اسلام آباد سے’ نوائے وقت‘ کے خبر نگار شاہد اجمل کی خبر ہے کہ حالات حاضرہ نے پی ٹی آئی کو بیک فٹ پر جانے کے لیے مجبور کر دیا ہے اور اب ان کی طرف سے جلد انتخابات کے مطالبے پر زیادہ زور نہیں دیا جا رہا۔
قارئین ! راقم الحروف محض سطر نگار ہے، خبر نگار بالکل نہیں لیکن ایک خبر رستہ بھٹک کر اس تک بھی پہنچ گئی ہے جو مذکورہ بالا خبر کی تائید کرتی ہے۔ خبر یہ ہے کہ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک ریٹائرڈ بزرگوار نے جو اسرائیل کے سخت گیر حامی ہونے کی شہرت بھی رکھتے ہیں۔ دو تین روز پہلے لندن میں نواز شریف سے رابطہ کیا اور انھیں قائد انقلاب عمران خان کی طرف سے یہ پیغام یا پیشکش پہنچائی کہ جناب، آپ اس سال نومبر نہیں، بھلے سے اگلے سال مارچ اپریل میں انتخابات کرالیں لیکن براہِ کرم یہ نااہلی، ناجائز فنڈنگ اور الیکشن کمیشن کے فیصلے سے برآمد ہونے والے کچھ دیگر امور کی ذیل میں مقدمات بنانے کا فیصلہ واپس لیں۔ پیشکش میں ایک اضافی بات یہ بھی تھی کہ ہمارے آپ کے درمیان نئے میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت کے لیے بامقصد اور بامعنی مذاکرات بھی ہو سکتے ہیں لیکن ابتدائی مرحلے میں یہ بات چیت ثانوی درجے کی قیادت میں ہو گی۔
یہاں تک تو پہنچے، یہاں تک تو آنے والا معاملہ ہو گیا۔ بہرحال، نازل شدہ خبر کے مطابق نواز شریف نے انکار کیا نہ اقرار، کچھ اس قسم کی بات کی کہ دیکھتے ہیں۔ نیز یہ بھی کہا کہ مقدمات میں نہیں، اسلام آباد میں بیٹھی ہوئی حکومت بنا رہی ہے۔ اس خبر سے ہٹ کر دیگر ذرائع سے عام مل جانے والی معلومات کے مطابق نواز شریف کسی لچک کے موڈ میں نہیں۔
دام بہت سخت اور ناقابلِ گرفت ہے، اس بات کا علم پی ٹی آئی کو بھی ہو گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو وہ جتنا بھی متنازعہ اور غلط قرار دے، اتنا اسے بھی علم ہے کہ چنری پر لاگا داغ ایسا گہرا، اتنا بڑا ہے کہ مٹائے نہ بنے اور چھپائے بھی نہ بنے۔ ایسے میں بیک فٹ کی ’منطق‘ اچھی طرح سمجھ میں آ جاتی ہے۔
یاد آیا، کل اسلام آباد میں پی ٹی آئی کا احتجاجی مظاہرہ تھا جس سے قائد انقلاب نے بھی خطاب فرمایا۔ لوگوں نے اس میں شرکاءکی کم تعداد کو نوٹ کیا ہے لیکن راقم الحروف نے ایک اور ’مسنگ‘ بھی نوٹ کی۔ وہ میلے ٹھیلے، جشنِ شبینہ اور می رقصم والی کیفیت اس بار نظر نہیں آئی۔ کیا پی ٹی آئی اب سنجیدہ ہو چلی ہے یا واقعی کچھ کھو گیا ہے کہ اتنی کھوئی کھوئی نظر آ رہی ہے ورنہ پہلے تو یہ عالم تھا کہ
چلے دو قدم اور قیامت اٹھا دی
ذرا ہنس دیے اور بجلی گرا دی
عالمی میڈیا نے تصدیق کر دی ہے کہ جس ڈرون طیارے نے کابل میں حملہ کر کے القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی جان لی، وہ شمال کے پڑوسی ملک کرغیزستان سے اڑا تھا، پاکستان سے نہیں۔ پی ٹی آئی سے وابستہ سوشل میڈیا اور اس کے حامی بعض نمایاں میڈیا پریس چار دن سے یہ ’ان سائیڈ سٹوری‘ پھیلا رہے ہیں کہ پاکستان میں یہ جو ڈالر کی قیمت گر رہی ہے اور روپیہ تگڑا ہو رہا ہے تو اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ امریکہ نے ایمن الظواہری پر ڈرون حملہ کے عوض پاکستان کو ڈالروں سے بھری بوریاں (بقول بعضے کنٹینر) دیے ہیں۔ کمال ہے، امریکا کی خدمت کرغیزستان نے کی، صلہ پاکستان کو دے دیا گیا؟ لگتا ہے، امریکی وزارت خارجہ پاکستان اور کرغیزستان کو ایک ہی ملک سمجھتی ہے۔ پی ٹی آئی کو پہلی فرصت میں چاہیے کہ امریکا کی یہ غلط فہمی دور کرے، اسے بتائے کہ دونوں الگ الگ ملک ہیں اور آپ نے غلط ملک کو ’معاوضہ‘ دے دیا ہے۔
