ہوم << خان صاحب کا توکل ، اللہ اجر دے - عبداللہ طارق سہیل

خان صاحب کا توکل ، اللہ اجر دے - عبداللہ طارق سہیل

خان صاحب نے پھر اطلاع دی ہے کہ وہ مزید خطرناک ہو گئے ہیں۔ یہ اطلاع انہوں نے سرگودھا کے جلسے میں دی۔ دو تین روز پہلے اخبار نویسوں سے سرسری ٹاکرے میں انہوں نے بتایا تھا کہ وہ دن بدن زیادہ خطرناک ہو رہے ہیں یعنی خطرے ناکی کے دریا میں طغیانی بڑھتی جا رہی ہے۔ ابھی واضح نہیں ہوا کہ خطرناکی کا ریلا کتنے لاکھ کیوسک کا ہے، شاید دسیوں لاکھ کا ہو۔

اور وہ خطرناک کیوں نہ ہوں، معاملہ ہی کچھ ایسا ہے۔ دیکھئے، پاکستان جب بنا تھا تو اس کی آبادی 40 کروڑ کی تھی، معاً بعد یہ چالیس لاکھ ہو گئی، پھر 22 کروڑ ، اس کے بعد 22 ملین جسے کچھ لوگوں نے 22 بلین سنا۔ جب صورتحال ایسی ہو تو آدمی خطرناک نہ ہو تو کیا ہو۔ اوپر سے ہیرے سستے اور پیاز مہنگے ہو گئے چنانچہ خطرناکی جتنی بھی زیاد ہ ہو، اتنی ہی کم ہے۔ خان صاحب آپ کی یہ مزید خطرناکی کافی نہیں، اس میں مزید زر مزید اضافے کی ضرورت ہے۔

اعتراض ہوا ہے کہ باقی سب جماعتیں سیلاب زدگان کی مدد کر رہی ہیں اور خاں صاحب جلسوں میں مصروف ہیں۔ اعتراض کا جواب یہ ہے کہ خان صاحب فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں۔ سبھی ریلیف میں لگ جائیں گے اور کوئی بھی جلسہ نہیں کرے گا تو ایک خلا نہیں پیدا ہو جائے گا؟۔ کسی نہ کسی کو تو یہ خلا پُر کرنا ہے اور خان صاحب یہ کام کر رہے ہیں، دوسروں کا بوجھ بھی اٹھا لیا ہے اور دوسروں کی ذمہ داری پورا کرنا فرض کفایہ ہی تو ہے۔

اور یہ اعتراض تو بالکل غلط ہے کہ خاں صاحب جلسوں میں مگن ہو کر سیلاب زدگان کو بھول گئے ہیں۔ وہ ہرگز نہیں بھولے ابھی پچھلے ہفتے انہوں نے اعلان کیا تھا کہ سیلاب زدگان کو بحال کرنا مری ذمہ داری ہے۔ انہوں نے پانچ ارب روپے کی امدادی رقوم کے وعدے بھی وصول کئے ہیں۔ وعدوں کی وصولی ہو گئی، اگلا مرحلہ رقم کی وصولی کا ہے۔ بنکوں کی اطلاعات کے مطابق ابھی وصولی کا مرحلہ شروع نہیں ہوا، جیسے ہی شروع ہو گا، خان صاحب ایک آدھ جلسے کا ناغہ کر کے اس ذمہ داری کی طرف متوجہ ہوں گے۔

خان صاحب کے اس اعلان کے بعد سے لے کر گزشتہ روز تک کے دورانیے میں ”الخدمت“ نے بنا کسی ”ٹیلی تھون“ کے مزید دو ارب روپے کے عطیات وصول بھی کئے اور سارے کے سارے خرچ بھی کر ڈالے۔ ظاہر ہے یہ جلد بازی تھی۔ جلد بازی نہیں کرنی چاہیے بلکہ خاں صاحب کی طرح صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ صبر و تحمل کی بات بھی خان صاحب نے سرگودھا کے جلسے میں کی۔ فرمایا، چار مہینے سے صبر کر رہا ہوں، مجھے مجبور نہ کرو ورنہ ننگا کر دوں گا، چہرے عوام کے سامنے لے آﺅں گا۔ انہوں نے چار چہروں کا ذکر کیا جنہوں نے بند کمرے میں ان کے خلاف سازش کی۔

