر تقریب میں اسٹیج کو بھی سنبھالے رکھا۔ خالد مسعود اور ان کے درمیان فوری طور پر جملے بازی کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو گیا۔

جس نے سارے سفر کو خوش گوار بنائے رکھا کہ ان کی نوک جھونک خوش دلی اور خوش مزاجی کا ایک بہت پر لطف مجموعہ تھی۔ میری لاہور سے ساتھ آنے والی خشک کھانسی ایک دن کچھ زیادہ بڑھ گئی۔ ڈاکٹر نیلم فواد نے ایک خاص شربت کا نام بھجوایا اور پھر ایسی تاکید کے ساتھ مستقل رپورٹ لیتی رہیں کہ مجبوراً اس شعر کا سہارا لینا پڑا

کچھ اس ادا سے آپ نے پوچھا مرا مزاج

کہنا پڑا کہ شکر ہے پروردگار کا

لندن سے ساجد خاں‘ سید انور سید شاہ‘ راشد عدیل ہاشمی اور عزیزہ اسماء کے محبت بھرے پیغامات اور مزاج پرسی نے ڈاکٹر نیلم کی دوا کے ساتھ مل کر کچھ ایسا اثر کیا کہ واقعی طبیعت ایک دم بہتر ہو گئی۔ ہفتے کے روز اپرڈین aberdeen میں پروگرام تھا۔ معلوم ہوا کہ یہ مقام گلاسگو سے بھی تقریباً تین گھنٹے کے فاصلے پر ہے جو برطانوی تیل کا مرکز ہونے کی وجہ سے انجینئرز کا گڑھ ہے اور وہاں کی تقریباً ایک ہزار کی پاکستانی آبادی کے لوگ بھی بیشتر اسی شعبے سے متعلق ہیں، رستے کے درمیان میں ’’ڈنڈی‘‘ نامی شہر میں کھر کے برادر خورد فخر کا گھر تھا جہاں سے ان کو ساتھ لینا تھا کہ گزشتہ سفر میں انھوں نے ہمارے ساتھ گاڑی چلانے کی سختی برداشت کی تھی۔

Comments

Click here to post a comment