سیکولر ایج میں، تین اصطلاحات کو سمجھنا اہم ہے، پرسن، سیکس اور جینڈر...
کیونکہ ان اصطلاحات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے نہایت سیکولررائز قسم کے سماجی قوانین پاس کیے گئے ہیں اور عام عوام ان کی نوعیت و اثرات سمجھنے سے قاصر ہیں .
پاکستان میں مئی 2018. میں جو ٹرانس جینڈر پرسن ایکٹ پاس کیا گیا ہے وہ بھی حقیقی پیدائشی بیالوجیکل ساخت کرنے والے مخنث جنہیں انگریزی میں intersex کہا جاتا ہے، کے لیے نہیں ہے بلکہ ٹرانس جینڈر پرسن کے لیے ہیں.
سیکولرلائز تصور جہاں کے مطابق پرسن یا پرسن ہڈ ایک سیال fluid کی طرح کی کیفیاتی شناخت ہے جس کی ملکیت، مذکورہ فرد کے مخصوص جذبات و احساسات اور رحجانات پر رکھ دی گئی ہے. یہ fluidity جو پرسن ہڈ کے مصنوعی لبادے میں پیش کی جاتی ہے کہ اطلاقی سکوپ کو وسیع تر کرنے کے لیے ہیں.
جبکہ سیکولر ایج میں جینڈر رول کو بھی بیالوجیکل سیکس سے علیحدہ صنفی رول تک محدود کر دیا ہے جس کی وجہ سے اسلام پسندوں کے لیے مشکل ہو گیا ہے کہ عورتوں کے لیے، سماج میں جینڈر رول کو ان کی بیالوجیکل ساخت یا سیکس کے قریب رکھنے کا فطری مطالبہ رکھ سکیں.
پاکستانیوں کے ساتھ ظلم یہ ہوا ہے کہ حقیقی مخنثوں کے نام پر جو قانون پاس کیا گیا ہے اور جو گزشتہ تین سال سے نافذ العمل بھی ہے وہ ٹرانس جینڈر پرسن کے مروجہ سکوپ کے ماتحت کیا گیا ہے.
ٹرانس جینڈر پرسن. کی تعریف اور اس کے وسیع تر مفہوم میں درج ذیل تین طبقات شامل ہیں :
پہلے درجے میں حقیقی مخنث. شامل ہیں، جو تعداد میں انتہائی کم ہوتے ہیں اور پیدائشی طور پر مکس. جنسی اعضاء اور صنفی رحجانات رکھتے ہیں. اسے انگریزی میں intersex کہا جاتا ہے. ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے بات ضرور کرنی چاہیے اور انہیں باعزت طریقے سے زندگی گزارنے کے تمام حقوق ملنے چاہیں، اس بابت کوئی دوسری رائے نہیں رکھی جا سکتی کہ یہ چیز اسلامی ورلڈ ویو کے قریب ہے.
دوسری درجہ بندی میں ایسے مرد ٹرانس جینڈر پرسن کے سکوپ میں شامل کیے گئے ہیں جو پیدائشی طور پر بیالوجیکلی مرد ہوں لیکن بعد میں کسی بھی وجہ سے سرجری کے ذریعے سے اپنی جنس تبدیل کر لیں، انہیں خواجہ سرا بھی کہا جاتا ہے لیکن یہ مصنوعی ہوتے ہیں اور بچپن میں گھر اور سماج کی طرف سے برا ماحول ملنے کی وجہ سے، خود کو مخالف جنس perceive کرنے لگتے ہیں لیکن بہرحال اگر ریاستی سطح پر بہتر سہولیات فراہم کیں جائیں تو ان زخمی روحوں کے لیے مردانگی اور مین ہڈ کا حصول ممکن بنایا جا سکتا ہے اور انہیں سرجری جیسے انتہائی اقدام سے روکا جا سکتا ہے، اس لیے اسلامی تصور جہاں کے تحت پنپنے والی معاشرت میں ان لوگوں کو بھی intersex یا ٹرانس جینڈر پرسن کی کٹیگری میں شامل نہیں کیا جا سکتا.
تیسرے درجے میں، ٹرانس جینڈر پرسن کے گروہ میں جنہیں شامل کیا گیا ہے وہ سب سے زیادہ متنازعہ اور اسلامی تصور جہاں کے برخلاف ہے کہ وہ یہ ہے کسی بھی نارمل مرد یا عورت کی Self perceived identity. کو اس کی صنفی شناخت، حتی کہ اس کی بیالوجیکل sexual identity کے قائم مقام بنا کر پیش کرنا.
یقین کیجئے یہ بہت لیتھل اور خطرناک کام ہے جو سیکولرز نے اسلام پسندوں کے خلاف کیا ہے، جب ہم Self perceived identity کو ٹرانس جینڈر پرسن کے سکوپ میں رکھتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہمارا کوئی بھی بچہ یا بچی اٹھارہ سال کی عمر کے بعد، اس قانون کی رو سے اپنی بیالوجیکل ساخت یا sex کو جینڈر identity کے نام پر بدل سکتا ہے اور اسے تمام تر سماجی سہولیات و حقوق بشمول جائیداد میں حصہ، بیالوجیکل سیکس کے مطابق دیا جائے گا.
اور المیہ یہ ہے کہ ریاست یا نادرا، جینڈر رول کی شناخت کی تبدیلی کے لئے کسی میڈیکل تحقیق کا مطالبہ بھی نہیں کرے گی.
یہ اس قدر سیکولرلائز چیز ہے کہ اس کی مثال یورپی و امریکہ میں ملنا مشکل ہے کیونکہ وہاں بھی Self percieve identity کی ثقاہت جانچنے کے لیے نظام کار اور سہولیات فراہم کیں جاتیں ہیں جس کا تصور تیسری دنیا کے ممالک میں نہیں کیا جا سکتا.
اس قانون کی منظوری کے بعد ٹرانس جینڈر پرسن کی مبہم اور fluid سکوپ کے تحت کوئی بھی مرد یا عورت اگر محسوس کرے تو وہ قانون کی نظر میں. بیالوجیکل عورت، مرد بن کر یا. بیالوجیکل مرد، عورت بن کر سماجی سہولیات سے مستفید ہو سکتا ہے، جائیداد میں حصہ پا سکتا ہے حتی کہ اپنے لئے لایف پاٹنر کا انتخاب کر سکتا ہے کیونکہ اس کی Self percieve Gender identity نے اس کی بیالوجیکل ساخت پر مبنی سیکچوئل identity کو replace کر دیا ہے اور قانون کی نظر میں مخصوص مرد یا عورت کا اپنے بارے میں Self perception حتمی چیز ہے.
یہ قانون اور بھی زیادہ غلط استعمال ہو سکتا ہے کیونکہ پرونوگرافک مواد، گے لٹریچر اور expression یو ٹیوب و فیس بک پر عام ہے، ڈیجٹلائزیشن نے ٹین ایج لڑکوں و لڑکیوں کو introvert بنا دیا ہے اور اکثر فیملیز میں والد لڑکوں کی مردانگی کی تربیت کے لئے بھی دستیاب نہیں ہیں. اس تناظر میں ٹین ایج لڑکے لڑکوں کا سیم جینڈر اٹریکشن میں مبتلا ہو کر اپنے لیے غلط false identity percieve کرنا ہر گز محال نہیں ہے.
تبصرہ لکھیے