ہوم << ماہ ربیع الاول اور ہماری ذمہ داری- راؤ عمر فاروق

ماہ ربیع الاول اور ہماری ذمہ داری- راؤ عمر فاروق

ماہ ربیع الاول جاری و ساری ہے، ربیع لاول کا مہینہ وہ بابرکت مہینہ ہے جو بااتفاق امت محبوب دو جہاں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں آنے کا مہینہ بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہادئی عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رحلت فرمانے کا مہینہ بھی ہے۔

اسی لیے ماہ ربیع لاول کے آتے ہی عالم اسلام کا دھیان آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی طرف لگ جاتا ہے اور مسلمان جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت و عقیدت کے اظہار کے لیے مختلف طریقے اپناتے ہیں جن میں سے اکثر و بیشتر طریقے علماء کی رہنمائی پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے شریعت سے ہٹے ہوئے ہیں۔ اور ظاہر سی بات ہے جب بھی کسی مسئلے میں شریعت کی رہنمائی حاصل نہ کی جائے تو وہاں گمراہی کے امکانات بہت حد تک بڑھ جاتے ہیں۔ چانچہ اسی مناسبت سے چند گذارشات پیش کرنے کا خیال ہوا کہ شائد کسی کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے۔

سب سے پہلے ہمیں اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ ایک بعثت نبوت ہے اور ایک مقصود بعثت نبوت ہے۔پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیا میں تشریف لانا بہت ہی بابرکت ہے اور یقینا انتہائی خوشی کا مقام ہے اور ہونا بھی چاہئے کیوں کہ یہی تو وہ مبارک ہستی ہیں جن کے لیے کائنات کو سجایا گیا اور وجہ کائنات قرار پائے۔میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیا میں تشریف لانا بھی نرالا تھا، سیرت کی کتب میں لکھا ہے حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب سے یہ بچہ میرے شکم میں آیا ہے ہر چیز مجھے سلامی پیش کرتی نظر آتی ہے،اور میرے لعاب میں سے خوشبو پھوٹتی ہے جس راستے سے میں گزرتی ہوں وہ راستہ معطر ہو جاتا ہے۔صرف اتنا ہی نہیں ولادت با سعادت سے لے کر نبوت کے ظاہر ہونے تک کے مناظر پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو واضح دکھائی دیتا ہے.

اس عظیم ہستی کی تربیت خود رب کائنات فرما رہے ہیں شق صدر سے لے کر ستر سے کپڑا ہٹتے ہی بیہوش ہو جانا جیسے واقعات جس کی واضح دلیل ہیں۔اور اس کے ساتھ ساتھ دوسری چیز مقصود بعثت نبوی ہے یہی وہ اصل مقصد تھا جس کے لیے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں مبعوث فر مایا گیا۔یہی وہ وجہ تھی جسے قرآن نے ''وماارسلناک الا رحمت للعالمین''سے تعبیر کیا، جس کو ایک روایت کے مطابق اماں آمنہ رضی اللہ عنہا اس طرح بیان فرماتی ہیں کہ جب جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے تو سب سے پہلا کام رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیا کہ شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور پھر سجدہ کیا اس کے بعد عام بچوں کی طرح لیٹ گئے۔

یہ واقعہ بھی آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے مقصد کو خوب وضاحت کے ساتھ بیان کر رہا کہ میرے نبی نے دنیا میں تشریف لاتے ہی کفر کے ایوانوں کو للکارا اور ان پر یہ چیز خوب اچھی طرح واضح کر دی کہ کفر کے ستونوں کان کھول کر سن لو اب آپ کے خاتمے کا وقت آن پہنچا ہے جس کو قرآن نے کیا خوب انداز میں ''جاء الحق وزھق الباطل''کہ بیان کیا اصل میں یہ آیت کفر کے سرغنہ لوگوں کے لیے واضح اعلان تھا کہ آپ کی بدماشی کا وقت ختم ہو گیا ہے،اب کوئی این آر او نہیں ہونے والا بس ایک ہی راستہ ہے یا اپنے افعال سے باز آجاؤ یا پھر حق کے مقابلے کے لیے تیار ہو جاؤ جس کی یقینا آپ لوگ سکت نہیں رکھتے۔چانچہ تاریخ گواہ ہے جو بھی کفر پر مصر رہ کر میدان میں اترا دنیا و آخرت کی ذلالت و تباہی اس کا مقدر بنی۔

آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ چچا جس نے رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی اس انداز میں منائی کہ پیغام سنانے والی باندی کو ہی آزادی کا مژدہ سنا دیا، لیکن جب مقصود بعثت نبوت کی باری آئی تو یہی چچا عبد العزہ جسے دنیا ابولہب کے نام سے جانتی ہے سب سے پہلا مخالف بنا اور جب فران کی چوٹی پر آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت حق کا اعلان کیا اور لوگوں کو ایک اللہ کی طرف بلایا سب سے پہلے یہی ابولہب آگے بڑھا اور کہنے لگا ''تبالک یا محمد الہذا جمعتنا'' (نعوذ باللہ) جس کا جواب خود خالق کائنات نے قرآن کی صورت میں ان الفاظ میں دیا ''تبت یدا ابی لہب و تب'' اور ابو لہب کی ہلاکت کا واضح اعلان کیا دنیا جانتی ہے یہ وہی چچا تھا جو بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر تو خوشی منا رہا تھا.

لیکن مقصود بعثت نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا رہا تھا، تو قرآن نے اس کی ہلاکت کا واضح اعلان کر کے دنیائے انسانیت کو کھلا پیغام دیا کہ صرف ولادت نبوی پر شامیانے بجانے سے کہیں زیادہ ضروری مقصود بعثت نبوی کو اپنانا اور عمل پیرا ہونا ہے، نہیں تو ان مشرکین مکہ کا حال آپ کے سامنے ہے جو مقصد کو جھٹلا کر باوجود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ دار ہونے کے تباہ و برباد ہوئے۔تو میں اور آپ کس باغ کی مولی ہیں،اس لیے ہمیں چاہیے ہر آنے والے ماہ ربیع الاول میں فضول لغویات میں لگنے کی بجائے اپنے عقائد و اعمال کا محاسبہ کریں اور اس بات پر توجہ مرکوز کریں کہ کمی کہاں واقعہ ہو رہی ہے اور اس کے ادراک کی کیا صورت ہے.

یقین جانئیے جس دن ہم نے یہ عمل شروع کر دیا تو وہ دن دور نہیں کہ ہمارا معاشرہ ریاست مدینہ کی یاد تازہ کر دے، اور کے ساتھ ساتھ محسن کائنات پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ سے زیادہ درود و سلام کا ہدیہ پیش کریں، اللہ تعالی ہم سب کو اپنی جناب سے توفیق عطاء فرمائے۔آمین۔

Comments

Click here to post a comment