ہوم << قصہ درویش - احسن اختر

قصہ درویش - احسن اختر

درویش نے زندگی میں کبھی ستاروں کے علم پر یقین نہ رکھا ، لیکن اس کی رائے میں کچھ کچھ تبدیلی آ گئی کہ اب وہ سمجھنے لگا ہے کہ ستاروں کی گردش سے انسان سیدھا جاتے جاتے کبھی ایسے چکر میں پڑ جاتا ہے کہ وہ کو چکرا جائے ۔صوبہ سندھ کی سائیں سرکار حکومت کسی بھی شہری کو چکر میں مبتلا کر سکتی ہے۔

ہی جانتے ہیں کہ درویش قانون پسند شہری اور محب وطن انسان ہے۔رشوت کو ہر صورت حرام جانتا اور سفارش سے کوسوںدور رہتا ہے۔لیکن سندھ سائیں سرکار شکر خورے کو شکر فراہم کردیتی ہے یعنی درویش کو اس کی نااہلی کی داستان عوام کے سامنے پہنچانے کاموقع مل جاتا ہے۔قصہ کچھ یوں ہے کہ درویش کو ایک اہم کام کے لئے درخواست کے لئے تقریباً 16 دستاویز کی معلومات اور کاپیاں درکار تھیں، اس میں ایک دستاویز ، انکم سرٹیفکیٹ تھا ،جو ڈسٹرکٹ کے ریوینیو افسر سے ہی مل سکتا تھا۔تقریباً سب دستاویزات درویش نے فراہم کردیں .

انکم سرٹیفکیٹ بھی کوئی مسلہ نہ تھا کیونکہ درویش پہلے ہی ٹیکس پیڈ تھا، اس نے انکم ٹیکس وکیل سے ایف بی آر سرٹیفکٹ نکال کے معلومات کیں کہ انکم سرٹیفکیٹ کہاں سے بنے گا ،؟ پتہ یہ چلا کہ آ پ کے شناختی کارڈ پر جو ضلع درج ہے اس کے ڈی سی آ فس میں جا کر ایک درخواست ریونیو افسر کو دینا
ہوگی، درویش کے شناختی کارڈ میں ڈیفینس ویو ضلع کراچی جنوبی درج تھا وہ صبح ہی صبح نو بجے ڈی سی آ فس جنوبی نزد صدر روانہ ہوگیا۔ ساڑھے نو بجے پہنچنے کے بعد معلومات کی تو پتہ چلا ریونیو افسر تیسری منزل پر براجمان ہوتے ہیں ، لفٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے سیڑھیاں پھلانگتا تیسری منزل پر بھوت بنگلے پہنچ گیا ، یہاں نا آ دم نا آدم زاد، کچھ دیر بعد ایک مرد جواں نظر آ یا.

درویش کی جاں میں جاں آ ئی ، سانس درست کرتا اور صاحب کے بارے میں دریافت کیا تو اس مرد شریف نے کہا کہ وہ بھی صاحب ہے لیکن تھوڑا سا چھوٹا ، وہ کمرے میں داخل ہو کر سیٹ پر براجمان ہوگیا درویش بھی ادب سے دو زانو ہو کر اس کے سامنے پیش ہوگیا ،اور بڑی عاجزی سے اپنی تھیلی سے کاغذی پلندہ نکال کر صاحب کی خدمت میں پیش کر دیا، صاحب نےکاغذات دیکھنے سے بھی پہلے شناختی کارڈ دیکھا اور خوشی سے کہا کہ یہ کام یہاں نہیں ہو سکتا، ( یہ شادی یہاں نہیں ہوسکتی)درویش نے استفسار کیا کہ حضرت کیوں نہیں ہوسکتا؟صاحب مسکرا کر گویا ہوئے کہ اصل میں غلطی تمہاری ہے کہ تم نے اپنے شناختی کارڈ پر ڈیفینس ویو کا پتہ لکھوایا، تمستاروں کا علم سیکھ لیتے تو آج یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا.

