ہوم << جملہ بیانئے واپس- عبداللہ طارق سہیل

جملہ بیانئے واپس- عبداللہ طارق سہیل

لگتا ہے ، عمران خان صاحب کے پانچ بڑے بیانئے ان کیلئے بڑے بوجھ بن گئے تھے اور چند مہینوں کے دوران کئے جانے والے پچاس جلسے ان بیانیوں کا بوجھ ہلکا کرنے کے بجائے مزید بھاری کر گئے چنانچہ انہوں نے یہ ”درست“ فیصلہ کیا کہ اب یہ بوجھ اُتار پھینکیں اور کل رات انہوں نے یہ بوجھ اُتار پھینکا۔

امریکی غلامی سے آزادی امریکہ سے دوستی اور امریکی سفارت کاروں سے رابطے اور نامہ و پیغام میں بدل گئی۔ یہ بیانیہ یوں ترک ہوا۔ میر جعفر میر قاسم غدار وغیرہ کا بیانیہ ایک سال کی مزید ایکسٹینشن کے مطالبے میں بدل کر دریا برد ہوا اور عنوان اس کا ”مجھے پھر سے اپنا بنا لو سائیاں“ میں بدل گیا۔ چوروں ، ڈاکوﺅں کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرنے سے بہتر ہے میں مر جاﺅں کا آہنی عزم میں تو مذاکرات کے لیے تیار ہوں، کوئی مجھ سے بات تو کرو کے ریشمی لچھے میں تبدیل ہو گیا۔ لانگ مارچ کی کال نہ دینے کا ماجرا بیانیوں کی شکست کی تمہید تھا۔ یہ بیانیہ کہ نواز زرداری چور ہیں، آرمی چیف کی تقرری کا حق نہیں رکھتے ترمیم و اضافے کے بعد یہ ہو گیا کہ اگر وہ الیکشن جیت جائیں تو تقرری کر ڈالیں۔ یعنی الیکشن جیتنے کے بعد وہ چور اور ڈاکو نہیں رہیں گے۔ جلد الیکشن پر اصرار نے کوئی جلدی نہیں کی شکل لیے چھ مہینے کا بھولا ساتویں سے پہلے پہلے گھر آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔ خان صاحب کی امریکی سفارت کار رابن رافیل سے ملاقات کے میڈیا پر چرچے رہے، ایک صحافی نے پوچھا کہ اس ملاقات میں کیا چیز زیر بحث آئی ہو گی۔

حس مشترک یا فہم عامہ (نوٹ، یہ دونوں اصطلاحیں فارسی زبان کی ہیں۔ اردو میں اسے ”کامن سینس“ کہا جاتا ہے) سے کام لیا جاتا تو اخبار نویس مذکور کو یہ سوال اٹھانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ دیکھئے، خان صاحب اس وقت حقیقی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ساری توجہ ان کی اسی مقدس جنگ پر مرکوز ہے۔ واضح رہے، مقدس جنگ کا ترجمہ صلیبی جنگ نہیں ہے جو سابق امریکی صدر بش نے افغانستان کے خلاف لڑی تھی۔ تو اس ملاقات میں بھی یہی ”کاز“ زیر بحث آیا ہو گا اور اس بات پر تبادلہ خیال ہوا ہو گا کہ حقیقی آزادی کی جنگ کو کیسے کامیابی سے ہم کنار کیا جا سکتا ہے۔ حقیقی آزادی ہی کے لیے دو تین روز پہلے خان صاحب کے معتمد مشیر فواد چودھری نے امریکی سفیر سے ملاقات کی تھی۔ باہمی تعاون پر مبنی ان ملاقاتوں کے بعد امید کی جانی چاہیے کہ آنے والے دنوں میں یہ جنگ اور تیز ہو گی۔ اسی جنگ کے لیے خان صاحب نے امریکہ کی ایک لابی انگ فرم کی خدمات بھی حاصل کیں تاکہ حقیقی آزادی کا ایک بیس کیمپ امریکہ میں بھی قائم کیا جا سکے۔

ملاقات خان صاحب کی تین سو کنال کی سادہ سی کٹیا میں جسے عرف عام میں بنی گالہ کہا جاتا ہے ، ہوئی۔ ملاقات کی درخواست خود خان صاحب نے کی تھی۔ درخواست کا درست ترجمہ دعوت ہے۔ اس پر بھی لے دے ہو رہی ہے حالانکہ یہ کچھ باعث تعجب بات نہیں۔ خان صاحب نے جن افراد سے اظہار تعزیت کرنا ہوتا ہے، انہیں بھی ”درخواست“ کر کے بنی گالہ بلایا جاتا ہے اور پھر ان سے دلی تعزیت کی جاتی ہے۔ رابن رافیل کے شوہر آرنلڈ رافیل بھی پاکستان میں امریکہ کے سفیر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے افغانستان کی حقیقی آزادی کی جنگ مرحوم ضیاءالحق سے مل کر لڑی۔ اور اسی میں اپنی جاں ، ضیاءالحق مرحوم کی جان کے ساتھ قربان کر دی۔

