ہوم << عرب دُنیا، سزا سے کیوں نہیں نکلتی - اوریا مقبول جان

عرب دُنیا، سزا سے کیوں نہیں نکلتی - اوریا مقبول جان

جس دن ہاشمی النسل کہلانے والے شریف ِ مکہ نے حجاز میں اپنے گھر کی کھڑکی سے بندوق نکال کر فائر کرتے ہوئے تیرہ سو سال سے قائم مسلمانوں کی مسلسل اجتماعی خلافت کی آخری علامت خلافت ِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا تھا، اس دن سے لے کر آج تک پوری عرب دُنیا کو چین، اطمینان اور سکون نصیب نہ ہو سکا۔ یہ 10 جون 1916ء کا ایک گرم دن تھا۔

وہ عرب جن کے دلوں سے ہادیٔ برحق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی عصبیت ختم کر کے حجتہ الوداع کے دن یہ اعلان فرمایا تھا کہ یہ ایسے تمام بُت میرے پائوں تلے کرچی کرچی ہیں اور آج سے کسی عربی کو عجمی اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں ہے، اسی عرب کے معزز ترین خانوادہ کے فرد نے جب عرب عصبیت کا پرچم لہرایا تو اُمت کے اس اختلاف کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے عالمی طاقتیں خلافت ِ عثمانیہ پر چڑھ دوڑیں اور اس کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا۔ سلطنت ِ عثمانیہ 1923ء میں ٹوٹی تو شریف ِ مکہ نے خود کو خلیفتہ المسلمین کہنا شروع کر دیا۔ برطانوی چالاک تھے، وہ اس کی کہاں اجازت دیتے، انہوں نے حجاز کے ساتھ عراق اور اُردن کا علاقہ اس کے حوالے کیا اور پھر اپنے ہی ایک اور حواری ابنِ سعود سے عرب قبائل کی بالادستی کی جنگ چھڑوا کر صرف دو سال بعد 1925ء میں ہاشمیوں کو حجاز کی بادشاہت سے نکال باہر کیا۔

اس کا بیٹا فیصل عراق میں رہا مگر وہاں فوجی انقلاب آ گیا اور اب اس کا پڑپوتا اُردن کے تخت پر جلوہ گر ہے۔ تمام عرب دُنیا کو بائیس چھوٹے چھوٹے ممالک میں تقسیم کر دیا گیا۔ گذشتہ ایک صدی میں جہاں عربوں کے پاس تیل کی دولت سے سرمایہ آیا، ان کے ریگستان جدید دُنیا کے بہترین شہروں کا منظر پیش کرنے لگے، وہیں ان کی سرزمین پر شروع دن سے ایک یہودی ریاست کا ناسور بویا گیا جس کی جڑیں اب پوری عرب دُنیا میں پھیل چکی ہیں اور جس کے ردّ عمل میں مصر کی اخوان المسلمون سے لے کر حزب التحریر، حماس، الفتح اور القاعدہ تک ایسی تحریکوں نے جنم لیا جس نے عرب معاشرت میں پہلے انقلاب اور پھر جہاد کی لہر دوڑا دی۔ ان بائیس ملکوں پر جو حکمران بھی مسلّط کرائے گئے وہ جمہوریت سے تو کوسوں دُور تھے ہی، اسلامی شریعت کو بھی انہوں نے صرف محدود اور مخصوص مقاصد تک استعمال کیا۔ آج بھی یہ تمام بادشاہ یا فوجی آمر بنیادی طور پر سیکولر لبرل ڈکٹیٹر ہیں جو عرب عوام پر مسلّط کئے گئے ہیں۔