پہلے تمہارا محلہ ڈیفینس ویو ضلع جنوبی میں ہی تھا لیکن سائیں سرکار نے کچھ کام تو کرنا ہی ہوتا ہے لہذا اس نے ڈیفینس ویو کو اٹھا کر ایسٹ یعنی ضلع شرقی میں پھینک دیا، درویش نے استفسار کیا کہ سائیں ایسا کیوں کرتے ہیں ، صاحب نے کہا کہ بڑے لوگ ہیں بڑے بڑے کام کرتے ہیں۔ درویش نے عاجزی سے دونوں ہاتھ۔ باندھ کر صاحب سے پوچھا کہ اب وہ کہاں جائے اور کیا کرے۔۔۔؟صاحب نے سینہ تان کر ارتغل سیریز کے ترکی اداکاروں کے انداز میں سینے پر ہاتھ مار کر کیا بابا تو ضلع شرقی کے ڈی سی آفس جا اور یہ درخواست پھاڑ کر نئی درخواست بنا ڈپٹی کمشنر ایسٹ کے نام وہاں تیری مراد پوری ہوگی، درویش نے دریافت کیاکہ صاحب یہ دفتر کہاں ملے گا، صاحب گویا ہوئے کہ سوک سینٹر کے پاس یہ دفتر ہوگا .

درویش خوشی سے پھولا نہ سمایا کہ چلو کل یہ کام ہو جائے گا ۔ لیکن درویش ستارے کی خطرناک ترین چال سے بے خبر تھا جس سے درویش کی چال میں لازمی لڑکھڑاہٹ آ نی تھی۔اگلے دن درویش اپنی موٹر سائیکل پر پٹرول ڈلوا کر دور سوک سینٹر کی جانب رواں دواں ہوا، اور کچھ دیر بعد منزل مقصود ڈ ی سی ایسٹ کے کے دفتر پہنچ گیا ،درویش اپنی ٹائی درست کرتا وہاں موجود چھوٹے صاحب کے پاس پہنچا اور اپنا مدعا بیان کیا، چھوٹے صاحب نے پھر شناختی کارڈ کا جائزہ لیا اور زیر لب مسکرا کر فرمایا( یہ شادی یہاں نہیں ہو سکتی) یہ کام یہاں نہ ہوگا، درویش نے گردن جھکا کر دریافت کیا ، یہ یہاں کیوں نہیں ہوگا۔۔۔۔؟

چھوٹے صاحب نے کہا کہ بابا گھبرا نہیں کیونکہ سابق وزیراعظم نے فرمایا تھا کہ گھبرانا نہیں ہے۔اس لئیے تو یہاں سے باہر جا دائیں مڑ جا، پھر اور بائیں مڑ جائیو،وہاں اے سی فیروز آباد کے دفتر میں تیرا منشا پورا ہوگا۔ دیکھ اپنی درخواست اے سی فیروز آباد کے نام لکھ کر جا تاکہ عین موقع پر پریشان نہ ہو۔ رستے میں پتھر اور کچرا دیکھ کے ڈرنا نہیں کیونکہ یہ صوبہ سندھ کے وہ دفاتر ہیں جہاں اربوں روپے روز کا کالا دھن بٹتا ہے ، اردگرد رجسٹرار افسروں کے دفاتر ہیں جہاں عوام اپنے نام اپنی جائیداد کرانے کے لئے رقومات خرچ کرتے ہیں۔اور افسران اس پیسے سے اپنے گاؤں میں زمینیں خریدتے ہیں۔درویش نے ایسا ہی کیا اور اے سی فیروز آباد کے دفتر میں پیش ہوگیا، وہاں بھی ایک مرد نحیف اپنی عقابی آ نکھوں سے شناختی کارڈ کا جائزہ لیتے ہی اپنی ہنسی دباتے ہوئے بولے کہ (یہ شادی یہاں نہیں ہو سکتی)یہ کام ہم نہیں کر سکتے۔

درویش نے تحمل مزاجی سے پوچھا "کیوں نہیں کر سکتے" صاحب جی بولے آپ کا کام ہم نہیں مختیار کار کرے گا ،تو ایسا کر کان کی سیدھ میں ناک کی آ ڑ میں جا الٹی آ نکھ سے جو کمرہ نظر آ ہے وہی تیری منزل مقصود ہوگی، جب کام ہو جائے تو ہمارے لئے دعا کیجئیو کہ ہم نے تجھے صراط مستقیم دکھایا۔
درویش نم آ نکھوں سے صاحب کرم نواز کی نسلوں کے لئے دعائیں کرتا مختیار کار فیروز آباد کے دفتر پہنچ گیا۔ وہاں ایک بظاہر نیک صورت صاحب دل سے ملاقات ہوئی جس کے حوالے اپنا اعمال نامہ کیا اور بیٹھنے کی اجازت طلب کی، یہ چھوٹے صاحب درویش سے شناختی کارڈ کے طالب ہوئے۔

