دو دن قبل میرا موبائل اچانک خراب ہو گیا. فون کرنے والوں کی آواز مجھ تک پہنچتی تھی، لیکن میری آواز وہ نہیں سنتے تھے. میں بڑا پریشان ہوا. ایک دوست نے کہا: موبائل سوئچ آف کرکے دوبارہ آن کیجیے، ٹھیک ہوجائے گا. کرکے دیکھ لیا، مگر فون ٹھیک نہیں ہوا. ایک صاحب نے کہا: موبائل فارمیٹ کردیجیے، انھوں نے ہی فارمیٹ بھی کردیا، مگر موبائل میں مذکورہ خرابی باقی رہی. میں موبائل دوکان پر لے گیا. میکینک نے اسے کھول کر چیک کیا، پھر بتایا کہ اس کے مائک میں خرابی آگئی ہے، اس کا پارٹ بدلنا ہوگا. میں نے پوچھا : مایک کیوں خراب ہوگیا؟ اس نے کہا : موبائل گر جائے، یا بھیگ جائے، یا اس میں گرد چلی جائے تو یہ خرابی آجاتی ہے. اس نے پرزہ بدل دیا اور موبائل ٹھیک کام کرنے لگا. میں نے چیک کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنی اہلیہ کو فون کیا. ان کی آواز میرے کان میں پڑی تو مجھے بہت خوشی ہوئی، آواز سننے پر بھی اور موبائل ٹھیک ہونے پر بھی.
میری خوشی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کے ذریعے مجھے ایک حدیث کا مفہوم اچھی طرح سمجھ میں آگیا :
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک ہے اور وہ پاکیزہ چیز ہی قبول کرتا ہے. اس نے اپنے پیغمبروں سے کہا ہے: "اے رسولو ! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک اعمال کرو. "(المؤمنون :51) اسی طرح اس نے اہل ایمان سے کہا ہے: "اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ہم نے جو پاکیزہ چیزیں تمھیں عطا کی ہیں ان میں سے کھاؤ." (البقرۃ :172) (دونوں کو اس نے پاکیزہ چیزیں کھانے کا حکم دیا ہے)
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی دور دراز کا سفر کرتا ہے، اس کا لباس غبار آلود ہوجاتا ہے، اس کے بال دھول سے اٹ جاتے ہیں، وہ آسمان کی جانب ہاتھ بلند کرتا ہے اور اللہ سے دعا کرتا ہے. وہ کہتا ہے: اے رب! اے رب! لیکن اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا لباس حرام، اس کی پرورش حرام سے ہوئی ہے، پھر اس کی دعا کیوں کر قبول ہو سکتی ہے؟! (صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، 1015)
اللہ اور بندے کا تعلق دو طرفہ ہوتا ہے. بندہ اس سے مانگتا ہے وہ اسے عطا کرتا ہے، بندہ اس سے مغفرت طلب کرتا ہے وہ اسے معاف کر دیتا ہے، بندہ توبہ کرتا ہے وہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے، بندہ اپنی پریشانیوں میں اسے پکارتا ہے وہ اس کی پریشانیوں کو دور کرتا ہے، بندہ اس سے دعا کرتا ہے وہ اس کی دعا قبول کرتا ہے. خلاصہ یہ کہ بندے اور اللہ کا تعلق عام حالات میں دو طرفہ ہوتا ہے لیکن جب بندہ حرام کھانے لگتا ہے تو اللہ سے اس کا رابطہ یک طرفہ ہوجاتا ہے. وہ اللہ کو پکارتا ہے، روتا اور گڑگڑاتا ہے، اس کی دہائی دیتا ہے، لیکن اس کی آواز عرش الہی تک نہیں پہنچتی اور پہنچتی بھی ہے تو ادھر سے کوئی جواب نہیں آتا.
اس خرابی کو درست کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی خود کو حلال کھانے کا عادی بنائے اور زندگی کے دوسرے معاملات میں بھی ان کاموں سے بچے جنھیں اللہ نے حرام قرار دیا ہے. اگر وہ ایسا کرے گا تبھی اس کے اندرون میں پیدا ہونے والی خرابی دور ہوگی اور حسب سابق اللہ سے اس کا دو طرفہ تعلق استوار ہوجائے گا.
تبصرہ لکھیے