تہذیب مغرب میں ہر وہ نظریہ مقبول ہوا جس کا ہدف لذت پرستی اور مادی آسائشات کا زیادہ سے زیادہ حصول قرار پایا، فقط طریق کار کا اختلاف رہا۔ خودپرستی ہمیشہ خود شناسی پر حاوی رہی۔ موضوع ہی معروض سمجھا گیا، بندہ خود ہی خدا بن گیا۔ انسان کی مالی و مادی مسابقت ہی سارے مباحث کا مرکزی خیال رہی۔ سرمایہ دارانہ نظام میں مال کا ارتکاز درجہ بند رہا۔ کمیونزم میں محنت، قابلیت، اور مسابقت کا تصور مجروح رہا۔ غرض آج تک انسانی دنیا نظریہ حیات کے سنگین بحران میں مبتلا ہے۔ آج کے مغرب کا حاکم نظریہ نیولبرلزم ہے۔ یہی یورپی یونین سے برطانیہ کی حالیہ طلاق کا سبب ہے۔ مدعا مضمون نیولبرلزم کا تعارف، برطانیہ کی تنہائی، اور نظریہ حیات کے مستقبل کا سوال ہے۔
1938ء میں چند ماہرین معاشیات پیرس میں جمع ہوئے۔ 'نیولبرلزم' کی اصطلاح وجود میں آئی۔ Ludwig von Mises اور Friedrich Hayek نے اصطلاح کی تعریف پیش کی۔ نیولبرلزم پالیسی نمونہ ہے جو معاشی امور عوام سے پرائیوٹ سیکٹر کے حوالے کرتا ہے۔ 1947ء میں ہائیک نے نیولبرلزم نظریہ کی ترویج کے لیے پہلی تنظیم Mont Pelerin Society بنائی۔ اس سوسائٹی میں آٹھ نوبیل انعام یافتہ ماہرین معاشیات سمیت بڑے بڑے سائنسدان، دانشور اورپالیسی ساز شامل تھے۔ مونٹ پیلیرن سوسائٹی نے آزاد منڈی اور آزاد خیالی کی آبیاری پر خطیر رقوم خرچ کیں۔ یہ نیولبرلز انٹرنیشنل تھے۔ بڑے بڑے عالمی اداروں نے نظریہ کے پرچار میں اپنا اپنا کردارادا کیا۔ نظریہ کے حامل افراد اہم اداروں کی اہم نشستوں پر بٹھائے گئے، جامعات میں پروفیسرز، اور تھنک ٹینکس میں دانشور ٹھہرائے گئے۔ تاہم دوسری عالمی جنگ کے بعد John Maynard Keynes کے معاشی نسخے رائج ہوسکے، جن کے مرکزی اہداف روزگار کی یقین دہانی اور غربت میں کمی تھے۔ 1970ء کی دہائی میں جب Keynesian پالیسیاں ناکام ہوئیں تو نیولبرل نظریہ پھر مرکزی دھارے میں شامل ہوگیا۔ مانیٹری پالیسی کے لیے نیولبرل نسخے تجویز ہوئے۔ جمی کارٹر حکومت نے امریکا اورجیمس کلاگھن حکومت نے برطانیہ میں نیولبرل معاشی پالیسیاں نافذ کیں۔ مارگریٹ تھیچر اور رونالڈ ریگن کے اقتدارمیں آتے ہی یہ پالیسیاں پوری قوت سے رائج ہوئیں۔ امراء کے محصولات میں بڑے پیمانے پر کٹوتی، تجارتی تنظیموں کا خاتمہ، ظابطوں سے آزادی (ڈی ریگولیشن)، نجکاری، پبلک سروسز میں مسابقت اور اس کے لیے بیرونی ذرائع پر انحصار کرنا شامل ہیں۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ، عالمی بینک، Maastricht، اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن نے نیولبرل پالیسیاں مسلط کیں۔ عموما جمہور کی رائے کا استحصال ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی میں بائیں سے تعلق رکھنے والی جماعتوں نے سب سے زیادہ نیولبرلزم کا خیرمقدم کیا، مثلا لیبر اور ڈیموکریٹس۔ (نیولبرلزم کا یہ تعارف برطانوی دانشور جارج مونبیٹ کے مضمون Neoliberalism - the ideology at the root of all our problems سے حاصل کیا گیا ہے)
