ہوم << میرے گاﺅں کا گرلز ہائی سکول - اسد اللہ غالب

میرے گاﺅں کا گرلز ہائی سکول - اسد اللہ غالب

آج میں مجبور ہوکر اپنے گاﺅں کے گورنمنٹ گرلز ہائی سکول کی حالت زار کا نوحہ لکھنے بیٹھا ہوں۔ اس سکول کی بلڈنگ پرائمری کلاسوں تک کی ضروریات کے پیش نظر تعمیر کی گئی تھی ،سکول کے لئے زمین میرے ایک دوست میاں نصر اللہ نے گفٹ کی تھی۔

جس پر عمارت کی تعمیر کیلئے میرے چھوٹے بھائی رضاءاللہ طالب نے بہت کاوشیں کیں۔ 85ءکے الیکشن کے بعد میرے راوین کلاس فیلو ظہور الحق شیخ سیکرٹری تعلیم مقرر ہوئے ۔میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ گاﺅں کے اس سکول کو مڈل تک اپ گریڈ کردیں تاکہ گاﺅں کی بچیاں آٹھ جماعتیں تو پاس کرلیں۔ اس سکول کی بچیاں پانچ جماعتیں پڑھنے کے بعد مڈل کیلئے ایک قریبی گاﺅں بھیڈیاں کلاں جاتی ہیں جو پانچ چھ کلومیڑ دور ہے اور یہ سفر وہ بچیاں پیدل سردی ،گرمی میں طے کرتی ہیں۔ چنانچہ ظہور الحق شیخ صاحب نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے سکول کو مڈل تک اپ گریڈ کرنے کا حکم جاری کردیا۔

میری بھتیجی کاشفہ رضا اس سکول کی ہیڈمسٹریس کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں، چند روز قبل مجھے انہوں نے فون پر خوشی کی خبر سنائی کہ دو سال قبل ان کا سکول سیکنڈری لیول کا ہوگیا تھا اور آج اس کے پہلے بیچ کا رزلٹ آیا ہے ،جس کے مطابق اس سکول کا نتیجہ 88فیصد ہے ۔ جبکہ علاقے کے دیگر سکولوں مہالم کلاں، بھیڈیاں کلاں، حسین خاں والا کے نتائج 50تا60فیصد رہے ہیں۔ اس نے بتایا کہ میں نے گنڈاسنگھ کے جس سکول سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی، اس کا نتیجہ بھی بہت خراب آیا ہے ۔ کاشفہ رضا نے بتایا کہ جس لڑکی نے ٹاپ کیا ہے ، اس نے ایک ہزار سے زائد نمبر لئے ہیں۔ اس نے کہا کہ آج اللہ تعالیٰ نے اسے بہت اچھا کریڈٹ دیا ہے، اور یہ اسکے ماں باپ کی دعاﺅں کا نتیجہ ہے ۔ میں یہاں بتاتا چلوں کہ اسی سکول میںکاشفہ رضا کی والدہ پروین رضا نے بھی ہیڈمسٹریس کے فرائض ادا کئے اور یہیں سے وہ ریٹائرڈ ہوئیں۔

کاشفہ نے جہاں سکول کا حوصلہ افزا نتیجہ سنایا، وہاں سکول کی حالت زار بتاکر میرے قلم کو افسردہ کردیا۔ اس نے بتایا کہ سکول کے کمرے پرائمری لیول کے ہیںجبکہ پانچ کلاسوں کا اضافہ ہوچکا ہے ۔ سکول کی آدھی بچیاں زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ یہاں کوئی سائنس لیب، کمپیوٹر سنٹر نہیں ہے۔ اس کسمپرسی کے باوجود اس قدر شاندار رزلٹ پر اسے بے انتہا فخر محسوس ہورہا تھا۔ اس نے کہا کہ آپ ارباب اختیار و اقتدار سے رابطہ کرکے اس سکول میں سائنس وکمپیوٹر لیب ہی قائم کروادیں اور مزید کمروں کا اضافہ کروادیں ۔ کچھ فرنیچر کا بھی اضافہ کردیا جائے ۔ جبکہ سکول میں لائبریری بھی موجود نہیںہے۔ میں نے کہا کہ آپکے سکول کے مسائل پر صرف لکھ سکتا ہوں ۔ حکومت کے وزیروں مشیروں سے میرا کوئی رابطہ نہیں، نہ وہ میری بات سننے کے موڈ میں ہیں۔

