پورا ملک بالخصوص بلوچستان اور سندھ ان دنوں شدید بارشوں کی لپیٹ میں ہے، دوسری جانب سیلابی ریلے ہیں جنہوں لاکھوں زندگیوں کو مفلوج کررکھا ہے، اور بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہوکر رہ گئے ہیں۔ شہری علاقوں میں بھی تیز آندھیوں، طوفانی بارشوں اور ژالہ باری کے باعث بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے، گلی محلے جوہڑ کا منظر پیش کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے انسانوں اور مال مویشیوں میں وبائی امراض پھیل رہے ہیں، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ہیں.
نشیبی علاقوں میں پانی گھروں کے اندر داخل ہوگیا ہے ، جبکہ ژالہ باری سے فصلوں اور باغات کو شدید نقصان پہنچا ہے ۔ صوبہ سندھ ، بلوچستان اور پنجاب کے درمیان رابطہ سڑکیں ، ریلوے لائنیں اور پل زیر آب آنے اور ٹوٹنے کے باعث اکثر زمینی رابطے منقطع ہو چکے ہیں اور ریلیف کی فراہمی میں مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔ ان حالات میں لوگ چیخ چیخ کر پکار رہے ہیں کہ ہمیں بچایا جائے ، مگر ان کو بچانے والی حکومت کے کرتے دھرتے اسلام آباد کی سیاسی شطرنج میں مصروف ہیں۔ معمول سے چار سو فیصد زیادہ طوفانی بارشوں اور ناگہانی سیلابی ریلوں نے جو تباہی مچائی ہے پاک فوج خود اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر ہنگامی بنیادوں پر امدادی کارروائیوں کو نہ پہنچتی تو جتنے نقصانات ہو چکے .
اور ہوتے جا رہے ہیں اس سے کہیں زیادہ آفت ٹوٹتی، قوم مصیبت کے ان لمحات میں فوج کے تعاون اور قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔ یوں توہمارا ملک بہت خوش قسمت ہے کہ یہاں صحرا بھی ہیں، سر سبز پہاڑ بھی ہیں، سونا اگلنے والی زمینیں بھی ہیں، زیر زمین قدرتی وسائل کے بے پناہ خزانے بھی ہیں افرادی قوت بھی کثرت سے ہے ۔ پانی کی فراوانی بھی ہے ستلج، راوی، چناب، جہلم اور سندھ بھی ہماری زمینوں سے گزرتے ہیں موسموں کے اعتبار سے یہاں خزاں کا موسم آتا ہے جس کے بعد سردیاں شروع ہو جاتی ہیں پھر موسم بہار اور اس کے بعد گرمیاں شروع ہو جاتی ہیں گویا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر طرح کے موسموں اور ہر طرح کی نعمتوں نواز رکھا ہے۔
یہ اور بات ہے کہ ہمارے حکمران اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ان تمام نعمتوں کے ثمرات ہمارے عوام تک لانے میں قطعی طور پر ناکام رہتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو حالیہ بارشیں رحمت ہوتے ہوئے بھی زحمت کیوں بنتیں؟جب سنسناتی ریت اور خشک مٹی کو پانی کی ضرورت ہو، جب دھرتی پیاسی ہو، اس وقت تو مٹی کا ذرہ ذرہ پانی کو پکارتا ہے ۔ اس وقت اگر بارش چند روز زیادہ برستی ہے تو کیا ہوا؟ یہ تو اور اچھا ہے ، کیوں کہ خشک سالی کے باعث زمین میں موجود پانی کی سطح نیچے چلی جاتی ہے اور صحراؤں میں پانی کنویں خشک ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ قلت آب کی وجہ سے زیر زمین پانی کے ذخائر کڑوے ہوجاتے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کے جن علاقوں میں اس بار بارش معمول سے زیادہ ہوئی ہے وہ علاقے تو پیاسے تھے ۔ اس لیے ان پر جتنا پانی برسا وہ بھی کم تھا۔
مگر حکومتی اور انتظامی نااہلی کے باعث جب ہم نے بارش کے ریلوں میں لوگوں کے گھروں اور ان کے سامان اور مویشیوں کو بہتے ہوئے دیکھا تو ہم نے خدا سے یہ دعا مانگی کی کہ مالک! اب بس کر۔ اگر ہمارے حکمران اچھے ہوتے ، اگر ہمارا انتظامی ڈھانچہ بہتر ہوتا،اگر ہمارے ادارے فعال ہوتے تو ہم یہ دعا ہرگز نہ مانگتے ۔ کیونکہ صاف اور میٹھا پانی تو صحراؤں اور میدانوں کے لیے امرت ہوا کرتا ہے ، امرت سے کون انکار کرسکتا ہے ؟ مگر جب سماج کا انتظامی سسٹم ناکارہ ہو تب ہمارے پاس سوائے دکھ درد کے اور کچھ نہیں رہتا۔ یہ مشکل وقت مون سون کے خاتمے پر ختم ہو جائے گا جس کے ساتھ ہی تعمیر نو اور متاثرین کی بحالی پر پوری توجہ دی جانی چاہیے ۔
دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ایسی مشکلات آئندہ زیادہ سنگین صورت میں ظاہر ہونے والی ہیں جس کے سدباب کیلئے حکومت کو ابھی سے دور اندیشانہ فیصلے اور اقدامات کرنا چاہیے، اس حوالے سے تاخیر یا کوتاہی کی اب کوئی گنجائش باقی نہیں ۔
تبصرہ لکھیے