ہوم << سیاست میں تہذیبی رویے اور نیرہ نور- سعد الله شاہ

سیاست میں تہذیبی رویے اور نیرہ نور- سعد الله شاہ

جینے کا حوصلہ مجھے اچھا دیا گیا مجھ کو خیال خام میں الجھا دیا گیا منزل تلاشنا تھی مجھے راہبر کے ساتھ لیکن مجھے بھی راہ سے بھٹکا دیا گیا چلیے ایک اور خیال آ گیا کہ سچائی ایک خوشبو ہے احساس کی طرح۔

جس کو مرے خیال سے رستہ دیا گیا۔ مزید آگے کی بات تو نازک خیالی ہے وہی کہ ڈال دو سایہ اپنے آنچ کا۔ ناتواں ہوں کفن بھی ہو ہلکا۔ ویسے یہ شاعر کس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ موت کو بھی نہیں بخشتے کہ موت ہے اس لیے پسند مجھے۔ کہ یہ آتا نہیں یہ آتی ہے۔ یہ تو شوخی بھی ہوسکتی ہے۔ ہلکی پھلکی تمہید سے میں آتا ہوں۔ عمران کے تازہ بیان کی طرف جو کئی دنوں بلکہ مہینوں سے تازہ ہے۔ حیرت مجھے اس بات پر ہے کہ انہیں کوئی بتائے نہیں دے رہا کہ وہ اپنے اس قوال زریں پر غور کریں۔ وہ بار بار فرما رہے ہیں کہ نیوٹرلز چوروں کے ساتھ کھڑیے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ نیوٹرل کیسے ہوئے۔ نیوٹرل کی تعریف میں تو سب سے لاتعلق ہونا ہے۔ وہ جب آپ کے ساتھ تھے تب بھی نیوٹرلز نہیں تھے اور اب بقول آپ کے وہ کسی اور کے ساتھ کھڑے ہیں۔ غالب کا مشہور شعر یہاں فٹ ہوتا ہے: میں نے کہا کہ بزم ناز چاہیے غیر سے تہی سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں وہ فرماتے ہیں کہ گل کے معاملے میں آئی جی اور ڈی آئی جی اسلام آباد کو نہیں چھوڑیں گے اور تو اور مجسٹریٹ کو بھی دھمکی لگا دی ہے۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے: یہ پورے خلوص سے کہنا چاہتا ہوں دھونس کو ترک کر دینا چاہیے۔عمران خان یقیناً خاصے مقبول ہیں اور ان کے ساتھ بہت سے لوگ ہیں۔ انہیں اپنے آپ کو ایک مدبر شخص ثابت کرنا ہوگا۔

کائرہ صاحب نے اچھی بات کی کہ عمران خان صاحب ہمارے ساتھ نہیں بیٹھیں گے تو پھر کس کے ساتھ بیٹھیں گے۔ اگر انہوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو سرگرداں رہیں گے۔ اپنی شکست کو تسلیم کر کے اسے فتح میں بدلنا ہی حکمت ہے۔ دیکھئے ‘ اس وقت سب کے لیے ضروری ہے کہ وہ سیلاب زدگان کا خیال کریں اور مقدور بھر ان کی مدد کریں۔ یہاں بھی فوج ہی اپنی درخشاں روایت نبھاتے ہوئے بے بس لوگوں کے پاس پہنچی ہے۔ یہ ہرگز سیاست کا وقت نہیں۔ یہی تو دانش کا امتحان ہے۔ اس حوالے سے پرویزالٰہی نے اچھے سیاست دان ہونے کا ثبوت دیا ہے کہ چیف سیکرٹری کو فون کر کے فوجی کردار کی تعریف کی ہے۔ عمران خان کیپاس تو بہت سارے خوشحال گھرانے ہیں۔

