برصغیر میں علماء اور مذہبی فکر کی مخالفت کئی طریقوں سے تقریباً ڈیڑھ صدی سے جاری ہے۔ مخالفت کے تمام تر طریقوں میں سے سب سے خطرناک وہ لوگ ہیں جو خود کو مذہبی کہلاتے ہیں مگران کا فہم دین پوری امت سے ہٹ کر کچھ اور ہوتا ہے۔ مثلاچند روز قبل محترم خورشید ندیم صاحب نے روزنامہ دنیا میں ایک کالم لکھا ہے جس میں اسی طرح کی فکر کی ترجمانی کی گئی ہے ۔
خورشید ندیم صاحب محترم جاوید احمد غامدی صاحب کے شاگرداور ان کے فہم دین کے ترجمان بھی ہیں۔ اپنے حالیہ کالم ــ’’ایران اور مذہبی ریاست کے دیگر تجربات ‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میںانہوں نے افغانستان میں طالبان کی حکومت ، ایران میں خمینی صاحب کی حکومت اور سعودی عرب کی بادشاہت کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا ہے اوران سب کو پاپائیت قرار دیکر ایران میں ہونے والے احتجاج کو سب کے کھاتے میں ڈال دیا ہے ۔مثلا خورشید ندیم صاحب لکھتے ہیں کہ ایران میں برسر اقتدار مذہبی طبقے کے حامیوں اور مداحوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں بھی بستی ہے۔ ایران کا انقلاب فرقہ وارانہ تقسیم سے ماورا اہل پاکستان کی ایک بڑی تعداد کے لیے بھی طویل عرصہ باعث کشش رہا ہے۔
یہ طبقہ خیال کرتا ہے کہ ہمارے مسائل کا حل ایران جیسی اسلامی ریاست کے قیام میں ہے۔یہی طبقہ ہے جو افغانستان میں طالبان کی حکومت کو بھی مثالی سمجھتا ہے اور ایران کے بعد اسے ایک دوسری نظیر کے طور پر پیش کرتا ہے جہاں اسلام نافذ ہے۔ سعودی عرب کے بارے لکھتے ہیں کہ ایک گروہ سعودی عرب کے نظام کو بھی ہمارے لیے بطور مثال پیش کرتا رہا ہے جہاں ان کے خیال میں اسلام نافذ ہے۔ آگے لکھتے ہیں کہ اس نظام سیاست میں مذہبی طبقہ خدا کے نام پر حکومت کرتا ہے اور یہ باور کراتا ہے کہ وہ اس زمین پر خدا کا نمائندہ ہے۔ انکی مخالفت گویا خدا کی مخالفت ہے جس دلیل کو ماضی میں بنو عباس جیسے مملوک نے استعمال کیا۔ موجودہ دور میں ایران اور افغانستان کے حکمران بھی اسی کو استعمال کر رہے ہیں۔
یہی ان میں قدر مشترک ہے۔مزید لکھتے ہیں کہ خلافت راشدہ مذہبی طبقے کی حکومت ہرگز نہ تھی۔ وہ اچھی گورننس کی ایک صورت تھی جو رہتی دنیا تک ایک مثال رہے گی۔ بعد میں آنے والوں نے یہ سمجھا کہ خلافت راشدہ یا اسلامی حکومت سے مراد مذہبی طبقے کی حکومت ہے۔ اسی کو خلافت اور ولایت فقیہ کے عنوان سے نافذ کرنے کی کوشش کی گئی اور اس کا انجام ہمارے سامنے ہے۔ یہ ایران کے مذہبی پیشوا ہوں یا افغانستان کے طالبان سب کا فہم اسلام یہ ہے کہ عورتوں پر پردے کے مخصوص اور گروہی تعبیر پر مبنی احکام نافذ کرنے سے نفاذ اسلام کا تقاضا پورا ہو جاتا ہے۔ رہی عوام کی معاشی خوش حالی اور سیاسی و شخصی آزادی تو یہ اسلامی ریاست کے مسائل نہیں ہیں۔ آگے لکھتے ہیں کہ مذہبی طبقے کی حکومت اب ماضی کی داستان ہے تاریخ آگے بڑھ رہی ہے اس کی گردش کو معکوس کرنے کی ہر کوشش کا انجام ناکامی ہے۔ افغانستان کے طالبان کو بھی یہ بات سمجھانا ہوگی۔
یہ اس سارے مقدمے کا خلاصہ ہے جو خورشید ندیم صاحب نے قائم کیا ہے ۔ میں محترم خورشید ندیم صاحب کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ نے جو تقابل کیا ہے وہ آپ کی معلومات کی کمی کی وجہ سے ناقص اور ادھورا ہے ۔ایران میں شیعہ کی حکومت ہے اور ولائت فقیہ میں سب اختیار امام وقت کو حاصل ہوتے ہیں۔ حتی کہ امام قرآن کے خلاف بھی حکم صادر کرنے کے اختیار رکھتا ہے۔ شریعت کی ہر صریح نص اسکے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔ سعودی عرب میں بادشاہت ہے اور بادشاہت بھی خلافت عثمانیہ سے بغاوت اور فرنگی کی معاونت کے بدلے ملی ہے۔ سعودی عرب میں سو فیصد قانون بادشاہت کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ہیں۔
