سیلاب کا نقشہ کسی نے شیئر کیا ہے۔ آ دھے سے کہیں زیادہ ملک ڈوبا دکھایا گیا ہے۔ بلوچستان تو سارے کا سارا غرق ہے، بس ایک گوادر والا ٹکڑا بچا ہوا ہے۔ سندھ پورے کا پورا اور پختونخواہ آدھے سے زیادہ پانی میں غرق ہے اور نقشہ جب بنا، اس کے بعد سے تو صورتحال اور بگڑ گئی۔ سیلاب نے پبّی ، چارسدہ، ڈیرہ اسمعٰیل خاں اور نوشہرہ کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔
پنجاب کے درجنوں ضلعے ڈوب گئے ہیں اور اب یہ خبر آئی ہے کہ دریائے سندھ میں بھی طغیانی آ گئی، انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے اور سات لاکھ کیوسک پانی کا ریلا گزر رہا ہے۔ یعنی آنے والے دن اور بھی پریشان کن ہو سکتے ہیں۔ اب تک کا سب سے بڑا سیلاب 1975ءمیں آیا تھا، اب کے جو آیا ہے وہ اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ کتنی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، کسی کے پاس واضح گنتی نہیں ہے۔ بلوچستان سے تو اطلاعات کے سارے وسیلے کٹ گئے ہیں، کیا قیامت وہاں گزر رہی ہے، بس اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ بہت دردناک اور لرزہ خیز وڈیو کلپ ہر طرف گردش میں ہیں۔ لوگ بچاﺅ بچاﺅ کی فریادیں کر رہے ہیں، ایک
بڑی موج آتی ہے اور انہیں بہا لے جاتی ہے۔
جو نتیجہ سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں سیلاب سے نمٹنے کا کوئی نظام ہی نہیں ہے۔ بنگلہ دیش نے یہ نظام بنا لیا اور بہت زبردست بنا لیا، کہاں سائیکولون میں لاکھوں لوگ مرتے تھے، کہاں ویسے سائیکلون بہت کم جانی نقصان کے ساتھ آ کر نکل جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو ڈیم حالیہ عرصے میں بنے، سیلاب انہیں مٹی کے گھروندوں کی طرح بہا کر لے گیا۔ مطلب ان کی تعمیر میں جی بھر کے بے ایمانی ہوئی ہے۔ انفراسٹرکچر بنانے میں ایسی بے ایمانی پہلے نہیں تھی، یہ مشرف کے دور میں شروع ہوئی اور عمران خاں کے دور میں عروج کو پہنچی۔ پختونخواہ میں مندا اور مومنہ ڈیم اسی دور میں تعمیر ہوئے، اب ان کا نام و نشان ہی باقی نہیں رہا، موج بلا کا پہلا ہی تھپیڑا اڑا کر لے گیا۔
مزید حیرت ناک معاملہ ہے کہ اس قیامت صغریٰ میں سب جماعتیں اپنی اپنی توفیق کے مطابق متاثرین کی مدد کر رہی ہیں۔ سب سے آگے جماعت اسلامی ہے، پھر جے یو آئی، لبیک، اہلحدیث، پیپلز پارٹی ہے۔ مسلم لیگ ن سب سے آخر میں ہے۔ اتنی بڑی جماعت اور سب سے کم سرگرم، حیرت ناک معاملہ ہے اور افسوسناک بھی لیکن اس سے زیادہ حیرت ناک پی ٹی آئی کا ماجرا ہے۔ وہ اس عمل میں شریک نہیں اور شریک ہونا بھی نہیں چاہتی۔ لوگ متاثرین کے لیے امداد اکٹھا کر رہے ہیں اور عمران خان نے اپنے لیے فنڈز کی مہم شروع کر دی ہے، کہا ہے ، حقیقی آزادی کے لیے فنڈ چاہئیں۔ پوچھا گیا سیلاب زدگان کے لیے چندہ کیوں نہیں اکٹھا کرتے تو ا یساجواب دیاکہ چودہ سے زیادہ طبق روشن ہو گئے۔ فرمایا، یہ فنڈز ٹھیک طریقے سے استعمال ہوں گے، اس کی چونکہ گارنٹی نہیں ہے لہٰذا یہ چندہ نہیں مانگوں گا۔
حقیقی آزادی کے فنڈز ٹھیک جگہ استعمال ہوں گے، اس کی گارنٹی موجود ہے، تبھی تو مانگ رہے ہیں۔ سیلاب زدگان کے لیے یہ گارنٹی کیونکر غائب ہو گئی؟۔ اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا، کام نہ کرنا ہو تو بہانے بسیار، محاورہ کے مطابق ”حجّتاں ڈھیر“۔اور یہ سوال اپنی جگہ لاجواب کہ ملک ڈوب گیا، آپ کو سیاسی فنڈ اکٹھا کرنا یاد آ گیا؟
