ہوم << نچلے اور متوسط طبقے کی ختم ہوتی امید - نصرت جاوید

نچلے اور متوسط طبقے کی ختم ہوتی امید - نصرت جاوید

گزشتہ چند دنوں سے ہمیں امید دلائی جارہی تھی کہ معاملات” اچھے وقت“ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔بنیادی وجہ مذکورہ امید کی امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی مسلسل بہتر ہورہی قدر تھی۔ چند ہی ہفتے قبل جبکہ اس کی قیمت 250روپے کی جانب بھاگتی نظر آرہی تھی۔

ڈالر کے مقابلے میں دُنیا کے دیگر ممالک کی کرنسیوں کی قدرمیں بھی خاطرخواہ کمی واقع ہوئی ہے۔کلیدی سبب اس کا امریکہ میں شرح سود کا بڑھ جانا تھا۔پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کے تاہم اضافی اسباب بھی تھے۔ اہم ترین وجہ سٹے بازوں کی برتی سفاکی تھی۔مختلف دھندوں سے وابستہ میرے کئی ذاتی دوست مجھے خبر دیتے رہے کہ کم از کم پانچ ارب ڈالر مارکیٹ سے اٹھاکر ذخیرہ کرلئے گئے ہیں۔اس کی وجہ سے طلب ”کا بحران“ فطری نہ رہا۔منافع خوری کی ہوس نے اسے شدید تر بنایا اور حکومت اس کے روبرو بے بس نظر آئی۔

اسی حکومت کی مسلسل کاوشوں سے تاہم آئی ایم ایف پاکستان کا ہاتھ تھامنے کو بالآخر رضا مند ہوگیا۔ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے سے معاہدے کے امکانات روشن تر نظر آنے لگے۔اس کی وجہ سے ڈالر کی ذخیرہ اندوزی منافع بخش نہ رہی۔ سٹے باز اسے بازار میں لانے کو مجبور ہوئے اور ہماری معیشت بحال ہونے کی امید جاگ اُٹھی۔ڈالر کی قدر کے علاوہ امریکی صدر کی ذاتی کاوشوں سے عالمی منڈی کو تیل کی وافر مقدار بھی فراہم کردی گئی ہے۔ اس کی بدولت پٹرول کی قیمت میں کمی کا رحجان بھی شروع ہوگیا۔

مذکورہ بالا واقعات کو نگاہ میں رکھتے ہوئے ہم سادہ لوح یہ توقع باندھنے لگے کہ حکومت پاکستان بھی تیل اور پیٹرول کی قیمتوں میں جی کو تسلی دینے والی کمی کا اعلان کردے گی۔میرے وہ ساتھی جو معاشی معاملات پر نگاہ رکھتے ہیں ہمیں اس ضمن میں کم از کم 15روپے کم ہوجانے کی نوید بھی سنانا شروع ہوگئے۔پیر کی رات مگر اس سے قطعاََ برعکس اعلان ہوا۔جس اضافے کا اعلان ہوا اس نے مزید پریشان کردیا ہے۔ مذکورہ اضافہ اگر بجلی کی قیمت میں مسلسل اضافے کے تناظر میں دیکھیں تو یقینا ناقابل برداشت محسوس ہوتا ہے۔ہم مگر اس کی بابت دہائی مچانے کے قابل بھی نہیں رہے۔سیاپا فروشی نے بالآخر تھکا دیا ہے۔خود کو حالات کے رحم وکرم کی نذر کرنے کو مجبور ہوچکے ہیں۔

روایتی اور سوشل میڈیا میرے اور آپ جیسے محدود آمدنی والے لاکھوں افراد کے روزمرہّ مسائل سے کاملاََ غافل ہوچکا ہے۔عمران خان صاحب کی ”امپورٹڈ حکومت“ کے خلاف لگائی رونق ہی اس کا پسندیدہ موضوع ہے۔اس کی وجہ سے شہری متوسط طبقے کی بے پناہ اکثریت یہ جان ہی نہ سکی کہ ہمارے دودھ دینے والے مویشی ایک موذی وبا کی زد میں آچکے ہیں۔ہزاروں جانور اس کی وجہ سے مرچکے ہیں۔بے تحاشہ اموات کے نتیجے میں دودھ اور گائے یا بھینس کے گوشت میں خطرناک حد تک کمی بھی واقعہ ہوسکتی ہے۔ربّ کے کرم نے اس سے بچالیا تب بھی ہمارے ہاں گزشتہ چند سالوں سے لائیو سٹاک کا تیزی سے فروغ پاتا کاروبار اب آئندہ کئی مہینوں تک شدید مندی سے دو چار رہے گا۔ لائیو سٹاک کے تقریباََ اجارہ دار سیٹھ تو شاید اسے برداشت کرلیں گے۔مایوسی اور بدحالی البتہ اس شخص کا ہر صورت مقدر ہوگی جو دو یا تین گائیں پالتے ہوئے روزمرہّ اخراجات پورے کررہا تھا۔

سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لئے کئی تنخواہ دار بھی دودھ اور گوشت فراہم کرنے والے جانوروں کی افزائش میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔مثال کے طورپر ایک صحافی دوست نے مجھے بتایا کہ دیگر دو ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس نے بھی ایک گائے کا بچہ خرید کر کسی باڑے میں رکھوادیا تھا۔وہ تینوں دوست باریاں لگاکر اسے پالنے کا خرچہ دیتے رہے۔انہیں امید تھی کہ جانور بڑا ہوگیا تو قربانی کی عید پر اسے بیچ کر کم از کم ایک لاکھ روپے کمالیں گے۔یوں ہر ایک کے حصے میں کم از کم 25ہزار کی اضافی رقم آجائے گی۔اب کی بار مگر عیدالالضحیٰ سے قبل گائیں وبا کی زد میں آگئیں۔ اس کی وجہ سے عوام میں یہ تاثر پھیلا کہ وبا کی زد میں آئے جانور کا گوشت بھی مضر صحت ہوگا۔حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔بے بنیاد وجوہات کی بنا پر پھیلے خوف کی بدولت قربانی کے سیزن میں ایک صحت مند دِکھنے والی گائے کو گاہک 25ہزار روپے میں بھی خریدنے کو تیار نہیں تھے۔میرے ساتھیوں نے اپنے تئیں جو ”کمیٹی“ ڈالی تھی ان کے کام نہیں آئی۔ ان جیسے ہزاروں سفید پوشوں کے ساتھ بھی ایسے ہی واقعات ہوئے ہوں گے۔روایتی اور سوشل میڈیا پر لیکن ”رجیم چینج“ کے خلاف واویلا کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آرہا۔

پیٹرول کی قیمت میں جو ناقابل برداشت اضافہ ہوا ہے وہ بھی ہمارے کئی معاشرتی رویے بدل رہا ہے۔مختلف دفاتر میں کام کرنے والے اب ”باریاں“ لگارہے ہیں۔گاڑی میں اپنے گھر سے نکل کر قریب رہنے والے ساتھیوں کو ان کے گھروں سے اٹھاکر دفتر لے جاتے ہیں اور وہاں سے واپس لاتے ہیں۔ یہ عادت اپنے تئیں قابل ستائش ہے۔اسے مگر خوشی سے اپنایا نہیں گیا ہے۔راحتوں کے عادی ہوئے اذہان بلکہ اسے ”مسلط کردہ کنجوسی“ تصور کررہے ہیں۔ اسلام آباد سے لاہور جاتے ہوئے اگر آپ کسی انٹرچینج کی طرف مڑ کر درمیان میں آنے والے کسی قصبے یا شہر جانے کا ارادہ کریں تو آپ وہاں ایسی نجی کاریں کھڑی دیکھیں گے جن کا سفید پوش مالک خواہش مند ہوتا ہے کہ اسے تین سواریاں مل جائیں اور وہ ان کی بدولت اپنے پیٹرول کے خرچے کو کسی طرح قابل برداشت بناسکے۔

صحافیانہ جستجو سے روزمرہّ زندگی کا مشاہدہ کریں تو آپ کو بے شمار ایسی ”انہونیاں“ ہوتی نظر آئیں گی جو واضح انداز میں عندیہ دے رہی ہیں کہ ہمارے ہاں نچلے اور متوسط طبقے کو اپنی زندگی میں مزید ترقی کی امید باقی نہیں رہی۔ وہ سفید پوشی کے جس مقام پر اس وقت موجود ہے اسے ہر صورت برقرار رکھنے کی جاں گسل تگ ودومیں مصروف ہے۔ہماری ”مائی باپ“ ہونے کی دعوے دار ”سرکار“ مگر اس کی تشویش کو سفاکی سے نظرانداز کیے ہوئے ہے۔ عمران خان صاحب کے لگائے ”جلسے“ بھی محض ”رونق“ فراہم کررہے ہیں۔ وہاں ہوئی تقاریر بھی پاکستان میں سنگین تر ہوتی معاشی عدم مساوات سے قطعی بے نیاز ہیں۔ہماری خوش حال اور حکمران اشرافیہ کو ایسے ”اچھے دن“ شاذ ہی نصیب ہوئے ہوں گے۔

Comments

Click here to post a comment