ہوم << حقیقی آزادی کا حقیقی راستہ اور بائیڈن - نصرت جاوید

حقیقی آزادی کا حقیقی راستہ اور بائیڈن - نصرت جاوید

پی ٹی آئی نے امریکہ میں لابی انگ کیلئے ایک فرم کی خدمات حاصل کی ہیں۔ 25 ہزار ڈالر ماہانہ کے عوضانہ پر۔ یعنی لگ بھگ 60 لاکھ روپے کے مساوی۔ اگرچہ ڈالر کی قیمت پاکستان میں جس رفتار سے گر رہی ہے، اس حساب سے پہلی ادائیگی شاید 50 لاکھ ہی کی ہو گی۔

لابی انگ کا مطلب سیدھی سادی زبان میں کسی کا رانجھا راضی کرنا ہے۔ اور کسی سے مراد صدر جوبائیڈن اور ان کی انتظامیہ ہے۔ جن پر عمران خان پچھلے چند ماہ سے الزام لگا رہے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کے میر جعفر اور میر صادق کی مدد سے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ لابی انگ فرم رانجھا کس طرح راضی کرے گی۔؟ شاید سب سے پہلے بائیڈن کو یہ بتائے گی کہ عمران خان نے ان کے بارے میں جو بیان دئیے ہیں، ان کا مطلب وہ نہیں تھا، کچھ اور تھا اور یہ کہ ان کی مہم کو سیاق و سباق سے ہٹ کر ’’مس رپورٹ‘‘ کیا گیا ہے۔

اس کے بعد درخواست کی جائے گی کہ پی ٹی آئی کا وہ ’’سٹیٹس‘‘ بحال کیا جائے جو صدر ٹرمپ کی حکومت میں تھا۔ ٹرمپ سے وائٹ ہائوس میں عمران خان کی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ خان صاحب اتنے خوش تھے کہ پاکستان پہنچتے ہی فرمایا کہ ایک اور ورلڈ کپ جیت لایا ہوں۔ ان کی وطن واپسی کے فوراً بعد ماحولیات میں بدلائو آیا جو سی پیک اور گوادر پورٹ کے پراجیکٹ نگل گیا۔ شاید عمران خان ایک بار پھر ویسا ہی ورلڈ کپ جیت کر لانا چاہتے ہیں۔ ویسے سنا تو یہ بھی ہے کہ جوبائیڈن کا ٹانکا پہلے ہی زرداری صاحب اور ان کی پارٹی سے فٹ ہو چکا ہے، دیکھئے لابی انگ فرم، محض 25 ہزار ڈالر کے خرچے سے یہ ٹانکا ادھیڑ پاتی ہے یا نہیں۔ رہے پاکستان میں تحریک انصاف کے حامی تو وہ اس ’’ابائوٹ ٹرن‘‘ کو بھی خان صاحب کا ٹرمپ کارڈ قرار دیں گے اور داد دیتے نہیں تھکیں گے کہ دیکھا، ہمارے خان نے کیسے یہ ٹرمپ کارڈ کھیلا اور ’’حقیقی آزادی‘‘ حاصل کر لی۔

اسی ٹرمپ کارڈ سے متعلق ایک خبر اور بھی گردش کر رہی ہے۔ اگرچہ پی ٹی آئی کی محترمہ شیریں مزاری نے اس کی تردید کی ہے لیکن متعلقہ حلقے خبر کی صحت پر قائم ہیں اور امریکی سفارتی ذرائع نے بھی خبر کی تصدیق کچھ اس طرح کے الفاظ سے کی ہے کہ ’’ہم اس طرح کی نجی اور دوطرفہ بات چیت پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے۔ خبر یہ ہے کہ کے پی کے کے وزیر اعلیٰ نے خاں صاحب کی امریکی سفیر سے فون پر تفصیلی بات چیت کرائی ۔ یہ ملاقات وزیر اعلیٰ ہائوس پشاور کے کمرہ خاص میں ہوئی۔ سفارتی ذرائع سے یہ بھی سننے کو ملا کہ خاں صاحب نے اپنی نیاز مندی ظاہر کرتے ہوئے امریکی سفیر سے درخواست کی کہ وہ انہیں موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے کوئی کردار ادا کریں۔