صبر اچھی بات ہے اور خان صاحب یہ اچھی بات چار مہینے سے کر رہے ہیں۔ ان کے صبر کا کمال دیکھئے، وہ مسلسل چار مہینوں سے صبر کر رہے ہیں، اس دوران انہوں نے بیسیوں جلسوں سے خطاب کیا اور کبھی ذکر تک نہیں کیا کہ وہ صبر کر رہے ہیں۔ صابر ہو تو ایسا۔ اب مجبور ہو کر کہا کہ رسید دینا بھی تو ضروری ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان کا صبر جواب دے گیا۔ روحونیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ صبر و ضبط کا یہ مظاہرہ مزید چند سال اسی طرح کرتے رہیں گے۔ مزید چند سال کے بعد کیا ہو گا؟۔ شاید ضبط کا بندھن پھر توڑ دیں یا بدستور باندھے رکھیں۔

بند کمرے میں سازش کا خان صاحب کو کیسے پتہ چلا، اور یہ بات انہیں کیسے معلوم ہوئی کہ سازشیوں کی تعداد چار تھی۔ روحونیاتی قوتوں ہی نے اطلاع دی ہو گی۔ ظاہر ہے ان چار میں سے تو کسی نے خان صاحب کو نہیں بتایا ہو گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بند کمرے کے باہر جو ”گیٹ کیپر“ بیٹھا تھا، اسی نے خان صاحب کو یہ تعداد بتا دی ہو اور کیا پتہ اس نے دروازے کی کسی درز پر کان لگا کر ساری سازش سن لی ہو۔ چار میں سے ایک تو میر جعفر تھا، دوسرا میر صادق، تیسرے اور چوتھے کا خان صاحب نے انکشاف نہیں کیا۔ آنے والے برسوں میں ان دو کا پتہ بھی چل ہی جائے گا۔ ایسی امید کی جا سکتی ہے۔

خان صاحب نے انتباہ کیا کہ مجھے دیوار سے مت لگاﺅ۔ اس انتباہ کا کیا مطلب ہے۔ شاید فوری ضمانتوں کے سلسلے سے ہے۔ جھٹ درخواست ، پٹ ضمانت، دیوار سے لگانے کا مطلب یہی ہو سکتا ہے، بادی النظر میں یعنی پرائما فیشی۔ توہین عدالت کے نوٹس پر انہوں نے جواب داخل کرایا اور عبارت میں معافی کے بجائے الفاظ واپس لینے کا ارادہ ظاہر کیا۔ دستور یہ ہے کہ ایسا کرنے والے کے خلاف کاررروائی ہو جایا کرتی ہے۔ لیکن خان صاحب سے درخواست کی گئی کہ وہ اس جواب پر نظرثانی فرمائیں۔ شاید خان صاحب نے اس عمل کو دیوار سے لگانے پر محمول کیا ہو، واللہ اعلم!

سرگودھا کے جلسے میں خان صاحب نے سازش کا ذکر بھی کیا اور سازشیوں کا بھی لیکن امریکہ کا ذکر کرنا شاید بھول گئے۔ جس کے حکم پر سازشیوں نے سازش کی۔ جلسوں کی مصروفیت اتنی زیادہ ہے کہ آدمی کبھی کبھار ازحد ضروری بات بھی بھول جاتا ہے۔ یہی بات ہو گی ورنہ خان صاحب امریکہ کا ذکر بھی کرتے، اس کے حکم نامے المعروف بہ ”سائفر“ کا بھی۔ ضرور یہی بات ہو گی اور ایسی ”افواہوں“ کے ساتھ اس فردگزاشت کا کوئی تعلق نہیں کہ امریکہ سے تجدید وفا کی سعی مسلسل اس کی وجہ ہے۔

خیر، قصہ مختصر، ہمیں خان صاحب کا ”توکل“ پسند آیا۔ اور یہ بات بھی اچھی لگی کہ محمود خان وزیر اعلیٰ پختونخواہ کے بعد قبلہ پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب بھی ان کے ہم توکل ہو گئے ہیں۔ توکل یہ ہے کہ سیلاب زدگان کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا جائے اور ان تینوں ہستیوں نے بکمال تمام اس توکل کو اختیار کیا ہے۔ باقی سب جماعتوں اور لیڈروں نے اس توکل کی خلاف ورزی کی ہے اور یہ سب ”شرک“ کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اللہ اس توکل کی جزا تینوں ہستیوں کو دے۔ آمین ثم آمین

Comments

Click here to post a comment