ہوم << ملاکنڈ ڈویژن پر ٹیکس کا نفاذ ظالمانہ اقدام کیوں؟-ارشد اللہ

ملاکنڈ ڈویژن پر ٹیکس کا نفاذ ظالمانہ اقدام کیوں؟-ارشد اللہ

tmg پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 247 کے مطابق ملاکنڈ ڈویژن کو ٹیکس فری زون کی آئینی حثیت حاصل ہے۔ 1973ء کے آئین میں متفقہ طور پر یہاں کے باشندوں کو ضمانت دی گئی تھی کہ ان سے کوئی ٹیکس نہیں لیا جائے گا۔ ملاکنڈ ڈویژن صوبے کے زیر انتظام قبائلی علاقہ (پاٹا) ہے جس میں سات اضلاع ملاکنڈ ایجنسی، سوات، بونیر، شانگلہ، دیر لوئر، دیر اپر اور چترال شامل ہیں۔
ملاکنڈ خیبر پختونخوا کا رقبے اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ڈویژن ہے اور گوناگوں مسائل سے دوچار اور بنیادی سہولیات سے محروم چلا آ رہا ہے. ڈویژن میں شامل سات اضلاع گذشتہ 8 سال سے پے درپے قدرتی آفات سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں. 2009 میں دہشت گردی کے عفریت نے پورے ملاکنڈ ڈویژن کا نقشہ بدل کر رکھ دیا. کم و بیش 35 لاکھ لوگوں نے صوبے اور ملک کے دوسرے شہروں کی جانب ہجرت کی. ان کے گھر بار، کاروبار اور فصلیں تباہ ہوگئیں، اور معاشی طور پر ملاکنڈ ڈویژن کے عوام خط غربت سے بھی نیچے چلے گئے. آٹھ سال گزرنے کے باوجود بھی یہاں کے لوگوں کی معاشی حالت سدھرنے کا نام نہیں لے رہی.
آپریشن راہ راست کامیاب ہونے کے بعد ملاکنڈ ڈویژن کے عوام گھروں کو واپس آئے لیکن ان کی مشکلات کم ہونے کے بجائے بڑھ گئیں. 2010ء میں تباہ کن سیلاب عوام کے لیے ڈرائونا خواب بن کر سامنے آیا، اور ڈویژن کا انفراسٹرکچر ایک دن میں دریا برد ہوگیا. دریا کنارے قائم آب پاشی و آب نوشی کے سینکڑوں پراجیکٹس خاک میں مل گئے. لاکھوں روپے کی آمدن دینے والے پھلوں کے باغات مالکان اراضی کا منہ چڑانے لگے. کاروبار ختم ہو کر رہ گیا، آمدورفت کے لیے قائم کردہ رابطہ پل اور سڑکیں بڑی تعداد میں ایسے کٹے کہ لوگوں کا ایک دوسرے سے رابطہ ہی منقطع ہوگیا.
خدا خدا کرکے انفراسٹرکچر کچھ بحال ہوا تو 2015ء کے خوفناک زلزلہ نے اسے پھر سے تباہی سے دوچار کر دیا. زلزلے سے ملاکنڈ ڈویژن کے ساتوں اضلاع بری طرح متاثر ہوئے. سینکڑوں لوگ لقمہ اجل اور ہزاروں زندگی بھر کے لیے معذور بن گئے. گھر خالی کھنڈرات کا منظر پیش کرنے لگے جن کی بحالی کےلیے لوگ آج بھی حکومتی امدادی پیکج کے منتظر ہیں. پے درپے قدرتی آفات نے یہاں کے عوام کو روٹی کے ایک ایک لقمے کے لیے پاپڑ بیلنے پر مجبور کردیا، حالات سے مایوس ہوکر ایک بڑی تعداد نے خلیجی ممالک میں محنت مزدوری کے لیے رخ کیا، اور باقی ماندہ لوگ کاروبار اور زراعت کی بحالی کی تگ و دو میں لگ گئے.
relief-work-idps-swat ورلڈ بینک کے اعدادو شمار کے مطابق ملاکنڈ ڈویژن میں انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے کم از کم 70 ارب روپے کے پیکج کی ضرورت ہے. بڑی تعداد میں دشہت گردی سے متاثرہ سکول ابھی تک بغیر کسی عمارت کے قائم ہیں، اور بچے سردی و گرمی میں کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں. بنیادی مراکز صحت کی عمارات بھوت بنگلوں میں تبدیل ہوگئی ہیں. اور طبی عملے کی عدم دستیابی پر نوحہ کناں ہیں. دہشت گردی، سیلاب اور زلزلے سے متاثرہ گھروں کے مکین تاحال حکومتی پیکیج کی راہ تک رہے ہیں.