صحافتی حلقے کہتے ہیں کہ بحران سے مراد فارن فنڈنگ کیس اور توشہ خانہ کیس والا بحران ہے۔ لیکن ہمارا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ خان صاحب نے ’’حقیقی آزادی‘‘ کیلئے امریکہ سے مدد مانگی ہو گی اور امریکہ سے شریک جہاد ہونے کی اپیل کی ہو گی۔ جہاں تک حقیقی آزادی کا معاملہ ہے، خان صاحب نے کل اعلان کیا کہ وہ آج یعنی /13 اگست کی رات لاہور میں لوگوں کو بتائیں گے کہ حقیقی آزادی حاصل کیسے کی جاتی ہے۔ حالیہ چار پانچ مہینوں میں وہ عوام کو حقیقی آزادی حاصل کرنے کا طریقہ چھ سات بار بتا چکے ہیں، یہ کہ آج رات دس بجے سڑکوں پر آئو۔

اور ہر بار لوگ سڑکوں پر آئے بھی، کم سے کم کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں تو لوگ باہر نکلے، ڈھول بجاتے، رقص کرتے، حقیقی آزادی کے گیت گاتے۔ ہرچند لوگ لاکھوں میں نہیں تھے، ہزاروں میں تو بہرحال تھے۔ لیکن حقیقی آزادی نہیں ملی، الٹا فارن فنڈنگ، توشہ خانہ، سانحہ بلوچستان کے بعد کی سوشل میڈیا مہم والوں کی پکڑ دھکڑ اور اب یہ شہباز گل والے معاملے کی بلائوں نے حقیقی آزادی کے چاند کو گرہن پر گرہن لگا دئیے۔ اب دیکھئے، آج خاں صاحب کوئی نیا طریقہ بتاتے ہیں یا پرانے نسخے ہی کو ایک بار پھر آزمانے کی اپیل کرتے ہیں۔

حقیقی آزادی سے یاد آیا، یہ پرانی ضرب المثل بصورت مصرعہ غلط ثابت ہوئی ہے کہ کنارے سے کبھی اندازۂ طوفان نہیں ہوتا، یعنی طوفان کیا ہے، یہ جاننے کیلئے سمندر میں اترنا پڑتا ہے۔ اب یہ بات غلط یوں ثابت ہوئی کہ خان صاحب کو اندازۂ طوفان ساڑھے تین سال اقتدار کے سمندر میں رہ کر نہیں ہوا اور تب ہوا جب سمندر نے انہیں اٹھا کر ساحل پر پٹخ دیا۔ ساڑھے تین سال انہیں علم ہی نہیں ہو سکا کہ پاکستان غلام ہے، اسے حقیقی آزادی چاہیے۔ اس بات کا اندازہ انہیں ساحل ’’لینڈنگ‘‘ پر ہی ہوا۔ یعنی جیسے ہی وہ اقتدار سے محروم ہوئے، انہیں پتہ چلا کہ ہم تو حقیقی آزاد ہی نہیں ہیں۔ چنانچہ انہوں نے جہاد آزادی شروع کر دیا اور آج وہ حقیقی آزادی حاصل کرنے کا حقیقی طریقہ بتانے والے ہیں۔

ڈالر کی قیمت اور نیچے آ گئی، 216 روپے کا ہو گیا۔ ملاحظہ فرمائیے

ڈالر جوں جوں گھٹتا جائے

روپیہ جوں جوں بڑھتا جائے

دل ’’میرا‘‘ توں توں ڈوبا جائے

’’دل میرا‘‘ میں حقیقی ضمیر کا اشارہ کس طرف ہے اور یہ ماجرا کیا ہے، اس کی حقیقی تشریح درکار ہے تو حقیقی آزادی والوں سے رجوع فرمائیے یا پھر ان کے ’’فرنچائز‘‘ شیخ رشید سے۔

پختونخوا میں ٹی ٹی پی کی واپسی تزک و احتشام کے ساتھ ہو گئی ۔ پارلیمنٹ میں بھی خوف و ہراس ظاہر کیا گیا۔ سنا ہے ’’عطیات وصولی‘‘ کی چٹھیوں کا سلسلہ اسلام آباد تک دراز ہو گیا ہے۔ مذاکرات کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ لگتا ہے اب سب راضی برضا ہو گئے۔ ماضی قریب میں سنا تھا کہ مٹھی بھر شرپسند ہیں۔ مٹھی کا سائز نہیں بتایا گیا۔ صوبے میں حقیقی آزادی والوں کی حکومت ہے۔

کچھ عناصر یہ افواہ پھیلا رہے ہیں کہ صوبے میں دراصل دو حکومتیں ہیں، ایک پی ٹی آئی، دوسری طالبان کی اور دونوں ’’اتحادی‘‘ بھی ہیں۔ ماضی کے دہشت گردوں کو ’’ہیرو‘‘ بننا مبارک ہو۔

Comments

Click here to post a comment