ان کا تسلّط امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی وجہ سے قائم ہے، جنہیں اس خطے کے تیل کی اشد ضرورت ہے۔ خلافت ِ عثمانیہ کے زوال کے بعد جس عرب قومیت نے سر اُٹھایا، وہ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی، کیونکہ پوری دُنیا دو عالمی طاقتوں امریکہ اور سوویت یونین میں تقسیم تھی۔ ایک کیمونسٹ عرب دُنیا اور دوسری عرب بادشاہتوں اور شہزادوں کی دُنیا۔ ٹھیک 43 سال بعد جب 1979ء میں ایرانی انقلاب آیا تو ایران نے خطے میں اپنا کردار بڑھا دیا۔ ایرانی سمجھتے تھے کہ انہیں بلا تفریقِ مسلک انقلاب کی طرف بڑھنا چاہئے۔ لیکن ان کی عرب دُنیا میں سوائے اپنے ہم مسلک عوام کے اور کوئی بنیاد میسر نہ تھی۔ عرب دُنیا کے ہر ملک میں ان کے ہم مسلک لوگ آباد تھے اور آج بھی ہیں، لیکن ان پر حکومتیں دوسرے مسلک والوں کی تھیں۔

ایران کی اس یلغار کو روکنے کے لئے عرب و عجم کا صدیوں پرانا تعصب کھرچ کر نکالا گیا اور اسے زندہ کرنے کے بعد صدام حسین کے وجود میں تجسیم کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں آٹھ سالہ خوفناک ایران عراق جنگ برآمد ہوئی، جو 22 ستمبر 1980ء میں شروع ہوئی اور 20 اگست 1988ء کو تقریباً دس لاکھ لوگوں کی جان لے کر ختم ہوئی۔ اس کے بعد صدام کا کویت پر حملہ، پہلی عراق جنگ، صدام کو اوقات میں لانے کے لئے امریکی کارروائی، غرض خطہ مکمل طور پر واضح اور غیر واضح طور پر مسلکی جنگ میں اُلجھ گیا اور پھر آج تک نہیں نکل سکا۔ گیارہ ستمبر 2001ء کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے واقعے کے بعد سے اب تک اس خطے میں جو آگ و خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے، ایسی دُنیا کے کسی دوسرے خطے یا ملک میں نہیں کھیلی گئی۔

پہلی عراق جنگ کے بعد عراق پر دوا خریدنے پر بھی پابندی لگی جس کے نتیجے میں دس لاکھ بچے مر گئے تو امریکی وزیر دفاع میڈلین البرائٹ (Madeleine Albright) سے صحافی نے پوچھا کہ اتنے بچے تو ہیروشیما اور ناگا ساکی میں نہیں مرے تھے تو اس نے سر ہلا کر کہا ’’امریکی سلامتی اور نظریے کی ایک قیمت ہے، ہمیں کوئی پرواہ نہیں‘‘۔ اس طرح کے رویے کے ساتھ گیارہ ستمبر آیا اور پھر 2003ء میں عراق میں براہِ راست امریکی افواج داخل ہو گئیں۔ صدام کا تختہ تو جلد ہی اُلٹ گیا، لیکن اس کے بعد سے لیکر آج تک تقریباً 18 سال سے یہ پورا خطہ ایسے لگتا ہے خوفناک بلائوں کی زد میں آ چکا ہے۔ لبنان، شام، عراق، بحرین اور یمن جبکہ سعودی عرب کے کئی علاقے ایک ایسی خانہ جنگی کا شکار ہیں جس کا بظاہر کوئی حل نظر نہیں آتا۔ کئی سالوں تک یہ ایک مسلکی اختلاف نظر آتا تھا، جس کی کوکھ سے لاتعداد ’’پراکسی‘‘ گروہوں نے جنم لیا اور پراکسی جنگیں شروع ہوئیں۔