محترم سراج الحق نے بجا فرمایا ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں کے دورے محض فوٹو شوٹ ہیں۔ اشارہ ان کا واضح طور پر شہباز شریف کی طرف ہے جنہوں نے وزیر اعظم کی حیثیت سے پہلے بلوچستان کے تباہ علاقوں میں جا کر فوٹو شوٹ کرائے، پھر پختونخوا گئے اور اب جنوبی پنجاب فوٹو شوٹ کے لیے پہنچ گئے ہیں۔ فوٹو شوٹ کرانا اچھی بات نہیں، اس لیے سراج الحق صاحب کے ممدوح عمران خان نے اس غلط بات سے گریز کیا۔ نہ تو وہ بلوچستان گئے، نہ پختونخوا جہاں بلوچستان کے بعد سب سے زیادہ بربادی ہوئی اور نہ ہی اپنی سب سے بڑی اقلیم پنجاب کے جنوب میں گئے جہاں ان گنت بستیاں صفحہ¿ ہستی سے مٹ گئی ہیں۔ عمران خان کی اس اچھی بات کی تائید کرنا چاہیے۔ فوٹو شوٹ پر جانے کے بجائے آپ نے پاکپتن جا کر ماتھا ٹیکا اور روحانیت کا ٹیکا لگوایا۔ برسبیل تذکرہ ، بلوچستان، پختونخواہ اور جنوبی پنجاب کے وہ متاثرین بہت خوش ہیں جن کے ساتھ شہباز شریف نے فوٹو شوٹ کرایا۔ بظاہر بظاہر یہ لوگ’ شرک‘ کے مرتکب ہوئے ہیں۔
ایک ٹی وی پروگرام میں سدا بہار غصہ در شیخ رشید موجود، حکومت کے خلاف بات کرتے ہوئے مزید برہم ہو گئے اور حکمرانوں کا نام لے کر سٹیج پر بھی تھوک ڈالا۔ غصہ تھوکنا اور بات ہے، غصے میں تھوکنا اور بات ہے اور عمرانی کوڈ آف ایتھکس میں یہ نیااضافہ ہوا ہے، بظاہر اس کی پیروی اب دوسرے مجاہدین انقلاب بھی کریں گے۔ مذکورہ ٹی وی چینل اس ’ایکشن‘ کو کاٹ سکتا تھا لیکن اس خیال سے نہیں کاٹا کہ شاید یہ مستقل کی سٹریٹجی یعنی حکمت عملی یا لائحہ عمل میں بنیادی کردار ثابت ہو واضح رہنا چاہیے کہ ’اخلاقیات‘ کوئی جامد شے نہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں نئی نئی اخلاقی قدروں کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ پی ٹی آئی نے 2014ءکے دھرنے سے ملک میں اخلاقی انقلاب کے جس سفر کا آغاز کیا تھا، وہ ارتقا کی ان گنت منازل طے کر چکا ہے۔ اس گراں قدر اخلاقی ذخیرے میں عمران خان کے بعد سب سے زیادہ اضافے شیخ رشید نے کیے ہیں۔ دراصل انھیں اخلاقیات کا ’مجتہد‘ قرار دیا جانا چاہیے ۔ ان کا تازہ اخلاقی اجتہاد قابل تقلید ہی نہیں، واجب التقلید بھی ہے۔
آنے والے دنوں میں ہم مقلّدین کی فہرست میں گراں قدر اضافہ دیکھیں گے۔ ایسی امید کی جا سکتی ہے۔ مسجدِنبوی میں کچھ افراد نے وزیر اعظم شہباز شریف کی آمد پر مخالفانہ نعرے بازی کی تھی اور کچھ ’بھیڑے مندے‘ الفاظ بھی کورس کی شکل میں ادا کیے تھے۔ ایک غل مچا کہ یہ حرمِ نبوی کی توہین ہے لیکن شیخ رشید سمیت پی ٹی آئی کے بہت سے لیڈروں نے اس فعل کو حق بجانب قرار دیا اور کہا کہ یہ تو کرپٹ حکمرانوں کے خلاف کلمہ¿ جہاد ہے اور کلمہ¿ جہاد تو کہیں بھی ادا ہو سکتا ہے۔ خبر ہے کہ لگ بھگ ایک درجن مجاہدین کو سعودی عدالتوں نے آٹھ آٹھ دس د سال قید کی سزا سنا دی ہے۔
تبصرہ لکھیے