ہوم << عمران خان کو سلام- محمد اکرم چوہدری

عمران خان کو سلام- محمد اکرم چوہدری

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو اس بات پر شاباش ضرور ملنی چاہیے کہ وہ ملکی سیاست میں ایک بہت بڑے کراو¿ڈ پلر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ انہیں سننے والوں کا حلقہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کے بعد عمران خان ایک ایسے سیاست دان کے طور پر سامنے آئے ہیں جنہیں سننے کے لیے لوگ شوق سے جلسہ گاہ کا رخ کرتے ہیں۔

عمران خان کو جلسہ گاہ بھرنے کے لیے لوگوں پر پیسہ خرچ نہیں کرنا پڑتا نہ اس کے لیے بسوں کی پکڑ دھکڑ کرنا پڑتی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ کو سننے کے لیے لوگ اپنے پیسے اور وقت خرچ کر کے جلسہ گاہ پہنچتے اور انہماک سے اپنے قائد کو سنتے ہیں۔ جن لوگوں کی سیاسی تاریخ پر نگاہ ہے وہ جانتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے جلسوں میں بھی لوگ اتنی محبت کے ساتھ شریک ہوتے تھے اور جب محترمہ بینظیر بھٹو کی وطن واپسی ہوئی ہے پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے شاندار انداز میں اپنی پسندیدہ قائد کا استقبال کیا ہے۔ بدقسمتی سے محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے ویسے ان کے لیے حالات وہاں بھی اچھے نہیں ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس کوئی ایسی سیاسی شخصیت نہیں جس کے لیے لوگ گھروں سے نکلیں اور جلسہ گاہ پہنچیں یا کسی بھی سیاسی سرگرمی کا حصہ بنیں۔ اب اگر پاکستان کے لوگ کسی بھی سیاسی جماعت کے جلسے میں دل سے شریک ہوتے ہیں تو وہ پاکستان تحریک انصاف ہے۔ جیسے لوگ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کو سننے کے پہنچتے تھے یہ انداز اب عمران خان کے جلسوں میں نظر آتا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف اپنے کارکنوں کو کسی بھی جگہ بلاتی ہے کارکن تمام رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے جلسہ گاہ پہنچتے ہیں۔ تیرہ اگست کو لاہور کے نیشنل ہاکی سٹیڈیم میں پی ٹی آئی کا جلسہ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ ہر عمر کے لوگ جلسہ گاہ میں موجود تھے۔ اب تو بچے بھی والدین کے ساتھ ذوق شوق سے جلسے میں شریک ہوتے ہیں۔ عمران خان نے یوم آزادی کے پیش نظر اس جلسے کے ذریعے ایک مرتبہ پھر اپنے ووٹرز کے خون کو گرمایا ہے۔

عمران خان نے اپنی تقریر میں کوئی ایسی متنازع بات نہیں کی جسے سیاسی مخالفین بنیاد بنا کر ان کے خلاف ایک نئی مہم شروع کر دیں۔ انہوں نے اداروں کے حوالے سے گفتگو کے بجائے اپنے ووٹرز سے بات چیت کی اور انہیں حقیقی آزادی کے سفر میں استقامت کا سبق پڑھایا ہے۔ انہوں نے قوم کو آئندہ یوم آزادی حقیقی آزادی کے ساتھ منانے کا پیغام بھی دیا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان وزارت عظمیٰ سے تو ہٹا دیے گئے لیکن انہیں لوگوں کے دلوں سے نہیں نکالا جا سکا۔ انہوں نے پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کی اب وہ قومی اسمبلی کی نو نشستوں پر مقابلہ کر رہے ہیں یہاں بھی ان کی کامیابی کے امکانات موجود ہیں۔

پاکستان کے لوگوں نے ان کا حوصلہ بڑھایا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریاستی ادارے عمران خان کی عوامی مقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہیں یا نہیں کیونکہ جس طرح لوگ پاکستان تحریکِ انصاف کے بیانیے کی حمایت کر رہے ہیں اسے مثبت انداز میں استعمال کرنے کے لیے اداروں کو اپنا کردار ضرور ادا کرنا چاہیے۔ بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کو بھی جمہوری رویے اپناتے ہوئے اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ سیاسی جماعتوں اور اداروں کو پاکستان کے بہتر مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کرنا ہوں گے۔ اگر اداروں کو ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سامنے کھڑا کرنے کی مہم جاری رہی تو اس کا نقصان پاکستان کے لوگوں کو برداشت کرنا پڑے گا۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام شدید ہو گا اور معاشی عدم استحکام کی وجہ پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہونا یقینی ہے۔ لہذا اب وقت ہے کہ تمام ادارے اور شخصیات ملکی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے بہتر راستے کا انتخاب کریں۔

میاں شہباز شریف نے ایک مرتبہ پھر میثاقِ معیشت کے حوالے سے بات چیت کی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ پارلیمنٹ جہاں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت موجود ہی نہیں اس طرح کا کوئی بھی فیصلہ کون قبول کرے گا۔ میثاقِ معیشت کے بجائے نئے عام انتخابات کی بات کیوں نہیں ہوتی جب تمام سیاسی جماعتیں عوامی مقبولیت کی دعویدار ہیں تو پھر ملک کو سیاسی عدم استحکام سے نکالنے کے لیے انتخابات کی طرف جانے میں کیا حرج ہے۔

جہاں تک پاکستان تحریک انصاف کا تعلق ہے انہیں بھی عوام کو یہ ضرور بتانا چاہیے کہ حقیقی آزادی کا مطلب کیا ہے، پاکستان کے لوگوں کے ذہنوں میں صرف یہ بات ڈال دینا کافی نہیں۔ ووٹرز کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ غلامی کہاں ہے اور اس غلامی سے نکالنے کا طریقہ کیا ہے اور اس غلامی سے نکلنے کے بعد کا لائحہ عمل کیا ہو گا۔ کیونکہ دو ہزار اٹھارہ کا الیکشن "نیا پاکستان" کا نعرہ لگا کر لڑا گیا تھا.

کرپشن کے خلاف جدوجہد بنیادی نعرہ ہے لیکن پی ٹی آئی نئے پاکستان یا دو نہیں ایک پاکستان یا پھر کرپشن کے خلاف جنگ کسی بھی جگہ نعروں کو حقیقت میں نہیں بدل سکی اس لیے یہ ضروری ہے کہ جذباتی نعروں کے ساتھ ساتھ مکمل منصوبہ بندی اور دلائل کے ساتھ عوام کو بتایا جائے کہ کیا ہو گا کیسے ہو گا اور کب تک ہو گا۔ یہ نہ ہو کہ دوبارہ حکومت میں آئیں اور پھر یہ کہنا پڑے کہ ہماری تو تیاری ہی نہیں تھی یا پھر یہ کہیں کہ ہم تو ابھی سیکھ رہے ہیں۔

Comments

Click here to post a comment