متحدہ عرب امارات نے حکومت بچانے کے لئے اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کر لئے اور دیگر عرب ممالک بھی ایک رستے پر چل نکلے، جس کا جواز وہ ایران کا خطرہ دیتے ہیں۔ گذشتہ دو سال ایسے گزرے ہیں جن میں یوں لگتا ہے کہ اب مسلکی اختلاف بہت پیچھے رہ گیا ہے اور عرب تعصب پھر زندہ ہو کر انگڑائی لے چکا ہے۔ جس طرح شریف مکہ نے سنّی ہونے کے باوجود عرب اور قریش عصیبت کی بنیاد پر سنّی خلافتِ عثمانیہ سے بغاوت کی تھی اسی طرح اس لڑائی کے منبع، ماخذ اور مرکزی مقام عراق میں عرب عصبیت کی چنگاری جو بہت عرصے سے سُلگ رہی تھی وہ اب شعلہ جوالہ بن چکی ہے۔ میرا حج کا ساتھی اور عربی کا عالم ہونے کی وجہ سے عرب صحافت کا شناور محی الدین بن احمد دین اپنے کئی کالموں میں مسلسل اس پر لکھ رہا تھا.

لیکن اب جب امریکی جنگ کے دوران اس کے مقابلے میں کھڑے ہونے والے رہنما مقتدی الصدر نے عراق میں علمِ بغاوت بلند کر دیا ہے تو احساس ہو رہا ہے کہ معاملہ اس قدر معمولی نہیں ہے کہ کالموں تک محدود ہو۔ گذشتہ دس سالوں سے جو پراکسی جنگ عراق، شام اور لبنان میں ایرانی سرپرستی میں چل رہی ہے۔ مقتدیٰ کے مطابق اس کا ہراول دستہ عرب نہیں ہیں بلکہ دُنیا بھر سے لائے گئے لوگ ہیں۔ اس خونریزی کے نتیجے میں داعش و دیگر تنظیمیں جواب میں عربوں کو قتل کرتی ہیں اور عربوں کے شہر برباد کرتی ہیں۔ گذشتہ 9 ماہ سے عراق میں حکومت نہیں بننے دی جا رہی، کیونکہ مرضی کے لوگ اقتدار میں نہیں آئیں گے۔ یہی حال لبنان کا ہے، وہاں کے لوگ کئی ماہ حکومت کو ترستے رہے اور آج بدترین معاشی بحران کا شکار ہو چکے ہیں۔

عراق کا حال یہ ہے کہ داعش کے بعد ایک سال سے کوئی فساد نہیں ہوا، عراقی تیل نے بے انتہاء سرمایہ کمایا، لیکن عراق کا بجٹ پیش نہیں ہو سکا۔ ایک اندازے کے مطابق اس امیر ملک کے پچیس لاکھ افراد بھوک اور قحط کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ تمام معاملات مزید اہم اس لئے ہو چکے ہیں کہ امریکہ کی روس اور چین سے آئندہ لڑائی کی وجہ سے دونوں یہاں کے ملکوں کو اپنے ساتھ ملا رہے ہیں۔ محمد بن سلمان کا جوبائیڈن کے ساتھ سلوک کافی اشارے دیتا ہے اور امریکہ بھی اسرائیل، مصر اور متحدہ عرب امارات کے ذریعے وہاں قدم جمائے رکھنا چاہتا ہے۔ یوں لگتا ہے متوقع عالمی جنگ بھی اب شاید اسی خطے میں لڑی جائے۔ عربوں کی سزا ختم ہونے میں نہیں آ رہی۔ ایسا کیوں ہے؟

عرب قرآن کی دعوت کے اولین مخاطب ہیں، انہیں قرآن کے لئے کسی مترجم یا مفسر کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے ہی اس قرآن کو پس پشت ڈالا ہوا ہے اور میرا اللہ فرماتا ہے ’’جس نے میرے ذکر (قرآن) سے منہ پھیرا، تو پھر اس کی گزران مشکل ہو جائے گی ‘‘ (طٰہٰ: 20)۔ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی امن، سکون اور اطمینان خواب ہو جائے گا۔ کیا ایسا نہیں ہے عرب دُنیا میں؟

Comments

Click here to post a comment