ہوم << ڈاکٹر حسن صہیب مراد: تو آج پھر یاد آ رہا ہے-مدثر شیخ

ڈاکٹر حسن صہیب مراد: تو آج پھر یاد آ رہا ہے-مدثر شیخ

تو آج پھر یاد آرہا ہے، نجانے کیوں یاد آرہا ہے؟
وہ مُسکراتی حسین آنکھیں، وہ نُوری کرنوں میں لپٹا چہرہ
وفا و شرم و حیاء کا پیکر، خلوص و صدق و صفا کا پیکر
ہماری آنکھوں کے سامنے ہے، لہو میں بھیگا گلاب چہرہ
اندھیری شب میں چراغ بن کر، ہمیں بھی رستہ دکھا رہا ہے...
تو آج پھر یاد آرہا ہے...
یادوں کے زخم آج ایک بار پھر ہرے ہورہے ہیں، درد اور چبھن ایسی ہے کہ اظہار بھی نہ کر سکیں اور دبا بھی نہ پائیں۔ ہر سال ستمبر آتا ہے اور یہ زخم کرید کر چلاجاتا ہے... یادوں کے بند کواڑ دھڑ سے کھل جاتے ہیں، ذہن میں گزرے سال ایک جھلک دکھلا کر غائب ہو جاتے ہیں، کان وہی آواز سننے کا شور مچانے لگتے ہیں، آنکھیں سوکھنا بھول جاتی ہیں اور لفظ قلم برداشتہ ہو جاتے ہیں ۔۔۔
سینکڑوں زندگیوں کو بدلنے والے، ہزاروں لوگوں کو وفا کے معنی سکھانے والےڈاکٹرحسن صہیب مراد آج ہی کے دن اپنے رب سے عہدِ وفا نبھاتے ہم سے بےوفائی کر گئے۔ جانا تو سبھی نے ہے لیکن جس طرح وہ اچانک چلے گئے، آج چار سال بعد بھی یقین نہیں آتا، بلکہ سچ پوچھیں تو یقین کرنے کو جی ہی نہیں چاہتا۔۔۔
کل مجھے علیم اللہ ملا، ایم ایس فزکس میں داخلہ ملنے کے بعد اور وہ بھی لمز جیسی اعلیٰ پائے کی یونیورسٹی میں، اداس اداس، اور اکیلا اکیلا.... کہنے لگا ڈاکٹر صاحب کی خواہش تھی کہ میں فزکس میں پی ایچ ڈی کروں، لیکن اب یہاں داخلہ ملنے کے بعد کوئی خوشی نہیں کہ اب بتاؤں تو کسے بتاؤں؟ کامیابی کی خبر کسے دوں؟ حوصلہ بڑھانے والا تو چلا گیا۔
کہنے لگا، 2018ء کے رمضان المبارک کی تراویح پڑھانے کے لیے اپنے گھر کی مسجد میں میری ڈیوٹی لگائی، میں ریڈیو سے رخصت لے کرروزانہ 15 منٹ پہلے ان کے گھر پہنچتا لیکن 30 دن میں ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ جب ڈاکٹر صاحب مجھ سے پہلے مسجد میں موجود نہ ہوں، باقی سب نمازی ہم دونوں کے بعد آتے، اور اہم بات یہ کہ تراویح پڑھانے گیا تو وہاں 2 صوفے رکھے تھے، خیال آیا کہ شاید ڈاکٹر صاحب بیٹھ کر تراویح پڑھیں گے، لیکن یہ کیا کہ انہوں نے تو ہر تراویح پوری کی پوری کھڑے ہو کر پڑھی، اس دن بھی جب کمر درد کے 2 انجکشن ریڑھ کی ہڈی میں لگوا کر آئے تھے اور ڈاکٹروں نے مکمل آرام کی ہدایت کی تھی۔
ڈاکٹر صاحب کے جانے کے بعد ایک نہیں ایک درجن سے زیادہ طلباء و طالبات ایسے ملے جو میرے کندھے پر سر رکھ کر رونا چاہتے تھے، غم ہلکا کرنا چاہتے تھے، کہتے تھے کہ صرف ایک بار ڈاکٹر صاحب کو ہمارے گھر کے خراب معاشی حالات کی بھِنک پڑی، اس کے بعد سے کبھی کسی نے فیس تو کیا ایک روپیہ بھی نہیں مانگا، ایسی خاموشی سے ڈاکٹر صاحب نے انتظام کردیا۔
یو ایم ٹی کے ایک سابقہ کولیگ ملے، ملازمت سے ریٹائر ہونے کو تھے، انتظامیہ سے ناخوش بھی، بتایا کہ 20 سال کی ملازمت میں ڈاکٹر صاحب کو کسی ملازم کو برخاست کرتے نہیں دیکھا، سوائے اخلاقی گراوٹ کا شکار اشخاص کے، کہتے وہ ہر خاتون اور طالبہ کو اپنی بیٹی سمجھتے تھے اور اس معاملے میں خلافِ معمول بہت سخت تھے، جو خود چھوڑ کر جانا چاہتا اسے بلا کر آئندہ ملازمت اور نئے ادارے کے حوالے سے مفید مشورے دیتے، کوئی واپس آنا چاہتا تو ایک لمحہ تردد کرتے نہ ہی طعن و تشنیع...
