عجیب ماجرا ہوا ہے کہ ڈالر دو روز میں چودہ پندرہ روپے سستا ہو گیا ہے اور مزید عجیب معاملہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ مہینے کے اندر اندر اتنا سستا ہو جائے گا کہ دو سو روپے سے بھی کم پر آجائے گا۔ اس ماجرائے عجیب کی تشر یحیں بھی عجیب ہیں۔ ایک تشریح یہ ہے کہ دو تین روز پہلے الیکشن کمشن نے اس فارن فنڈنگ کے کیس میں جو فارن توہے لیکن جسے فارن نہ کہنے کی تنبیہ بھی موجود ہے۔ ایک فیصلہ سنایا تھا‘ ڈالر اسی کے نتیجے میں نیچے آیا ہے اور نہ صرف یہ کہ ڈالر نیچے آیا ہے بلکہ اسی فیصلے کی وجہ سے سٹاک مارکیٹ بھی مائل پرواز ہو گئی ہے۔ عجیب ماجرے کی غریب تشریح ہے۔ یہاں غریب کے معنے مفلسی وناداری کے نہیں بلکہ ”نادر“ ہونے کے ہیں۔ نادر یعنی جس کی مثال یا تو نایاب ہو یا کم یاب۔ ایسا کبھی سنا نہیں کہ عدالت فیصلہ کسی اور کیس میں سنائے ‘ نتیجہ کسی اور شعبے میں نکل آئے۔
ایک دوسری تشریح بھی گردش کر رہی ہے اور اس تشریح کو گردش میں لانے والے ماہر اقتصادی امور ڈاکٹر اشفاق حسن ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ کچھ ”مافیاز“ ڈالرز کی لوٹ مار کر رہے تھے اور مال بنا رہے تھے۔ حکومت نے اور کچھ نہیں کہا‘ محض ان پر نظر رکھی اور بتایا کہ تم نظر میں آگئے ہو‘ اب پکڑ میں بھی آجاﺅ گے۔ بس اتنی سی آنکھ دکھانے کی دیر تھی کہ وہ حضرات خبردار ہو گئے اور باز آگئے۔ یہاں حضرات اور مافیاز کے معنے ایک ہی ہیں۔ ایک خبر یہ ہے کہ ان حضرات یعنی مافیاز کا تعلق سابق حکمران جماعت سے تھا۔ اگر یہ خبر سچ ہے تو حکومت کی اس کارروائی کو ہم آسانی سے ”سیاسی انتقام“ قرار دے سکتے ہیں۔ ایسا سیاسی انتقام جو ”تبدیلی“ کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے۔
ڈالر والا معاملہ پہلے اسی طرح نہیں تھا جیسے اب ہے۔ پہلے سے مراد چار سال پہلے کا زمانہ ہے۔ عمران خان کی حکومت آئی اور چند ہی دنوں بعد ایک ہی دن میں ڈالر کی قیمت 20‘ 25 روپے اکٹھی بڑھ گئی۔ تب کچھ افواہ سی اڑی تھی کہ حکومت نے اپنی بعض ”اے ٹی ایم“ مشینوں کو نوازنے کیلئے ڈالر اس طرح‘ تھوک کے حساب سے مہنگا کیا ہے‘ لیکن عمران خان نے یہ کہہ کر افواہ کی تردید کر دی کہ مجھے کیا پتہ مجھے تو ٹی وی سے سن کر پتہ چلا کہ ڈالر مہنگا ہو گیا ہے۔ بروایت دیگر انہیں ڈالر مہنگا ہونے کی خبر محترمہ بیوی صاحبہ نے دی۔ واللہ اعلم۔ ایک بدخواہ کا بیان چھپا کہ عمران خان غیرملکی قرضوں کی مالیت بڑھانے کیلئے ڈالر مہنگا کر رہے ہیں تاکہ پاکستان اتنا مقروض ہو جائے کہ غیروں کی کہی ماننے پر مجبور ہو جائے۔ بظاہر یہ بدخواہ کی بدخواہی لگتی ہے۔ بہرحال اس دوران قرضے کی رفتار دن دگنی رات چوگنی کے حساب سے ترقی کرتی گئی اور آج لگ بھگ چار برس بعد وفاقی وزیر خورشید شاہ نے بھی وہی بات کر دی ہے جو بدخواہ نے کی تھی۔ ہے نہ عجیب ماجرا۔
