ہوم << اظہر حمید کے لاس اینجلس میں - امجد اسلام امجد

اظہر حمید کے لاس اینجلس میں - امجد اسلام امجد

کئی اور موضوعات کے علاوہ LA یعنی لاس اینجلس میڈیا اور فلم کے حوالے سے پوری دنیا میں ایک نام اور مقام رکھتا ہے کہ ہالی وڈ بھی یہیں پایا جاتاہے مگر امریکا کے بالکل دوسرے کنارے پر اور نیویارک سے تقریباً چھ گھنٹے کی اندرون ملک پرواز اورٹائم ڈیفرنس کے اعتبار سے ہم سے مزید تین گھنٹے پیچھے ہونے کے باوجود ادبی پروگراموں کے اعتبار سے بھی یہ علاقہ بہت آباد اور نمایا ں رہا ہے۔

1984 کے پہلے دورۂ امریکا یہاں ہماری میزبان آپا نیّر جہاں تھیں جنھوں نے ’’اُردو مرکز‘‘ کے سائے تلے سب کو ایک جگہ جمع کر رکھا تھا، اُن کے دوسرے شوہر (جن کا بھی حال ہی میں انتقال ہوا ہے) ذہانت صاحب بھی بہت باقاعدہ قسم کے انسان تھے اور بیگم کے ہر کام میں اُن کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ گزشتہ تیس برس کے دوران کئی بار اُن کی میزبانی کا لطف اُٹھایا، بیماری اور عمر رسیدگی کے باوجود بھی اُن میں جوانوں جیسی چستی تھی اور اُن کی ہر تقریب میں کلاس اور سلیقے کا ہونا ایک لازمی امر تھا، شاعرہ اور مصّورہ شمسہ نجم سے رابطے پر پتہ چلا کہ وہ اب اپنی بیٹی کے پاس نارتھ میں آرلینڈو کی طرف ہجرت کرگئی ہیں اور اب کے صرف اُن کی دعائیں ہی ہمارے شاملِ حال ہوں گی۔

چند ماہ قبل اپنے اخوت والے ڈاکٹر امجد ثاقب کے بیٹے کی شادی کے موقع پر ان کے ایک دوست اور امریکا میں اخوت کے پاسبان اظہر حمید صاحب سے ملاقات ہوئی جو پہلی نظر میں اچھے تو لگے مگر اُن کی دیگر اور جملہ خوبیوں سے آگاہی کا وقت نہ مل سکا، کچھ دن بعد ڈاکٹر صاحب انھیں خاص طور پر ملوانے لائے تو معلوام ہوا کہ وہ ’’سیلف میڈ انسانوں‘‘ کی صف کا ایک رول ماڈل ہیں اور اتنی دولت اور شہرت کمانے کے باوجود اب بھی اپنی زبان ، ثقافت ، دیسی پن اور دِل کی بات کو بغیر کوئی حفاظتی تدبیر اختیار کیے مخاطب کیے منہ پر کہنے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتے ہیں لیکن اس ملاقات کا تا عمر بھی بہت زیادہ گہراتاثر نہیں تھا کہ ہم سب تھوڑے سے وقت میں بہت ساری باتیں ایک ساتھ کرنے کی کوشش کررہے تھے۔لہٰذا میں نے اُن سے وعدے کے مطابق اُن کے دیے ہوئے کارڈ سے اُن کا نمبر ملایا تاکہ ممکن ہو تو LAکے قیام میں ان سے ملاقات ہوسکے لیکن وہ تو شاید میرے فون کے انتظار ہی میں بیٹھے تھے، فوراً مجھ سے مشاعرے کے منتظمین کے نمبر لیے اور ایک گھنٹے کے اندر اندر مجھے وہاں پر کیئے جانے والے انتظامات کی ناقابلِ تسلی رپورٹ بھی دے دی جس کا لَب لباب یہی تھا کہ لوگ اچھے ملنسار اور محبتی تو ہیں مگر کسی گروپ کو قاعدے سے چلانے کے لیے جس تنظیمی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے وہ انھیں کم نظر آرہی ہے۔

اگلے دن فون آیا کہ انھوں نے منتظمین سے بات کرکے سارے انتظامات اپنے ذمے لے لیے ہیں اور اب وہی نہ صرف ہمیں ائیر پورٹ سے پک اور ڈراپ کریں گے بلکہ ہوٹل کی بکنگ اور دورانِ قیام ہماری ہر طرح کی ضرورت کا خیال رکھنا اُن کے لیے ایک سعادت مندانہ ذمے داری ہوگی اور ہنستے ہوئے یہ بھی بتایا کہ ان خدمات کے بدلے میں انھیں مشاعرے کی صدارت بھی آفر کردی گئی ہے جس پر میں نے انھیں ان فوجی جرنیل صاحب کا واقعہ سنایا جن کو زندگی میں پہلی بار کسی مشاعرے کی صدارت ملی تھی۔
مشاعرے کے دوران سامعین کی طرف سے جب بار بار ’’مکررارشاد‘‘ کی آواز یں آئیں تو جرنیل صاحب نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے اسٹیج سیکریٹری سے پوچھا کہ یہ لوگ بار بار ’’مکرّرارشاد‘‘ کیوں کہہ رہے ہیں۔ انھیں بتایا گیا کہ یہ مشاعرے کے آداب کا حصہ ہے اور اس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہی شعر دوبارہ سنایئے، یہ سن کر جرنیل صاحب مستعد ہوکر بیٹھ گئے اور جو نہی سامعین میں سے مکرر ارشاد کی آواز آئی شاعر کے ہاتھوں سے مائیک چھین کر بولے ’’یہ شاعر حضرات تمہارے باپ کے نوکر نہیں ہیں، پہلی بار غور سے کیوں نہیں سنتے‘‘

