ہوم << دوتہائی والی بات - عبداللہ طارق سہیل

دوتہائی والی بات - عبداللہ طارق سہیل

وہ فقرہ جس نے پاک فوج سمیت ملک بھر کو ناراض اور مشتعل کیا‘ تھی خبر گرم کہ پشاور کے جلسے میں خطاب کے دوران عمران خان اسے واپس لے لیں گے۔ اس پر معذرت کریں گے یا کم از کم اس کی وضاحت کریں گے‘ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔

یو ٹیوب پر تماشا دیکھنے ہم بھی گئے پر تماشا نہ ہوا۔ اس کے برعکس خطاب کے آخر میں عمران خان نے غداری والی بات دہرا دی۔ فرمایا‘ بتایا جائے‘ جواب دیا جائے کہ وہ کون غدار تھے جنہوں نے امریکہ سے مل کر سازش کی۔ میری حکومت ختم کر دی اور چوروں کو مسلط کر دیا۔ یعنی خان صاحب ضد کے پکے نکلے اور فرما دیا کہ مستندہے میرا فرمایا ہوا۔ لوگوں نے بھرپور داد دی۔ یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں۔

اگر خان صاحب فقرہ واپس لے لیتے‘ معذرت کر ڈالتے تو بھی اتنی ہی داد دیتے۔داد دینے والوں کی تعداد کتنی تھی؟ عینی شاہد یعنی موقع پر موجود اخبارنویسوں کا کہنا کہ دس ہزار سے اوپر نیچے۔ آدھا گرائونڈ خالی تھا اور باہر بھی لوگ موجود نہیں تھے جبکہ اسی جلسہ گاہ میں اپریل میں جو پہلا جلسہ حقیقی آزادی کیلئے خان صاحب نے کیا تھا‘ اس میں اندر اور باہر ملا کر 40 ہزار لوگ تھے۔

یعنی تازہ جلسے میں پرانے کی نسبت لوگ دوتہائی سے بھی کم آئے۔ کہیں یہ وہی ’’دوتہائی‘‘ تو نہیں جس کا ذکر خان صاحب کی پارٹی کے رہنما اور ان کے حامی میڈیا پر ہر موقع پر کرتے رہتے ہیں؟ اچھا‘ تو بات دوتہائی کی اب سمجھ میں آئی۔پختونخوا حکومت کے وزیر بیرسٹر سیف نے دوتہائی والے جلسے کے بارے میں یہ عذر پیش کیا ہے کہ سیلاب آیا ہوا تھا۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ سیلاب کی وجہ سے جلسے کی حاضری کم تھی۔

لیکن فیصل آباد کے جلسے میں حاضری کیو ںکم تھی؟ وہاں اور اس کے آس پاس کے علاقے میں تو کوئی سیلاب نہیں تھا‘ پھر بھی‘ باوجود اس کے کہ اس بار جلسے کیلئے نسبتاً چھوٹے سٹیڈیم کا انتخاب کیا گیا تھا۔ گرائونڈ پیچھے سے خالی تھا؟ نوائے وقت سمیت دو بڑے قومی اخبارات نے لکھا کہ پویلین تو بالکل خالی تھا‘ گرائونڈ کا پچھلا اور دائیں بائیں والے حصے بھی خالی تھے اور جہاں لوگ تھے‘ وہاں بھی گھنا نہیں‘ چھوٹا ہجوم تھا۔ یعنی یہاں بھی وہی دوتہائی والا معاملہ تھا۔ واضح رہے کہ یہ وہی تاریخی جلسہ تھا جہاں خان صاحب نے محب وطن اور غیر محبت وطن جرنیلوں کی بات کہہ کر ’’تھرتھلی‘‘ مچا دی تھی۔ ایسی تھرتھلی کہ خود پی ٹی آئی کے لیڈرمارے خوف کے گھبرانے اور تھرتھرانے لگے تھے۔

فیصل آباد اور پشاور کے جلسے میں بلکہ گجرات کے جلسے میں بھی ایک قدر مشترک یہ تھی کہ خان صاحب کا خطاب شروع ہوتے ہی لوگ جلسہ گاہ سے نکلنے شروع ہو گئے۔ شایدگاڑی چھوٹ جانے کا ڈر تھا۔ گجرات کے جلسے سے یاد آیا‘ یہ بڑا نہیں‘ خاصا بڑا جلسہ تھا اور اس کے بارے میں ایک گجرات نشین صحافی نے ہمیں فون پر بتایا کہ علاقے بھر کی ٹریکٹر ٹرالیوں کو ’’حقیقی آزادی‘‘ کیلئے ’’رسد‘‘ کے کام پر بحکم سرکار لگا دیا گیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے ایک شام پہلے ہی سپلائی لائن بنا دی تھی۔ آس پڑوس بلکہ دور دراز کے دیہات سے مجاہدین آزادی کو ان ٹرالیوں پر لاداگیا اور میدان جہاد میں اتار گیا۔ علاوہ ازیں علاقے بھر کے سرکاری دفاتر کے تمام ملازمین بشمول اساتذہ‘ مالی‘ چوکیدار حضرات ’’لام بندی‘‘ کے تحت رزم گاہ پہنچنے کے پابند کئے گئے۔