میٹرک کا رزلٹ ایک ہفتہ قبل آیا تھا،مجھے یہ کالم لکھنے میں تاخیر ہوئی ، تو اسکی ایک وجہ ہے ۔رزلٹ کے اگلے روز کاشفہ نے مجھے یہ لرزہ خیز خبر سنائی کہ اس کی والدہ محترمہ کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور ان کی حالت نازک ہے ۔ وہ لاہور میں اپنے بیٹوں کے ساتھ مقیم ہے۔ انہیں گھر کے قریبی ہسپتال میں لے جایا گیا ،جہاں ڈاکٹروں نے ہارٹ اٹیک کی تصدیق کی اور ان کی کمزورجسمانی حالت کی وجہ سے ان کے بائی پاس آپریشن کی بجائے صرف ان کی انجیوپلاسٹی کی گئی ۔ دو روز ہسپتال گذارنے کے بعد وہ گھر منتقل ہوگئیں۔ اللہ انہیں جلد شفائے کاملہ عطا فرمائے،آمین

میں نے اپنے گاﺅں کاتعارف تو کروایا ہی نہیں۔ میرا گاﺅں فتوحی والا تاریخی اہمیت کا حامل ہے ۔ یہ ستلج ہیڈورکس کے قریب ،لاہور قصور روڈ پر پہلا سرحدی گاﺅں ہے۔ اس لحاظ سے اسے ”باب پاکستان “بھی کہا جاسکتا ہے ۔ 1965ءکی جنگ سے قبل اس بارڈر سے پاک بھارت تجارت ہوتی تھی اور افغانی پھلوں کے ٹرکوں کی قطاریں دیکھنے میں آتی تھیں۔ جنگ ہو یا سیلاب، یہ سرحدی گاﺅں سب سے پہلا متاثر ہوتا ہے ۔ جنگ کی صورت میں بھارت کی پہلی گولیاں ہمارے صحنوں میں برستی ہیں۔

سیلاب کی صورت میں دریائے ستلج کا پانی اولیں لمحات میں ہمیں زیروزبر کرکے رکھ دیتا ہے ۔میں نے اپنے گاﺅں کو تاریخی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ گاﺅں ”فتوحی والا“ سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی تحریک آزادی کا مرکز رہا۔اس دوران ریشمی رومال کی تحریک چلی ،تو صوفی ولی محمدؒ جو اس تحریک سے وابستہ تھے ، وہ میرے والد میاں عبدالوہاب ؒ کے مہمان کی حیثیت سے گاﺅں میں قیام پذیر ہوئے ۔ صوفی صاحب کو ولی اللہ کا درجہ حاصل تھا اور انکے مریدوں کا دائرہ بے حد وسیع تھا۔ خورشید قصوری کے اجداد میں سے محی الدین قصوری اور محمد علی قصوری ان کے حلقہ ارادت میں شامل تھے اور وہ اکثر وبیشتر صوفی ولی محمد سے ملنے ہمارے گھر آیا کرتے تھے۔

