کل سے طبعیت کچھ مکدر ہے، دنیا کی بے ثباتی پر یقین مزید پختہ ہوگیا. ثبات صرف تغیر کو ہے، اس فقرے پر اگر ایمان متزلزل تھا تو وہ کیفیت اب نہیں رہی۔ ایک چیز کو آپ اور آپ کے ابائو اجداد دیکھتے آرہے ہوں تو اس کے بچھڑنے کا غم انسان کو کھوکھلا کر دیتا ہے، انسان خالی الذہن ہوجاتا ہے، اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا، یہی کچھ میرے ساتھ قائم علی شاہ صاحب کے استعفے کی بات سن کر ہوا ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ کوئی بہت اپنا بہت دور جارہا ہے۔ اس کے بغیر زندگی کیسے ہوگی یہ سوچ ہی محال لگ رہی ہے۔
جب سے ہوش سنبھالی ہے، شاہ جی کو سندھ کا وزیراعلی دیکھا ہے،گویا سندھ اور شاہ جی ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیںدونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے، چاند چکوری اور ہیر رانجھے والا معاملہ ہے۔ دونوں ساتھ ہیں تو منظر حسین ہے، ایک کردار بھی غائب ہوا تو منظر دھندلا جاتا ہے۔ جس طرح عمروعیار کی کہانیوں میں جن کی جان ایک طوطے میں ہوتی تھی بالکل ایسے ہی سندھ کی جان شاہ جی میں ہے۔ شاہ جی کے بغیر سندھ ایسے ہی ہے جیسے ممتاز کے بغیر تاج محل، مشرف کے بنا ق لیگ، نواز شریف کے بنا ن لیگ اور عمران خان کے بغیر تحریک انصاف۔
شاہ جی وزیراعلی تو سندھ کے تھے مگر ان کی پالیسیوں اور ایکشن سے سندھ سے زیادہ دیگر صوبوں کے لوگ محظوظ ہوتے تھے۔ شاہ جی وقت فوقتا اپنے بیانات سے پریشان چہروں پر خوشیاں بکھیرتے رہتے تھے اور پریشان لوگوں کی تفریح کا بندوبست کرتے تھے۔ کچی شراب سے لوگوں کی ہلاکت کا معاملہ ہو، بھنگ کے فوائد ہوں، امجد صابری کی شہادت، شعر کہنے کا یا اپنے مخالفین کو للکارنے کا، شاہ جی نے اپنے بیانات سے ہمیشہ عوام کو محظوظ کیا۔ یہ ان کے کلام کا اثر ہوتا تھا کہ لوگ پریشانی بھول کر ان کے فقرے کو انجوائے کرنا شروع کر دیتے تھے۔
شاہ جی کو جب سے دیکھا ہے وہ بوڑھے ہی ہیں۔ جس طرح ماہ نور بلوچ نے جواں عمری کا، شاہد آفریدی نے کرکٹ کھیلنے کا اور رمیز راجہ نے ہر میچ میں کمنڑی کا سٹے لیا ہوا ہے، ایسے ہی شاہ جی نے بڑھاپے کا سٹے لیا ہوا ہے، تلاش کے باوجود شاہ جی کی ایسی کوئی تصویر نہیں مل سکی جس میں وہ بانکے نوجوان کی طرح زلفیں لہراتے نظر آئیں، بلیک اینڈ وائٹ زمانے کی تصاویر میں بھی وہ بزرگ ہی نظر آتے ہیں۔
بوڑھے لوگ اگرچہ کچھ نہیں کرتے مگر ان کے پند و نصائح کا سلسلہ اور ان کی موجودگی ہی گھر کی وحدت کے لیے کافی ہوتی ہے۔ جب تک یہ بزرگ گھر میں ہوتے ہیں، گھر کی واحدت قائم رہتی ہے، بھائی بہنیں اپنے اختلافات کے باوجود ایک اکائی میں جڑے رہتے ہیں۔ ایم کیو ایم سمیت دیگر پارٹیز نے سندھ کے تقسیم کرنے کی بہت کوششیں کیں مگر یہ شاہ جی کی ذات ہی تھی جس کی وجہ سے یہ وحدت قائم رہی۔
شاہ جی کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ سندھ میں اطمینان کی کیفیت تھی، نہ کوئی اچانک دورے، نہ فوری نوٹس اور نہ ہی ہنگامی میٹنگ۔ شاہ جی ہر کام کو تسلی اور اطمینان سے کرنے کے عادی تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ کام کوشاہ کی موت کی سمجھ کر ہی کرتے تھے۔ شاہ جی کے بغیر سندھ کا نقشہ میری سمجھ اور سوچ سے تو بالاتر ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے سائنس کی کوئی نئی ایجاد، جس کے بارے لوگوں کو کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ یہ ایجاد پہیے کی ایجاد کی طرح کارگر بھی ثابت ہوسکتی ہے اور پانی سے کار چلانے کی ناکام کوشش بھی۔
سندھ کے نئے وزیراعلی چاہے مراد علی شاہ ہوں مگر اہلیان سندھ اور پوری پاکستان قوم کی کیفیت کچھ یوں ہے
ابھی نہ جائو چھوڑ کر
کہ دل ابھی بھرا نہیں
ابھی ابھی تو آئے ہو
بہار بن کے چھائے ہو
ابھی نہ جائو چھوڑ کر
تبصرہ لکھیے