شٹرڈائون ہڑتال کا ایک منظر
شٹرڈائون ہڑتال کا ایک منظر
ایسی صورتحال میں نہ جانے حکومت کو کیا سوجھی کہ اس نے کسٹم ایکٹ کی صورت میں ملاکنڈ ڈویژن کے عوام پر ڈرون حملہ کردیا. عجلت میں کیے گئے فیصلے کے مضمرات اب سامنے آ رہے ہیں. ڈویژن کے عوام میں مرکزی و صوبائی حکومت کے خلاف سخت غم و غصہ پایا جارہا ہے. گذشتہ تین ماہ سے ملاکنڈ دویژن کے عوام اور کاروباری طبقہ بشمول سیاسی جماعتیں کسٹم ایکٹ کے نفاذ کو روکنے اور واپس لینے کے لیے جدوجہد اور احتجاج کر رہی ہیں لیکن صوبائی و وفاقی حکومت پروں پر پانی نہیں پڑنے دے ر ہی. صوبائی حکومت کی غلطی سے نافذ شدہ کسٹم ایکٹ اب خود صوبائی حکومت کے لیے سوہان روح بنا ہوا ہے. وفاقی حکومت صوبے میں برسر اقتدار اور ملاکنڈ ڈویژن کے اکثر اضلاع میں جیتنے والی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کو بند گلی میں دھکیلنے میں کامیاب ہوچکی ہے جس سے باہر نکلنا بظاہر پی ٹی آئی کے لیے ناممکن ہوچکا ہے. خود صوبائی حکومت میں شامل اتحادی جماعت، جماعت اسلامی کسٹم ایکٹ کے نفاذ پر سیخ پا ہے اور پی ٹی آئی اور نون لیگ دونوں کو کسٹم ایکٹ کے نفاذ میں برابر کا حصہ دار قرار دے رہی ہے.
11 سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملاکنڈ ڈویژن میں ایک لاکھ سے زیادہ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں چل رہی ہیں جن کے مستقبل پر اب سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ حکومت اگرچہ ایک ٹیکس لگانے کی بات کر رہی ہے لیکن عملا یہ پورا منصوبہ ہے جس سے بتدریج ملاکنڈ ڈویژن کو ٹیکس کے شکنجے میں لایا جائے گا۔ اس کے بعد ایکسائز ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس سمیت درجن بھر ٹیکسوں کا نفاذ ہوگا جو عوام کے لیے دہشت گردی، سیلاب اور زلزلے کے بعد چوتھا عذاب ثابت ہوگا جس سے پھر تاحیات نکلنے کا کوئی امکان نہیں۔ ایسے میں یہاں کے عوام بجا طور پر وفاقی و صوبائی حکومت سے شکوہ کناں ہیں کہ ملاکنڈ ڈویژن کے عوام نے کیا گناہ کیا تھا جس کی پاداش میں یہاں کے شہریوں کو پیکیج دینے کے بجائے ان کے رزق پر لات مارنے کی منصوبہ بندی کی گئی.
1973ء کے آئین میں ملاکنڈ ڈویژن کے عوام کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا لیکن شریفوں اور تبدیلی لانے والے کے سرخیلوں کا مزاج موسم کے ساتھ کیا بدلا کہ ملاکنڈ ڈویژن پر ٹیکس کی بلا منڈلانے لگی۔ ملاکنڈ ڈویژن کے عوام کے ساتھ 1973ء کے آئین میں جو وعدہ کیا گیا تھا اس کے ساتھ مرکزی و صوبائی حکومت کھلواڑ کر رہی ہیں۔
56393084ed7d0 دبے لفظوں میں گورنر صاحب نے ٹیکس کے نفاذ کو پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے کہنے پر نافذ کرنے کی وضاحت کردی ہے جو کہ نہایت افسوسناک امر ہے۔ آخر ان دونوں پارٹیوں کو ملاکنڈ ڈویژن کے عوام نے کیا تکلیف پہنچائی ہے؟ دونوں پارٹیوں کے ورکرز کو چاہیے کہ وہ اپنی پارٹیوں کے قائدین سے اس حوالے سے سوال کریں تاکہ ملاکنڈ ڈویژن کے ستم رسیدہ عوام سکھ کا سانس لے سکیں

Comments

Click here to post a comment