آزادی کی جنگ کا تسلسل میاں کے بعد اہلیہ محترمہ نے جاری رکھا ہے۔ ہم خان صاحب اور رافیل صاحبہ دونوں کے لیے نیک خواہشات مطلوب چاہتے ہیں۔ اس جنگ کی اہمیت کا مظاہرہ اس سے زیادہ کیا ہو گا کہ ملک سیلاب میں ڈوب گیا، سب لوگ بوکھلا گئے، اپنے کام ادھورے چھوڑ کر سیلاب سے متعلق امور کی طرف لپک پڑے لیکن خان صاحب کے پائے آہنی میں ذرا بھی لرزش نہیں آئی۔ وہ اپنے مورچے پر بدستور ثابت قدم ہیں۔ معترض حضرات کو اعتراض رسانی کا ایک اور موقع ایک مقدمے میں خان صاحب پر تفتیش کے لیے پیش نہ ہونے پر مل گیا ہے۔ خاتون مجسٹریٹ کو دھمکی والے کیس میں پولیس کی طرف سے طلبی کے یکے بعد دیگرے تین نوٹس جاری کئے گئے کہ پیش ہوں اور تفتیش میں تعاون کریں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسی حوالے سے چلنے والے کیس میں خان صاحب کو اس بات کی ہدایت کی تھی، یہ کہ پیش ہوں اور تفتیش کے عمل میں تعاون کریں۔ لیکن خان صاحب نے پیش ہونا تھا نہ ہوئے۔ ظاہر ہے، وہ اپنے اس نعرہ مستانہ پر عمل کر رہے ہیں کہ ہم کوئی غلام ہیں کہ آپ بلائیں اور ہم چلے آئیں۔ یعنی یہ حرف انکار بھی ”مثنوی آزادی¿ حقیقی“ کا ایک مصرعہ ہے۔ اس مصرعہ پر اعتراض کی گرہ لگانے کی سعی نامشکور قطعی نا مطلوب ہے۔ دہشت گردی کی عدالت میں ضمانت کی توسیع پر سماعت کے دوران خان صاحب کے وکیل بابر اعوان نے درست اعتراض اٹھایا کہ قانون کے تحت خان صاحب کو تفتیش کے لیے بلایا ہی نہیں جا سکتا۔ استغاثہ کے وکیل نے قانون پڑھ کر سنایا کہ کیس میں شامل کسی بھی شخص (ANY BODY) کو تفتیش کے لیے بلایا جا سکتا ہے۔ بابر اعوان نے کہا، خان صاحب عالم اسلام کے لیڈر ہیں۔

مطلب ”اینی باڈی“ نہیں ہیں۔ دلیل زبردست اور لاجواب ہے۔ تفتیشی افسر نے بتایا کہ ملزم بار بار بلانے پر بھی پیش نہیں ہو رہا۔ عدالت نے ہدایت کی کہ تفتیشی افسر ملزم کے وکیل بابر اعوان سے مل کر طے کر لیں کہ تفتیش کہاں کرنی ہے۔ بعدازاں ضمانت میں توسیع ہو گئی۔ اب تفتیش وہیں ہو گی جہاں بابر اعوان چاہیں گے اور تبھی ہو گی اگر بابر اعوان چاہیں گے۔ خان صاحب نے ”متاثرین“ کے نام پر ایک اور ٹیلی تھون کیا اور اس موقع پر محترمہ ثاینہ نشتر صاحبہ نے فرمایا کہ پہلی ٹیلی تھون سے اکٹھے ہونے والے /3 ارب روپے متاثرین پر خرچ ہو گئے۔ کن متاثرین پر؟....ایک رپورٹ کے مطابق سیلاب زدگان کی 80 فیصد مدد ”الخدمت“ نے کی ہے۔ باقی 20 فیصد کوئی درجن بھر غیر سرکاری اداروں نے اور ان درجن بھر ناموں میں پی ٹی آئی کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ برسر فہرست بھی نہیں اور برسر زمین بھی کوئی ایک شہادت نہیں ملی ہے کہ امدادی کاموں میں کہیں کوئی پی ٹی آئی کا ایک بھی کارکن دیکھا گیا ہو۔

محترمہ یہ وضاحت فرما دیں کہ انہوں نے کس ملک کے متاثرین کا ذکر کیا ہے۔ مترمہ پی ٹی آئی کی حکومت میں بے نظیر انکم سپورٹ سکیم کا نام بدلنے اور کام بگاڑنے کا کارونامہ سرانجام دے چکی ہیں....تب بھی یہ شکایت عام تھی کہ فنڈ کی رقم جاری تو ہو رہی ہے لیکن ”مستحقین“ تک نہیں پہنچ رہی۔ شاید وہی معاملہ اب پھر دہرایا جا رہا ہو۔

Comments

Click here to post a comment