ماشاء اللہ ‘ جذبہ جہاد ہو تو ایسا۔

پشاور کے جلسے کی ’’جھلکیاں‘‘ بھی یادگار ہیں۔ لکھا گیا ہے کہ خان صاحب بار بار ’’دوتہائی‘‘ والی جگہوں کو دیکھتے تھے اور روئے زیبا پر نازیبا لکیریں نمودار ہو جاتی تھیں۔ گاہے بگاہے آنکھیں ملتے اور بے یقینی سے دیکھتے۔ پھر جب ترانہ بجا کہ اے مرد مجاہد جاگ ذرا‘ اب وقت شہادت ہے آیا تو خان صاحب ازحد مضطرب ہوئے۔ اضطراب کی وجہ مرد مجاہد والے الفاظ تو ہو نہیں سکتے‘ وقت شہادت والے الفاظ میں کوئی وجہ مضطرب ہونے کی ہو نہیں سکتی۔ بیچ میں شاید کچھ معاملہ اور ہو۔

خان صاحب نے اس خطاب یادگار میں اعلان کیا کہ وہ نوازشریف اور زرداری کو اپنی مرضی کا بندہ آرمی چیف نہیں لگانے دیں گے۔اللہ دے اتنا اعتماد۔ ویسے خان صاحب کو یادہوگا کہ جب وہ وزیراعظم تھے تو اپنی مرضی کا بندہ ایک ادارے کا ڈی جی لگوانے میں بری طرح ناکام ہوگئے تھے۔ منت سماجت‘ حکم اور تحکم اور ’’کٹی‘‘ کر لینے کے باوجود کامیاب نہیں ہوئے تھے اور تقرری ان صاحب کی نہ ہوئی جن کی وہ چاہتے تھے اور تقرری انہی صاحب کی ہوئی جن کو وہ نہیں چاہتے تھے۔ شاید اس وقت ان کے پاس وہ طلسمی انگوٹھی نہیں تھی جو اب (شاید) ان کے ہاتھ لگ گئی ہے۔

سوال یہ بھی ہے کہ نئی تقرری نوازشریف اور زرداری نے کر نی ہے۔ یہ بات کس نے بتائی؟ تقرری تو وزیراعظم نے کرنی ہے جو شہبازشریف ہیں۔ پھر نوازشریف اور زرداری کو اجازت نہ دینے سے کیا مراد ہے۔چیئرمین الیکشن کمشن کا تقرر وزیراعظم اپوزیشن لیڈر کے مشورے سے کرتا ہے۔ یہ آئین کا تقاضا ہے۔ آرمی چیف کی تقرری صرف وزیراعظم کرتا ہے۔ یہ بھی آئین کا تقاضا ہے۔ خان صاحب وزیراعظم تھے تو انہیں آئین میں ترمیم کر ڈالنا چاہئے تھی کہ آرمی چیف کی تقرری بھی وزیراعظم اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے کرے گا۔ یہ ترمیم ہوجاتی تو وزیراعظم شہبازشریف پابند ہو جاتے کہ تقرری سے قبل راجہ ریاض سے مشورہ کرتے کہ اپوزیشن لیڈر وہی ہیں۔

شاید پھر خان صاحب کو گلہ نہ رہتا۔

خان صاحب نے منفی دوتہائی حاضرین جلسہ کو آگاہ کیا کہ وہ جلد اسلام آباد جانے کی کال دینے والے ہیں۔ یعنی لانگ مارچ اور دھرنے کی کال۔ ادھر پنجاب کے وزیراعلیٰ نے ایک زبردست بیان اور ایک زبردست خطاب اور ایک زبردست ٹوئٹ میں آرمی چیف کی تعریفوں کے دریا بہائے ہیں اور فرمایا ہے کہ فوج کے مخالف ملک دشمن ہیں۔ انہوں نے فوج کی طویل تعریف کی اور جنرل باجوہ کی اعلیٰ صفات پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی۔ خان صاحب سمجھدار ہیں۔ سمجھ تو گئے ہونگے کہ پرویزالٰہی صاحب کیا فرما رہے ہیں۔ انہیں کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟

یہی کہ خان صاحب۔ ہم آپ کے اتحادی ضرور ہیں‘ لیکن کال اپنی اپنی۔ مطلب یہ کہ اس بار ریڈ زون میں شجر ہائے سایہ دار کو آگ لگانے کی ساری ذمہ داری اکیلے پختونخوا سے آنے والوں کو اٹھانا پڑے گی۔ پنجاب سے سہولت کاری اور کمک رسانی کی سہولت دستیاب نہیں ہوگی۔ اور بیرسٹر سیف اللہ تو بہرحال‘ بعدازاں یہ کہنے کیلئے دستیاب تو ہونگے ہی کہ جی‘ پختونخوا میں سیلاب آیا ہوا ہے۔ شجر سوزی کیلئے زیادہ بندے نہیں لا سکے۔

Comments

Click here to post a comment