ہوم << لاس اینجلس میں دو خوب صورت دن - امجد اسلام امجد

لاس اینجلس میں دو خوب صورت دن - امجد اسلام امجد

امریکا میں فاصلے میلوں کے بجائے گھنٹوں اورمنٹوں کے حساب سے بیان کیے جاتے ہیں سو اس حساب سے ہمارے ہوٹل سے مشاعرہ گاہ کا راستہ تقریباً 40منٹ کا تھا، معلوم ہوا کہ کنول بیٹی اور جہانگیر گونی کے گھر سے بھی سفر کا دورانیہ اتنا ہی ہے .

مگر وہ کسی اور سمت سے آئیں گے اور ہم کسی اور رستے سے۔مشاعرہ گاہ ایک خاصے بڑے فارم ہاؤس کا لان تھا جہاں فی الوقت ڈنر چل رہا تھا اورخوب چل رہا تھا کچھ پتہ ہی نہیں چلا کہ کب مصافحوں، معانقوں اورخوش آمدیدی مسکراہٹوں کے درمیان ہمیں اسٹیج سے متصل ایک گول میز پربٹھا دیا گیا اور بیک وقت تین چار میزبان کھانا سپلائی کرنے میں لگ گئے۔اب ہُوا یوں کہ جتنی دیر میں ہم ایک سیلفی سے فارغ ہوتے اتنی دیر میں ہمارے سامنے تین چار پلیٹوں کا اضافہ ہوجاتا مگر اس سے بیشتر کہ ہم اُن میں رکھی ہوئی طرح طرح کی اشیائے خوردنی سے مکالمہ شروع کرسکتے مزید تصویریں اور سیلفیاں رستہ کاٹ جاتیں کھانے کے دوران مسلسل تصویریں بنوانا کس قدر واہیات کام ہے۔

اس کے لیے مشاہدے سے زیادہ تجربہ شرط ہے کہ جن دو چار لقموں تک آپ کی رسائی ہوپاتی ہے اُن کے تصویری ثبوت ، درجنوں کیمروں میں محفوظ ہوجاتے ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ آپ کو مسلسل مسکرانا بھی پڑتا ہے۔کنول بیٹی اُس کا میاں عزیزم جہانگیر اور بچے ایسی محبت اور وارفتگی سے ملے کہ کچھ دیر کے لیے امریکا لاہور کے گڑھی شاہو کی شکل اختیار کر گیا ان کے علاوہ پہلے سے شناسا چہروں میں فارغ بخاری مرحوم کے صاحبزادے ظفر عباس شاعر اور مصور عرفان مرتضیٰ اور ریحانہ قمر زیادہ نمایاں تھے۔ پروگرام کا پہلا حصہ نثری خطابات اور استقبالیہ تقاریر پر مشتمل تھا جو بار بار کے اعلان کے باوجود اختصار سے زیادہ ایسی تفاصیل سے پُر تھے جن کا کم از کم مشاعرے یا موجود مہمانوں سے تعلق جوڑنا اپنی جگہ پر کسی کارنامے سے کم نہ تھا۔

بہرحال یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اپنی کمیونٹی وہاں اب پہلے سے زیادہ مضبوط اور موثر ہے اور یہ کہ دو ہفتے بعد منعقد ہونے والے جشنِ آزادی کے ضمن میں سب مل کر خوب خوب تیاریاں کر رہے ہیں۔ اسٹیج سیکریٹری ایک خوش رُو پٹھان خاتون تھیں جن کا نام غالباً راحیلہ تھا، نثر کی حد تک اُن کی گفتگو بہت دلچسپ تھی مگر شعر انھوں نے ایک بھی وزن میں نہیں پڑھا کہ یہ غالباً ان کا چائے کا کپ تھا ہی نہیں، یہ اور بات ہے کہ اُن کی باتوں کے خلوص اور دوستانہ مسکراہٹ کی وجہ سے اس طرف کم کم لوگوں کا دھیان گیا۔ مشاعرے والے حصے کی صدارت اظہر حمید نے کی اور اُن کا یہ سوال بہت جینوئن تھا کہ یہ جو شعرا شعر سنانے سے پہلے صاحب صدر سے اجازت لیتے ہیں اس پر وٹوکول کا مطلب کیاہے اور کیا اگر صاحبِ صدر اجازت نہ دے تو پھر بھی شاعر مزید شعر سنا سکتا ہے ؟