شریعت کا نام عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ہے اور پھر سعودی عرب جس نے نئے اقدامات کے تحت دنیا بھر میں ہونے والی برائیوں کو سعودی عرب میں لانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں اس کی خاندانی حکومت کو مذہبی طبقے کی حکومت قرار دینا اور پھر طالبان سے نسبت باندھنا کذب بیانی اور بہتان بازی کا مکسچر ہے۔خورشید ندیم صاحب کو طالبان کی مخالفت کے لیے کچھ ہاتھ نہیں آیا تو انہوں نے ایران میں پولیس کی کسٹڈی میں فوت ہونے والی کرد لڑکی ’’ مہسا امینی ‘‘ کی موت پر ہونے والے احتجاج کو گراؤنڈ بناکر اور سعودی عرب تک طویل سفر طے کرکے طالبان کی مخالفت میں داستان تشکیل دی ہے۔ فوت ہونے والی لڑکی کا تعلق کرد قبائل سے ہے۔ کرد قبائل سنی مسلمان ہیں اور چالیس سال سے خمینی حکومت کے مظالم سہہ رہے ہیں۔ کرد سنی مسلمان سمجھتے ہیں کہ ہماری لڑکی مہسا امینی کو مذہبی تعصب کی وجہ سے قتل کیا گیا ہے۔
اب کرد قبائل خمینی حکومت کے جبر و ظلم سے نجات کے لیے ایران میں سڑکوں پر ہیں۔ خورشید ندیم صاحب نے طالبان کی مخالف داستان میں رنگ بھرنے کے لیے اس لڑکی کی لاش استعمال کی ہے اور پھر جوش خطابت یا طالبان کے بارے جوش مخالفت میں خلافت راشدہ کو مذہبی طبقے کی حکومت ماننے سے ہی انکار کر دیا ہے۔ مذہبی طبقہ اور غیر مذہبی طبقہ یہ دو طبقات ایک دوسرے کے متوازی طبقات ہیں۔ یعنی خلافت راشدہ اگر مذہبی طبقے کی حکومت نہ تھی تو نعوذباللہ خلافت راشدہ والے غیر مذہبی لوگ تھے۔ خورشید ندیم صاحب نے تو تعصب طالبان میں اپنے استاد محترم جاوید احمد غامدی صاحب کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ وہ یہ کیسے بھول گئے کہ خلافت راشدہ کے لوگ زمین پر سب اعلی مذہبی طبقہ تھا ،گڈ گورننس تو ان کی پر خلوص محنت کا نتیجہ تھا۔
خلافت راشدہ والوں کے ایمانی جذبہ سے حاصل کیے گئے اعلی نتائج کو اپنے فہم کو تقویت دینے اور طالبان کی مخالفت کے لیے خلافت راشدہ والوں کو مذہبی طبقہ ہی سے خارج کر دینا تعصب کی بدترین شکل ہے۔ ایران کی ولائت فقیہ اور سعودی بادشاہت کے ساتھ طالبان کو نتھی کرنا تو کسی حد تک قابل قبول تھا مگر خلافت راشدہ کو مذہبی طبقہ نہ ماننا سنگین جرم ہے۔ افغانستان کے طالبان ایران کی ولائت فقیہ کی طرح دین اسلام میں رد و بدل کا کوئی ذاتی اختیار نہیں رکھتے۔ سعودی بادشاہت کی طرح عالمی استعمار کی غلامی میں مخلوط میوزیکل کنسرٹ منعقد کرنے یا عالمی استعمار کے زیر نگرانی اپنی حکومت کے تحفظ کے لیے کوئی غیر شرعی قانون بنانے کا اختیار نہیں رکھتے۔
طالبان سو فیصد شریعت محمدی پر عمل پیرا ہیں اور اپنے آپ کو قوم کا خادم سمجھتے ہیں۔ طالبان کو مندرجہ بالا دونوں حکومتوں کے ساتھ نتھی کرنا سراسر زیادتی اور ظلم ہے۔ عورت کے پردہ کے احکامات طالبان کی قید میں رہ کر اسلام قبول کرنے والی ہماری بہن ایوان ریڈلی جو اب مریم کے نام سے مشہور ہیں اور شرعی پردہ کے ساتھ پوری دنیا میں دین اسلام کی داعیہ کے طور پر جانی جاتی ہے ، یہ احکام ان کوتو سمجھ آگئے مگر خورشید ندیم صاحب کو شرعی پردہ کے احکام پاکستان میں پیدا ہوکر سمجھ نہیں آئے۔
خورشید ندیم صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ طالبان اس وقت ایک بار پھر امارات اسلامی افغانستان کو اسلامی تعلیمات کے مطابق عالمی استعمار کی غلامی سے ہر طرح سے آزاد ، پرامن ، مخدرات سے پاک ، تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر سے افغانی بھائی بہتر مستقبل کی خاطر واپس افغانستان لوٹ رہے ہیں۔
تبصرہ لکھیے