اظہر حمید نے ہنستے ہوئے کہا عجیب بات ہے کہ میرا اور میری بیوی دونوں کا تعلق فوجی خاندانوں سے ہے ۔ اب ہُوا یوں کہ Seattleسے روانگی کے وقت اُن سے بات تو ہوگئی اور جب انھوں نے کہا کہ وہ ایک بجے سے پہلے وہاں ہوں گے تو ہمیں مزید اطمینان ہوگیا کہ ہمارے جہاز کو 12:55پر لینڈ کرنا تھا، سامان وغیرہ لے کر ہم نے چار وں طرف اُن جیسے کئی شخص کی تلاش میں نظر یں دوڑائیں مگر صورتِ حال میں کوئی بہتری پیدا نہ ہوسکی۔

عام طور پر ائیر پورٹس کے اندر ایک آدھ گھنٹے کے لیے فری WiFiکنکشن دے دیا جاتاہے مگر یہاں کسی وجہ سے وہ Internetسے Connectنہیں ہورہا تھا، سو پریشانی میں مزید اضافہ ہونے لگا لیکن Panicکی اسٹیج آنے سے چند ہی لمحے قبل اظہر بھائی کی کال آگئی کہ آپ کس جگہ پر ہیں، معلوم ہوا کہ ان کے پاس عین اسی وقت LAسے لینڈ کرنے والی ایک ا ور فلائٹ کا نمبر تھا اور وہ کسی دوسری جگہ ہمارے انتظارمیں پریشان ہورہے تھے۔ شوکت فہمی بظاہر مجھ سے چھپ کر ایک عدد سگریٹ سے مکالمہ کر چکا تھا چنانچہ اس کی پریشانی کا دورانیہ شروع ہی نہ ہوسکا۔ لاس اینجلس اتنا بڑا شہر ہے کہ بقول شخصے اُس کی موسمیاتی رپورٹ میں بھی اسے چار ٹکڑوں میں بانٹ کر دکھایا جاتا ہے۔ اظہر بھائی کا گھر ایک قدرے بلند جگہ پر واقع تھا سو اُن کے ٹیرس سے دُور دُور تک آبادی ہی آبادی نظر آرہی تھی جسے ٹھیک طرح سے نہ دیکھ سکنے کا کریڈٹ صاحبِ خانہ کے اُن بڑے بڑے کتوں کو جاتا ہے جو مسلسل ہماری طرف دیکھے جارہے تھے۔

اُن کی بیگم صاحبہ اُن سے بھی زیادہ خلیق اور محبتی نکلیں کہ ڈائننگ ٹیبل پر میری ٹوٹی ہوئی عینک کے رکھنے تک کی جگہ نہیں تھی، بھابی صاحبہ کا تعلق برکی خاندان سے ہے اور عمران خان، ماجد خان اور جاوید برکی تینوں رشتے میں اُن کے ماموں وغیرہ لگتے ہیں، سو اس نسبت سے بھی اُن سے کرکٹ اور ادب کی باتیں ایک دوسرے پر اوورلیپO/Lہوتی رہیں، اُن کی تنظیمی صلاحیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوا کہ انھوں نے ’’عینک کہانی‘‘ سنتے ہی مضروبہ عینک اپنے قبضے میں لے لی اور کہا کہ وہ رات کو مشاعرے میں آتے وقت اس کوٹھیک کر اکے لے آئیں گی او پھر ایسا ہی ہوا۔

میرے ایک بڑے والے بیگ کا پہیہ کسی ائیر پورٹ کے عملے کی بے احتیاطی کا شکار ہو کر ٹوٹ گیا تھا سو اُسے چلانے میں خاصی دِقت ہو رہی تھی، اظہر بھائی نے ہوٹل میں ہمیں چیک اِن کرنے کے دوران بتایا کہ وہ اس ناہنجار سوٹ کیس سے میری جان چھڑانا چاہتے ہیں چنانچہ وہ رات کو ایک متبادل بکس بھی ساتھ لیتے آئیں گے، کسی نے ٹھیک کہا ہے کہ انکار وہاں کرو جہاں کوئی اسے سننے اور سمجھنے و الا ہو جب کہ اظہر کے کان اُن کی محبت، طبیعت، تربیت اورخوشی سے اس وقت مکمل طور پر بند کررکھے تھے ۔ ہوٹل کا وائی فائی کنکشن ملتے ہی کنول اور گونی ( جہانگیر) کو فون کیا معلوم ہوا کہ وہ ہم سے کچھ پہلے مشاعرہ گاہ پہنچ جائیں گے کہ اُن کے گھر سے یہ فاصلہ صرف ایک گھنٹے کا ہے۔

Comments

Click here to post a comment