ریڈیو کی ٹیم سے بہت مانوس بھی تھے اور مہربان بھی... ہم بھی جب کوئی ڈیپارٹمنٹ کسی کام میں رکاوٹ ڈالتا تو ڈاکٹر صاحب کا نام لے دیتے، ہمارا کام فوراً ہوجاتا... ایک بار ڈاکٹر صاحب کو معلوم ہوگیا کہ ہم ان کے نام کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں، کہنے لگے کہ کام نہیں رکنا چاہئے میرا نام سو بار استعمال کریں کوئی حرج نہیں... اعتماد اور اعتبار کی یہ انتہا تھی کہ جب تک ہم یو ایم ٹی سے وابستہ رہے کبھی خود کو ملازم نہیں سمجھا...
اعتبار اس حد تک کہ بارہا اپنی فیملی کے ساتھ لنچ کرتے ہوئے اپنے ریکٹر والے دفتر میں ہی بلا لیا کہ لنچ بھی کریں اور جو اسائنمنٹ ہے وہ بھی مکمل کریں۔
ہمیں ان کے دفتر میں رکھے ڈرائی فروٹ بہت پسند تھے، جب بھی کبھی جاتے بہانے بہانے سے خوب کھاتے، ڈاکٹر صاحب شرارتاً مسکراتے ہوئے کہتے جاتے کہ ڈرائی فروٹ کھا کر جائیے گا....
ڈاکٹر صاحب کے پرسنل اسٹاف بالخصوص فیصل بھائی کو ہدایت تھی کہ ریڈیو ٹیم جب بھی آئے، ملاقات کے بغیر نہیں جانے دینا۔
اسلامی بنکنگ پر عالمی کانفرنس فلیٹیز ہوٹل میں تھی، ہماری ٹیم نے ڈاکٹر صاحب کے تاثرات ریکارڈ کرنے کے لیے انہیں اسٹیج سے نیچے آنے کی زحمت دی، ہماری عزت بڑھانے کو وہ فوراً تشریف لے آئے، آدھے سے زیادہ انٹرویو ریکارڈ ہو چکا تو پوچھا کہ بیک گراؤنڈ میں تو بہت شور ہے، ہم نے کہا وہ تو ہے، کہنے لگے چلیں پھر کہیں پنڈال سے باہر کھڑے ہو کر ریکارڈ کریں جہاں زیادہ شور نہ ہو، ہم حیران تھے کہ اتنی دیر ایک موضوع پر بولنے کے بعد اب دوبارہ دوہرانے کے لیے بھی تیار.... ذرا ہٹ کر کھڑے ہوئے اور انٹرویو تکمیل کے قریب تھا ک
وبیش 10 منٹ ہو چکے تھے ڈاکٹر صاحب کو گفتگو کرتے، انہیں اسٹیج پر واپس بھی جانا تھا... کہ ہماری نظر اچانک ریکارڈر پر پڑی اور اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے.... جگہ بدلنے کے چکر میں ریکارڈنگ آن کرنا تو ہم بھول ہی گئے تھے۔ ہماری متغیر رنگت دیکھ کر شاید ڈاکٹر صاحب کو احساس ہو گیا تھا گڑبڑ کا... جبھی تو ہماری خفت ختم کرنے کو کہا کہ ایک بار پھر نہ کرلیں ریکارڈ، اچھا ہوتا ہے۔
پہلی بزنس کانفرنس ایکسپو سنٹر سے براہ راست نشر کی بغیر کسی اضافی وسائل کے تو ڈاکٹر صاحب بہت خوش ہوئے، خاص طور پر اپنے آفس بلا کر شاباش دی۔
ہمیں یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ چین سے اعلیٰ سطح کا ایک وفد دورے پر آیا، SEN بلڈنگ کے پاس سے گزرے تو ہم نے ڈاکٹر صاحب سے عرض کی کہ ریڈیو اسٹوڈیو بھی وزٹ کروا دیں مہمانوں کو، ڈاکٹر صاحب فوراً مان گئے اور مہمانوں سمیت ریڈیو تشریف لے آئے، ہم نے عرض کی کہ مہمانوں کا مختصر انٹرویو آپ بطور آر جے کریں، ڈاکٹر صاحب نے یہاں بھی ہماری بات رد نہیں کی اور مہمانوں کا باقاعدہ ریڈیو انٹرویو کیا۔
کیسا خوش مزاج اور خوش اطوار تھا وہ شخص... جو آج ہم میں نہیں ہے.... لیکن وہ ہمیں آج پھر یاد آرہا ہے۔
اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کی مغفرت فرمائے، آمین

Comments

Click here to post a comment