درویش نے دھڑکتے دل ، لرزتے ہاتھوں سے اپنا شناختی کارڈ صاحب کے حوالے کیا ،صاحب نے شناختی کارڈ پر اعتراض نہ کیا فرمانے لگے کتنی آمدنی ہے تمہاری، درویش ٹہرا سادہ دلوں سادہ لباس ، مسکرا کر گویا ہوا صاحب ایف بی آر کا سرٹیفکٹ لگا ہوا ہے درخواست کے ساتھ جتنی آ مدنی ہے درج ہے ۔ویسے
لوگ تو صورت دیکھ کر ہی جیب کا حال جانچ لیتے ہیں۔چھوٹے صاحب تفصیل سے تمام دستاویزات کا۔ مطالعہ کرتے رہے اور کوئی سقم نہ پاکر بڑے صاحب کے پاس تشریف لے گئے۔ درویش ناخوش تھا کہ بات جلدی نمٹ گئی، سائیں سرکار کے بارے میں صرف اتنا ہی لکھنا پڑے گا ،درویش کا ارادہ تو دو تین
قسطوں کے کالم کا تھا۔

پندرہ منٹ بعد چھوٹے صاحب اپنی ہنسی ضبط کرتے اور درویش کی جانب طنزیہ انداز سے بڑھے اور گویا ہوئے( یہ شادی نہیں ہو سکتی) یہ کام یہاں نہیں ہو سکتا۔ درویش اوپر سے رنجیدہ اور اندر سے سنجیدہ ہو کر بولا ! بھائی میاں یہ یہاں کیوں نہیں ہوگا، میرا کارڈ آ پ کی حدود کا ہے۔ چھوٹے میاں نے کہا کہ درست ہے کہ تم فیروز آباد کی حدود میں آ تے ہو لیکن تمہارا کاروبار خوش قسمتی سے ضلع جنوبی میں ہے۔لہذا ہمیں تمہارا کام نہ کرنا پڑے گا۔۔۔۔۔اب تم کو ڈی ایم سی ساؤتھ جانا ہوگا۔ درویش خوشی سے پھولا نہیں سمایا اور ان کو بتایا کہ جناب مہرباں میں آ پ کی بات سے اتنا باغ باغ ہوا ہوں کہ دل چاہتا ہے کہ
آپ کی پیشانی چوم لوں، لیکن مجبوری یہ ہے کہ پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف ،اور ن لیگ نے ٹرانس جینڈر ایکٹ منظور کرلیاہے کہیں ایسا نہ ہو کہ تیری پیشانی چومتے دیکھ کر لوگ غلط فہمی کا شکار ہوجائیں۔

لیکن تیرے اس انکار پر کہ یہ کام یہاں نہ ہوگا میرا دل ہے کہ تیرے ساتھ کچھ باتیں ہو جائیں، پھر درویش نے اس کو بتایا کہ درویش ایک عادی مجرم بھی ہے ، فدوی ایک چھوٹا سا بلاگر ہے ، پہلے بھی ایک تفصیلی تحریر تمہارے محکمہ کے حوالےسے لکھ چکا ہے جس کا عنوان " ڈومیسائل اور حکومت سندھ ہے"پھر درویش نے زبردستی چھوٹے صاحب کو داستان دل سنائی کہ کیسے پہلے درویش ضلع جنوبی کے دفتر گیا اور پھر اس کو شرقی کے دفتر میں سیر کرائی گئی اور پھر اے سی فیروز آباد کے دفتر کی بتیاں دیکھیں اور پھر اب مختیار کار فیروز آباد کے دفتر میں پہنچا۔

چھوٹے صاحب کا دل اس داستان غم سن کر بھر آ یا۔وہ سندھ سرکار کے سسٹم کی تعریف میں رطب اللسان ہوئے، درویش نے ان کو بتایا کہ طویل مضمون قارئین سے پڑھنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ لوگ بہت ہی مصروف رہتے ہیں، چھوٹے صاحب نم آ نکھوں سے گویا ہوئے کہ جناب آ پ خود بڑے صاحب
سے مل لیں، درویش زندگی میں کبھی کسی بڑے صاحب سے نہ ملا تھا ۔اس کو تجسس تھا کہ وہ دیکھے کہ بڑے بڑے صاحب کیسے ہوتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے کام بھی بڑے کر دیتے ہیں یہاں تک کہ درویش بھی لکھتے لکھتے تھک جاتا ہے۔ چھوٹے صاحب گئے اور بڑے صاحب کے کمرے کی طرف شرف باریابی کی نوید سنائی ۔درویش کمرے میں داخل ہوا ،جھک کر کورنیش بجا لایا، بڑے صاحب بھی چھوٹے صاحب کی ہی طرح کے تھے۔