کینیڈین ماہرمعاشیات نومی کلین کی The Shock Doctrine کہتی ہے کہ نیولبرلزم بحرانات استعمال کرکے غیرمقبول پالیسیاں مسلط کرتا ہے۔ جہاں یہ پالیسیاں مقامی سطح پر مسلط نہ کی جاسکیں وہاں عالمی دباؤ سے کام لیا جاتا ہے۔ اس کے لیے تجارتی معاہدے اور عالمی کارپوریشنز اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جمہوریت تماشا بن کر رہ جاتی ہے۔ نومی کلین کہتی ہیں 'عراق جنگ' کا بحران نیولبرل پالیسیوں کے تسلط کے لیے استعمال ہوا۔ درحقیقت برطانیہ آج تک ٹونی بلئیر کی جنگی جارحیت کے ثمرات سمیٹ رہا ہے، اور نہ جانے کب تک سمیٹتا رہے گا۔ یقینا، بریگزٹ نیولبرلزم کے خلاف کامیاب بغاوت ہے۔ یہ آزاد تجارت سے جنگ ہے۔ ریاستوں کے اداروں پر قابض عالمی تاجروں، بینکاروں، اور پالیسی سازوں کے خلاف مقامی آبادیوں کا احساس ملکیت ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اہل نظر نیٹو میں بھی دراڑیں دیکھ رہے ہیں۔ حکومتیں بحرانات کو بطور بہانہ استعمال کر رہی ہیں، امراء کے محصولات میں کٹوتی اور نجکاری مرکزی اہداف ہیں۔
پاکستان سمیت تیسری دنیا کے اکثرممالک اور مشرقی یورپ سب سے زیادہ متاثر نظر آتے ہیں۔ کارپوریشنز کو مالی ظابطوں سے آزاد کیا جا رہا ہے، اور شہریوں کو نئے معاشی ظابطوں میں جکڑا جا رہا ہے۔ برطانوی دانشور جارج مونبیٹ مذکورہ موضوع کی تفصیل میں لکھتے ہیں ''مالیاتی بحران، ماحولیاتی تباہ کاری، یہاں تک کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا چرچا نیولبرلزم کا کھیل تماشا ہے۔ کیوں کہ بائیں بازو والے اب تک نیولبرلزم کا متبادل پیش نہیں کرسکے؟'' (واضح رہے کہ لبرلزم میں اشتراکی اقدارشامل ہوئی ہیں، اور یہی تبدیلی نیولبرلزم کو لبرلزم سے جدا کرتی ہے۔) برطانیہ جو یورپ سے علیحدہ ہوا، تو سبب نیولبرلزم کی ناکام پالیسیاں ہیں۔ نیولبرلزم نے برطانوی عوام میں تنہائی کا احساس شدید تر کیا۔ معاشی جکڑبندیوں سے مزدور طبقہ عتاب میں مبتلا ہوا۔ عام وباؤں میں صحت اور نفسیات کے مسائل نمایاں رہے۔ برطانیہ وہ ملک ہے، جہاں نیولبرل پالیسیاں سب سے زیادہ شدت سے اختیار کی گئیں. اسی لیے برطانیہ یورپ کا سب سے زیادہ 'تنہائی کا شکار' دارالحکومت قرارپایا۔ اس تنہائی پر John Bingham نے Britain the loneliness capital of Europe کے عنوان سے تفصیلی مضمون باندھا۔ غرض برطانیہ کی یورپ سے علیحدگی نیولبرل پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