وفاقی حکومت مدد کیلئے پورا زور لگا رہی ہے، سندھ حکومت بھی خاصی حد تک مدد کر رہی ہے۔ بلوچستان میں ”باپ گروپ آف پارٹیز“ کی حکومت ہے، کسی کو اس سے بھلے کی توقع نہیں تھی لیکن کچھ ن ہ کچھ ہاتھ پاﺅں وہ بھی متاثرین کی مدد کے لیے مار رہی ہے لیکن پختونحواہ حکومت غائب ہے، پی ٹی آئی بطور جماعت غائب ہے اور یہی حال پنجاب میں پی ٹی آئی بشمول قاف لیگ کی حکومت ہے۔ کہیں کوئی سرگرمی ہے ہی نہیں۔
عمران خان نے سرکاری ہیلی کاپٹر پر متاثرہ علاقوں کا م عائنہ فرمایا۔ کس لیے؟۔ کوئی نہیں جانتا۔ متاثرین کے لیے ایک فرمائشی خیمہ بستی کا انہوں نے معائنہ بھی فرمایا۔ نئے نکور سفید کپڑے کے نئی قسم کے خیمے تھے۔ اس بستی میں کوئی ”متاثرہ“ نظر نہیں آیا نہ ہی امدادی سامان۔ عمران خان ، ان کے صوبائی وزیر اور رہنما اور پروٹوکول اور سیکورٹی کے دستے، بس یہی لوگ تھے، ان کے علاوہ کوئی ذی روح وہاں موجود نہیں تھا۔ یہ کیمپ لگایا گیا تھا یا ”سٹیج“ کیا کیا تھا۔ ایک صوبائی وزیر سے پوچھا گیا کہ اتنی تباہی ، آپ کو انتخابی جلسوں کی پڑی ہے۔ فرمایا، سیلاب کا کیا ہے، آتے رہتے ہیں، یہ حقیقی آزادی کا جہاد ہے، اسے تو کرنا ہی ہو گا۔ موصوف کا نام سیف الدین بیرسٹر ہے، انتخابی حکمت عملی کے لیے اجلاس بھی صدر یہ ہیں، شرکائے اجلاس کے لیے رنگا رنگ کھانوں کے دستر خوان سجے ہیں، تصویریں بھی میڈیا پر آ رہی ہیں۔ حقیقی آزادی میدان سجا ہے۔
حقیقی آزادی کے لیے پی ٹی آئی نے آئی ایم ایف سے معاہدے کی خلاف ورزی کا اعلان کیا ہے۔ پختونخواہ حکومت نے تو خط بھی تیار کر لیا۔ فواد چودھری کا بتانا ہے کہ پنجاب بھی ایسا ہی اعلان کرنے والا ہے۔ مطلب آئی ایم ایف معاہدہ توڑ دے، پاکستان کا دیوالیہ پٹنے پر مہر لگ جائے۔ سوشل میڈیا پر ایک مجاہد آزادی نے لکھا، ہم نے شہباز حکومت کی شہ رگ کاٹ دی۔
شہ رگ شہباز حکومت کی ہے یا پاکستان کی؟۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ہماری حکومت نہیں تو پاکستان بھی نہیں۔ ایک ”مجاہدہ“ کی وڈیو بہت وائرل ہوئی کہ کپتان نہیں تو ہمیں پاکستان بھی نہیں چاہیے، ہم اس ملک کو آگ لگا دیں گے۔ بعد میں اس مجاہدہ نے اپنا یہ اعلان جہاد معذرت کے ساتھ واپس لے لیا لیکن آئی ایم ایف کو ”دھمکی“ دے کر پی ٹی آئی قیادت نے اس اعلان کو ”اون“ کر لیا۔ اللہ کی قدرت ہے، اسی بات غالباً نہیں یقینا پوری دنیا میں پہلی بار ہوئی ہے۔ لگتا ہے ، حقیقی آزادی کسی اور سے نہیں ”پاکستان“ سے چاہیے، بھارت اور اسرائیل سے فنڈنگ کے تذکرے اب پہلے سے زیادہ زور و شور کے ساتھ ہو رہے ہیں اور ان میں رنگ فواد چوہدری نے اچھی طرح بھر دیا ہے۔
صدر عارف علوی نے اپنی شادی کی 50 ویں سالگرہ پر ایوان صدر میں ایک شاندار جشن کیا۔ ”گول میز“ پر انواع و اقسام کے خوان نعمت سجے تھے۔ صدر نے پرمسرت خطاب بھی فرمایا، آخر میں کہا، آج خوشی کا دن ہے۔ صدر صاحب معاف کیجئے گا صدر صاحب آپ نے کیا فرمایا، آج خوشی کا دن ہے؟
مسلم لیگ کے رہنما حنیف عباسی بھی بجلی کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافے اور اس سے بھی ظالمانہ اوور بلنگ پر برس پڑے اور کہا کہ وزیر اعظم عوام کی چیخیں سنیں۔ چارجز کے خاتمے کا اعلان عوام سے دھوکہ اور سنگین مذاق ہے۔ عباسی صاحب مسلم لیگ کے نواز نہیں، شہباز کیمپ کے رہنما گنے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم بھلے عوام کی چیخیں نہ سنیں، اپنے کیمپ کے لیڈر کی آواز ہی سن لیں۔ ابھی محلے کے گھروں میں کام کرنے والی ملازمہ روتی ہوئی آئی۔ اس کے گھر میں اے سی ہے نہ فرج، ٹی وی تک نہیں ہے، محض پنکھے اور بلب ہیں اور اسے 26 ہزار روپے کا بل آ گیا ہے۔
اسے کیا کہیئے؟۔ مفتاح اسمعٰیل کی بے مہار سخاوت؟
تبصرہ لکھیے