تفصیلی بات چیت ہوئی درویش نے یہ خیال آ رائی کی کہ جب ہمارے شناختی کارڈ پر نمبرز کے زریعے نادرا سب کچھ خبر کر سکتا ہے کہ ہم کتنے پانی میں ہیں تو اتنی پنچائیت کس بات کی ہوتی ہے، صاحب لاجواب تھے بات صرف ایک ہی تھی کہ جاؤ ضلع جنوبی ، جاؤ ضلع جنوبی ۔ درویش دوبارہ ضلع جنوبی پہنچا ، وہاں پھر تیسری منزل چڑھا، وہاں ایک نیک دل صاحب کو سارا ماجرا سنایا، نیک دل صاحب بھی سر کو دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں ہلا کر بولے کہ درویش درست ہے تیرا کام یہاں نہیں ہو سکتا( یہ شادی یہاں بھی نہیں ہو سکتی) کیونکہ تیرے کاروبار کی جگہ ضلع جنوبی میں سول لائن میں آ تی ہے تو اے سی سول لائن جا وہاں تیرا کام ہوگا۔

درویش نے استفسار کیا کہ وہ کہاں ہے ،صاحب نے بتایا میٹروپول ہوٹل سے پرل کانٹینینٹل ہوٹل کی طرف چلے جا تیری منزل وہیں کہیں ہے، درویش کے منہ میں بھوک سے پانی بھر آیا ہوٹلوں کا نام سن کر بھوک جاگ گئی۔خیر سول لائن اے سی دفتر پہنچ گیا۔ وہاں جا کر پھر شناختی کارڈ نکال کاغذات پیش کئیے صاحب نے دیکھتے ہی کہہ دیا ( یہ شادی یہاں نہیں ہوسکتی) یہ کام یہاں نہیں ہوگا، اور تو جہاں سے آ یا ہے وہیں واپس جا کر اے سی فیروز آباد وہاں تیرا مقدر کا ستارہ عروج پر ہے وہیں کام ہوگا۔درویش نے ایک بار پھر روداد الم سنائی تو کہنے لگے کہ جو شناختی کارڈ پر موجود پتہ کا ضلع ہو گا وہی یہ کام کرے گا،

درویش نے کہا کہ اس نے اس بات کا تزکرہ مختیار کار دفتر میں کیا تھا تو یہ بتایا گیا کہ اس کا کاروبار کا ضلع جنوبی ہے لہذا اس کا کام یہاں ہوگا، صاحب بولے کہ کیا میں غلط کہ رہا ہوں ۔؟ درویش نے کہا نہیں صاحب نہ آپ غلط کہ رہے ہیں ۔نہ مختیار کار فیروز آباد غلط کہ رہے تھے غلط تو درویش خود ہے، جو ہر علاقے کے دفاتر کے باہر موجود ایجنٹوں کی دکانوں سے صرف نظر کرتا اپنا کام کرانے سندھ حکومت کے قابل افسران کے پاس چلا آ یا۔ درویش نے اپنے کاغذات اٹھائے اور خوشی خوشی باہر نکل کر اپنے کاغذات پھاڑ کر کچرے دان میں ڈال دئے۔اور اپنی منزل کی جانب موٹر سائیکل پر روانہ ہوگیا۔اس کو خوشی تھی کہ ایک اچھا کالم تمام ہوا گو کہ آدھا دن بیت گیا۔

درویش پر بیتی نااہلی اور کرپشن کی سچی داستان ہمارے صوبہ سندھ کے کرپٹ ترین نظام کا نوحہ ہے۔ہمارے دفاتر کے اوقات 8 بجے سے شروع ہوتے ہیں اور کلرک بابو 11 بجے دفتر کا تالہ کھولتے ہیں ، بڑا صاحب تو ظہر کی اذان سن کر وضو بنا کے ہی گھر سے باہر نکلتا ہے۔ درویش چشم دید گواہ ہے، ہر دفتر میں کام کرانے کو دفاتر کے باہر دلال دکانیں لگائے بیٹھے ہیں جہاں سے ہی کام ممکن ہوتا ہے۔موجودہ بدترین صورتحال عدلیہ سمیت تمام محتسب اداروں کی توجہ کی طالب ہے۔ کیا کوئی اس جانب توجہ دے گا اور کوئی کرپشن کے زمہ داران کو سزا دے گا؟ سزا کون دے گا اور کس کو ملے گی،قوم منتظر ہے....