یہ یورپ میں نیولبرلزم کے زوال کا اہم مرحلہ ہے کیونکہ برطانیہ کے بغیر یورپ کا نظریاتی استحکام محال ہے۔ اس کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ پہلاواقعہ 'برطانوی ریفرنڈم سے پہلے' برطانوی خاتون رکن 'جو کاکس' کا قتل ہے۔ دوسرا واقعہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کا استعفٰی ہے، اور اب نسل پرست برطانوی شہری اقلیتوں اور غیرملکیوں پر باقاعدہ حملے کر رہے ہیں۔
نیولبرلزم کا تعارف اور برطانیہ کی یورپ سے علیحدگی کا ذکر محض نیولبرلزم کے نقصانات گنوانے کی خاطر نہیں کیا گیا بلکہ یہاں مغرب کے نظریہ حیات کا رد مقصود ہے، کیونکہ ان سارے نظریات کا ہدف محض مادی آسائشات کا زیادہ سے زیادہ حصول ہے، جو انسانی فطرت اور نفسیات میں بہت بڑے عدم توازن کا سبب ہے، اور یہی عدم توازن نظریہ حیات کے مستقبل پر سوال اٹھا رہا ہے۔ نظریہ زندگی کا مستقبل کیا ہوگا؟ ڈاکٹر رفیع الدین کی گراں قدر اور نایاب تصنیف Future of The Ideology اس حوالے سے رہنمائی کرتی ہے. یہ کتاب مارکسزم کا ٹھوس، مدلل، اور مستقل رد ہے۔ مجموعی طور پر یہ تحقیق مغربی نظریہ حیات کا باطل ہونا ثابت کرتی ہے۔ گو کہ اس کا عہد بیسویں صدی کا پہلا نصف ہے، گویا سگمنڈ فرائیڈ، ایڈلر، اور کمیونزم سے مخاطب ہے، مگر ہر مادی نظریہ پر ایسی دوراندیش رائے ہے، جو مکمل ہے، جامع ہے اور ناقابل تردید ہے۔ یہ رفیع الدین صاحب کے پی ایچ ڈی کا شاندار مقالہ اور سوشل سائنسز کی دنیا کا بڑا علمی کارنامہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب مغرب کے معاشی اور نفسیاتی نظریات کے رد میں لکھتے ہیں، '' اس کتاب کا نقطہ نظر یہ ہے کہ جب سے انسان نے خودی کا احساس کیا ہے، انسانی گروہوں کے مابین زندگی کے بارے میں اعلی تصورات کا تصادم رہا ہے، اور یہ نظریاتی مسابقت جاری رہے گی، یہاں تک کہ انسان اپنی فطرت سے ہم آہنگ نہ ہوجائے، نفس'مطمئن' تک نہ پہنچ جائے۔ جب تک اعلی تصورات کا ارتقاء جاری رہے گا۔ بتدریج ہر ناقص نظریہ کے تضادات اپنی اپنی مدت پوری کرکے تحلیل ہوجائیں گے۔ آخر میں وہ نظریہ سب پر غالب آجائے گا، جو جمالیات اور جامعیت کا مکمل مظہر ہوگا۔'' رفیع الدین صاحب کی جانب سے تصور حیات کا یہ تعارف انسانی تاریخ اور فطرت سے مکمل ہم آہنگ ہے۔ مغربی فلسفہ و نظریہ کی تاریخ اس پرگواہ ہے۔ ڈاکٹرصاحب کہتے ہیں کہ انبیاء انسان کا بہترین نمونہ ہیں۔ یہ بہترین انسان زندگی کا بہترین تصور پیش کرتے ہیں۔ بہترین انسانوں کا یہ ارتقاء اپنے کمال پر پہنچ چکا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا 'نظریہ مستقبل' محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوہ حسنہ کی جانب رہنمائی کر رہا ہے۔ کمیونزم، سوشل ڈیموکریسی، لبرلزم، اور نیولبرلزم سب ایک ہی محرک اور ایک ہی منزل کے درمیان حرکت پذیر ہیں، مال اور مادی آسائشیں۔ یقینا یہ محرک اور منزل انسان کے مکمل اطمینان کا سبب نہیں ہوسکتیں۔ دنیا کے حالات اس پر گواہ ہیں۔
تبصرہ لکھیے