خورشید شاہ نے کیا کہا ہے؟ ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں انہوں نے فرمایا کہ عمران خان نے جان بوجھ کر پاکستان کے اقتصادی حالات خراب کئے تاکہ پاکستان اس مقام پر پہنچ جائے کہ اسے قرضے اتارنے کیلئے مصر کی طرح ”کمپرو مائز“ کرنا پڑ جائے۔ مصر کے حالات اتنے خراب ہو گئے تھے کہ اسے ایک ”کیمپ ڈیوڈ“ نامی معاہدہ پیش کیا گیا اور کہا گیا کہ دستخط کر دو۔ قرضے معاف کر دیں گے۔ کوئی 20 ارب کے قرضے تھے‘ دستخط کرتے ہی معاف ہو گئے۔ خورشید شاہ نے انٹرویو میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا حوالہ دیا اور کہا کہ عمران خان چاہتا تھاکہ پاکستان اس پر کمپرومائز کرنے کیلئے مجبور ہو جائے۔ یعنی دوسرے ملک لالی پاپ دیکر پاکستان سے اس کے ایٹمی ہتھیار لے اڑیں۔ یہ لالی پاپ والا فقرہ کالم نویس کا ہے۔ اس سے پہلے ساری بات البتہ خورشید شاہ نے کی جو ٹی وی پر نشر ہوئی۔ اسے گفتگوئے عجیب نہیں تو گفتگوئے غریب ضرور کہا جا سکا ہے۔
تبصرہ کرتے ہوئے حسن ظن رکھنا لازم ہے اور حسن ظن کہتا ہے کہ اگر خورشید شاہ کی بات درست ہے تو عمران خان نے یہ سب کچھ نیک نیتی سے کیا ہوگا۔ کسی خراب نیت سے نہیں۔ اور یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ جہاں سے ایک کیس میں عمران خان کو صادق امین قرار دیا گیا تھا‘ وہیں سے ایک دوسرے کیس میں عمران خان کو نیک نیت بھی قرار دیا تھا۔ حق تو یہ ہے کہ عمران خان کو اس طرح کے معاملات میں ہدف تنقید بنانے کے بجائے نیک نیتی داد دینی چاہئیں اور کوشش کرنی چاہئے کہ انہیں مزید معاملات میں نیک نیتی کے ایسے ہی مظاہرے کرنے کیلئے حکومت کرنے کا ایک موقع اور دیا جائے۔ بدقسمتی سے سیاسی ماحولیات والے ایسے کسی بھی امکان کو رد کر رہے ہیں۔ بدقسمتی کی بات ہے۔
حافظ حسین احمد نے مطالبہ کیا ہے کہ کابل میں ایمن الظواہری پر حملہ کرنے والا ڈرون کس ملک سے اڑا تھا۔
یہ بتایا جائے۔ بظاہر حافظ صاحب کا یہ سوال پی ٹی آئی کی ہمنوائی میں ہے جو یہ کہہ رہی ہے کہ ڈرون پاکستان کے کسی اڈے سے اڑا تھا۔ حکومت پاکستان پہلے ہی اس دعوے کی تردید کر چکا ہے اور آج افغان حکام کے بیان سے بھی پاکستان کی تردید کی تائید کی گئی ہے۔ امید ہے‘ حافظ صاحب جو اپنی پارٹی سے ناراض ہے‘ پی ٹی آئی کی مزید ہم نوائی کریں گے اور دو دو ملکوں کی تسلیم کر لیں گے۔ ویسے ڈرون وسط ایشیا کے تین مالک سے بھی اڑ سکتے ہیں جہاں بڑے بڑے امریکی اڈے قائم ہیں اور ان پر ڈرون پرے بنائے کھڑے ہیں قطار اندر قطار۔ مزید یہ کہ پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرنے کا معاہدہ پرویز مشرف کے دور سے چلا آرہا ہے اور عمران خان کی حکومت نے احتراماً اس پر کوئی میلی نظربھی نہیں ڈالی تھی۔ مزید یہ کہ ایبسولو ٹیلی ناٹ کا نعرہ ایک صحافی کو سنایا گیا تھا۔ اس معاہدے کو نہیں۔ حافظ صاحب کو معلوم تو ہوگا۔
تبصرہ لکھیے