اگلا دن مجھے پروگرام کے مطابق کنول اور جہانگیر کے ساتھ گزارنا تھا، شوکت فہمی ہوٹل میں ہی رہ گیا تاکہ اپنی ملتوی شدہ نیندیں پوری کرسکے۔ اتفاق سے اُسی دن کنول کے دوسرے نمبر کے بیٹے حمزہ کا امریکا کی شہریت کے لیے انٹرویو تھا معلوم ہوا کہ مطلوبہ قیام کی مدت پوری ہونے کے بعد اب تمام فیملی ممبرز کا براہ راست انٹرویو کیا جائے گا جس میں پاس ہونے کی صورت میں وہ باقاعدہ طور پر امریکی شہری بن جائیں گے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ دونوں بالغ بچوں دانیال اورحمزہ کے انٹرویو ماں باپ سے چند دن پہلے ہوگئے اور یوں ترتیب کے ا عتبار سے وہ اپنے ماں باپ سے بھی سینئر امریکی شہری ٹھہرے،کنول کی امی (المعروف مسز رفیع) والد ، بھائی اور بھابھی (معہ بچگان) میرے منتظر تھے.

سو ہُوا یوں کہ آیندہ تین چار گھنٹے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا کہ ہم امریکا میں ہیں یا پاکستان میں۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ سارے بچے بغیر کسی جھجھک اور رکاوٹ کے فر فر اُردو اور پنجابی میں باتیں کر رہے تھے جیساکہ میں نے بتایا تھا کنول اور روشین سہیلیاں بھی تھیں اور کلا س فیلو بھی ان کی دوستی کی وجہ سے دونوں خاندان بھی ایک دوسرے کے دوست ہوگئے ا ور اس تعلق کا سب سے شاندار مظاہرہ چند ماہ قبل ہو اجب کنول کے بیٹے دانیال ا ور روشین کی بیٹی زیبندہ کے رشتے کی بات چلی اور دونوں بچوں کی رضا مندی سے یہ معاملہ پلک جھپک میں طے ہوگیا۔

زیبندہ آج کل بیچلر کرنے کے بعد مانچسٹر میں ایک سینئر ڈگری کر رہی ہے ا ور دانیال امریکی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ بہت محنت اور خوش دلی سے ایک جاب بھی کر رہا ہے۔ امریکی معاشرے میں بلاشبہ بہت سی باتیں ہمارے مزاج کی نہیں مگر بچوں میں ذمے داری کا احساس اور ایک خاص مدت کے بعد اپنا خرچہ خود اُٹھانے اور کام کی نوعیت سے قطع نظر محنت اور ذمے داری سے اپنے فرائض سرانجام دینے کا یہ طریقہ یقیناً بہت احسن اور قابلِ تعریف ہے کہ اس مشق کے بعد کوئی بھی چیلنج اُن کے لیے مشکل نہیںرہتا۔ کھانے کے بعد تصویروں کا سیشن ہوا جو ساتھ ساتھ اسلام آباد اور لاہور بھی پہنچتی رہیں کہ اس کم بخت آئی ٹی نے زمان و مکان کی ایسی کی تیسی کرکے رکھ دی ہے ۔

اس کا ایک اور مظاہرہ کچھ دیر بعد ہُوا جب جی پی ایس کے ذریعے ہم بلاکسی رکاوٹ کے اُس گھر تک پہنچ گئے جہاں آج رات کا کھانا کم مشاعرہ ہمارا منتظر تھ،ا خاتونِ خانہ ہمارے سینئر شاعر دوست اور معروف براڈ کاسٹر تابش دہلوی بھائی کی عزیزہ نکلیں۔ آج گزشتہ شب کی نسبت محفل محدود تھی اور شاعر تین میزبان اور صرف ہم دو مہمان یعنی شوکت اور میں۔

اظہر حمید جو شوکت کو ہوٹل سے ساتھ لے کرآئے تھے بار بار پوچھتے رہے کہ کیا وہ آج بھی صدر ہیں یا ان کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا ہے۔ ہمیں اگلی صبح ڈیلس روانہ ہونا تھا اس لیے میزبانوں سے اجازت لینا پڑی ورنہ وہ تو صبح کے ناشتے کی تیاریاں کر رہے تھے ڈیلس اور وہاں کے میزبان برادرم علی عدنان کا ذکر انشاء اللہ اگلے کالم میں ۔