وہ بہت کچھ دے سکتے ہیں۔ یہاں بھی وہی فلاحی تنظیمیں کام کر رہی ہیں ۔ میں نے خود بھی ان کے فلاحی کام دیکھے اور مدد کرنے والوں میں شامل ہوا۔ ان کے لوگ نفس نفیس کوئٹہ پہنچے ہیں۔ ہم تو سمجھاتے رہتے ہیں۔ عسکری لوگ جو سیلاب زدگان کی مدد کرنے گئے تھے اور حادثہ کا شکار ہوئے اور پھر اس نازک ترین اور سنجیدہ ترین موقع پر کہ پوری قوم غم میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ اس عمل کے باوجود دعویٰ یہ کہ فوجیوں کے خاندان خان صاحب سے محبت کرتے ہیں۔ لیڈر تو قدم قدم پر سوچ کر چلتا ہے۔ ابھی تو لوگ آسیہ کی رہائی کو نہیں بھولے آخر آپ روزانہ کی بنیاد پر کیوں ایسے بیان داغتے رہتے ہیں۔ اپنے مداحوں کو بھی سمجھائیں کہ وہ دوسروں کے جذبات خاص طور پر مذہبی جذبات کا خیال کریں۔ ۔ اسے کہتے ہیں: یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو ایسے لگتا ہے کہ بداحتیاطی کے باعث خان صاحب اپنی منزل کھوٹی کر رہے ہیں۔

موجودہ حکومت کسی بھی اعتبار سے کچھ ڈلور نہیں کر رہی۔ لوگ موجودہ مہنگائی کا مقابلہ خان صاحب کے دور سے کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہیں پاتال میں اتار دیا گیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ خان صاحب اپوزیشن بنچوں پر ہوتے تو یہ پی ڈی ایم والے چل ہی نہیں سکتے تھے۔ لوگ شور شرابے کو پسند نہیں کرتے۔ آپ اپنے آپ کو کسی ضابطے میں لا کر جدوجہد کریں۔ سیفی صاحب یاد آئے: منتظر ہوں میں اپنی باری کا اور کھڑا ہوں قطار سے باہر اب آخر میں نیرہ نور کے پرستاروں کو پرسہ، کہ وہ ہمیں بھی بہت پسند تھیں۔ خاص طور پر ان کی تہذیب میں ڈھلی ہوئی آواز۔ انہیں بلبل پاکستان کہا جاتا تھا۔ انہیں پروفیسر اسرار احمد نے دریافت کیا تھا۔ یہ اسلم ملک سے پتہ چلا۔ تو یہ اسرار احمد اسلامیہ کالج ہی میں ہوتے تھے۔

کسی نے غالباً خواجہ خورشید نے کہا تھا کہ میں اس آواز کی تلاش میں صدیوں سے تھا۔ ایک کلچرڈ آواز۔ ہمیں تو فیض صاحب کا کلام بھی پسند تھا اور پھر نیرہ نور کی آواز۔ کام دو آنشہ ہو گیا۔ وہی ہم دیکھیں گے۔ جب راج کرے گی خلق خدا۔ خاص طور پر فیض صاحب کی وہ غزل جو مشرقی پاکستان کے تناظر میں ہے: ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد آپ یقین کیجئے نیرہ نور نے اس المیہ کو اس طرح رچا کر گایا ہے کہ بس کلام اور آواز ہم آہنگ۔ وہ حزن و ملال اور احساس جس نے ہمیں زخم دیا اس میں نظر آتا ہے۔ وہ کوئی باقاعدہ سنگر نہیں تھیں۔ انہوں نے 1971ء میں شعیب ہاشمی کے پروگرامز میں کام بھی کیا۔

مگر ان کی اصل شہرت یہی کہ انہوں نے کئی اچھے شعراء کا کلام گایا۔ خاص طور پر احمد شمیم کی نظمکبھی ہم خوبصورت تھے۔ کتابوں میں بسی خوشبو کی صورت سانس ساکن تھی بہت سے ان کہے لفظوں سے تصویریں بناتے تھے پرندوں کے پروں پر نظم لکھ کر درد کی جھیلوں میں بسنے والے لوگوں کو سناتے تھے جو ہم سے دور تھے لیکن ہمارے پاس رہتے تھے تو ہم کہتے تھے امی! تتلیوں کے پر بہت ہی خوبصورت ہیں ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو کہ ہم کو تتلیوں کے جگنوئوں کے دیس جانا ہے ہمیں رنگوں کے جگنو، روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں

Comments

Click here to post a comment