مولانا عبیداللہ سندھی ؒ بھی ہمارے گھر کے مہمانوں میں شامل رہے۔ انگریز سرکارکو صوفی ولی محمد کی سرگرمیوں کی مخبری ہوگئی ، ان کی گرفتاری کیلئے ایک انگریز پولیس افسر نے گاﺅں پر چھاپہ مارا۔ صوفی صاحب اس وقت ہمارے گھر سے منسلک مسجد میں عصر کی نماز کی امامت کروارہے تھے ۔ ہمارے گھر کی ایک کھڑکی مسجد میں کھلتی تھی ، جہاں سے صوفی صاحب گرفتاری سے بچنے کیلئے کھیتوں میں جاچھپے اور پھر خبر آئی کہ وہ بہاولپور اور رحیم یار خان کے علاقے میں بخیریت پہنچ گئے ہیں۔

ایک طرف اس گاﺅں کی یہ تاریخی ،علمی اور دینی اہمیت ،دوسری طرف ،میں یہ بتانے سے قاصر ہوں کہ میرے گاﺅں کے ساتھ کس طرح سوتیلا سلوک برتا گیا۔ نہ یہاں صاف پانی پینے کی ٹینکی کسی حکومتی نمائندے نے بنوائی۔ نہ کوئی سیوریج پانی کا کوئی نکاس ہے۔ ذراسی بارش سے پورا گاﺅں جوہڑکا منظر پیش کرتا ہے ۔ ہیپاٹائٹس ایک عام بیماری ہے جس نے ہمارے گاﺅں کے بیشمار لوگوں کی جانیں نگل لی ہیں ۔ یہ گاﺅں اس قدر پسماندہ ہے کہ گمان یہ ہوتا ہے کہ ہم کہیں اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب کے باسی ہیں۔ حالانکہ ہم صوبائی دارالحکومت لاہور سے صرف 40کلومیٹر دور ہیں۔ گاﺅں میں سرکاری ڈسپنسری نام کی کوئی سہولت موجود نہیں۔ منتخب ارکان اسمبلی نے ہمارے گاﺅں کو ہمیشہ نظرانداز کئے رکھا کیونکہ یہاں کوئی چوہدری ،وڈیرہ، کوئی ساہوکارمقیم نہیں۔ بس برادری کی بنیادپر ووٹ مانگا جاتاہے اور ووٹ لینے کے بعد ارکان اسمبلی اس طرح غائب ہوجاتے ،جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ گاﺅں کے گرلز ہائی سکول کی حالت زار کا سبب اب آپ کی سمجھ میں آگیا ہوگا۔

آج صوبے کے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الہٰی ہیں جنہوں نے 2002ءمیں پڑھا لکھا پنجاب پروگرام شروع کیا تھا ،اگر اس پروگرام پر عملدرآمد ہوتا تو میرے گاﺅں کا یہ سکول آج کالج کا درجہ اختیار کرچکاہوتا اور اس کی شاندار بلڈنگ ہوتی اور سرحدی گاﺅں ساندہ خورد، برج خورداور اُلّاکے ماہ دوناجیسی سرحدی بستیوں کی بچیاں بھی شاندار تعلیمی ریکارڈ قائم کررہی ہوتیں ۔

میں امید کرتا ہوں کہ جب میری یہ سطور چودھری پرویز الہٰی کی نظروں سے گذریں گی تو وہ میرے گاﺅں کے اس سکول کی حالت زار کو بدلنے کیلئے فوری اقدامات کریں گے ۔ میں نے اپنے گاﺅں کے سکول کی منظر کشی کی ہے ، قارئین سمجھ سکتے ہیں کہ یہ پنجاب کے ہر گاﺅں کے سکولوں کی ایک مثال ہے۔ چودھری پرویز الہٰی صاحب کو پڑھے لکھے پنجاب پروگرام کی تکمیل کرنی چاہئے تاکہ دیہی علاقوں کے تمام سکول ایک تابناک ،روشن تعلیمی منظر پیش کریں ۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ بنتے ہی جس طرح اپنے شہر گجرات کو کمشنری کا درجہ دے دیا ہے امید ہے اسی پھر تی سے وہ میرے گاﺅں کے سکول کی ضروریات بھی پوری کریں گے ۔

Comments

Click here to post a comment