الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تین رکنی بینچ نے پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنا دیا، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ لینا ثابت ہو گیا ہے، الیکشن کمیشن نے ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے پر پاکستان تحریک انصاف کو شوکاز نوٹس بھی جاری کر دیا ہے۔
اس فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن اپنا ریفرنس وفاقی حکومت کو بھجوائے گا تو حکومت اس کو فوری طور پر سپریم کورٹ بھیجنے کی مجاز ہو گی۔ ممنوعہ فنڈنگ کیس 8سال پراناتھا ، سوال یہ ہے کہ اتنی تاخیر سے کیوں فیصلہ دیا گیا؟، 2018ء کے الیکشن سے پہلے فیصلہ آنا چاہئے تھا مگر پاکستان میں فیصلے مصلحتوں کے تابع ہوتے ہیں، یہ کیا بات ہوئی کہ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن پر اعتراضات اٹھائے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں سے الیکشن کمشنر کے خلاف قراردادیں منظور کیں تو فیصلہ بھی آ گیا۔ سالہا سال کیس لٹکایا جاتا رہا، 21 جون کو فیصلہ محفوظ تو ہوا مگر اس فیصلہ کو سنانے کے دن کا تعین نہ کیا گیا، اس پر سیاسی لوگوں نے تبصرہ کیا کہ فیصلہ محفوظ ہاتھوں میں چلا گیا ہے، اگر انصاف میں تاخیر نہ ہو تو اس طرح کے اعتراضات سامنے نہ آئیں۔ انصاف کا تقاضہ یہی تھا کہ فیصلہ بروقت کیا جاتا ، یہ الیکشن کمیشن کے ساتھ حکومت کی بھی ذمہ داری تھی ، مسلم لیگ (ن) اعتراض کر تی رہی مگر وہ بھی برسراقتدار رہی ان کے دور میں بھی فیصلہ سامنے نہ آیا۔ تمام اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حساس معاملات کو دبا کر نہ رکھیں اور فوری فیصلے کریں۔
قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہئے، قانون میں واضح لکھا ہوا ہے کہ کوئی جماعت فارن فنڈنگ حاصل نہیں کر سکتی مگر ستم یہ ہے کہ فارن فنڈنگ سب حاصل کرتے ہیں صرف لیبل تبدیل کر دئیے جاتے ہیں۔ کوئی کرکٹ لے لیتا ہے، کوئی مذہب کے نام پر لے لیتا ہے ، کوئی مسلک کے نام پر لے لیتا ہے، کوئی انسانیت کی خدمت کے نام پر لے لیتا ہے ۔ الیکشن کمیشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 204کے سب سیکشن 3 کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کو بلواسطہ یا بلا واسطہ حاصل ہونے والے فنڈز جو کسی غیر ملکی حکومت، ملٹی نیشنل یا پرائیویٹ کمپنی یا فرد سے حاصل کئے گئے ہوں وہ ممنوعہ فنڈز کے زمرے میں آتے ہیں۔
اس ایکٹ میں اس بات کی وضاحت بھی کی گئی ہے کہ دوہری شہریت رکھنے والے پاکستانی یا جن کو نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی نے ٹائیکوپ کارڈ جاری کیا ہے ان پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا، یہی وہ شق ہے جس کا سب فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے دھمکی دی تھی کہ فیصلہ جلد نہ سنایا گیا تو دھرنا دیں گے جبکہ عمران خان نے مطالبہ کیا تھا کہ تمام جماعتوں کے فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے اکٹھے آنے چاہئیں ،فیصلہ تو جلد سنادیا گیا مگر عمران خان کا مطالبہ مسترد کر دیا گیا، اس پر بھی اعتراضات آئیں گے ۔ فارن فنڈنگ کیس جرم ہے تو پھر تمام جماعتوں کا فیصلہ جلد آنا چاہئے ، انصاف کو سیاست کی نذر نہیں کرنا چاہئے اور انصاف مصلحتوں سے بالاتر ہونا چاہئے۔
الیکشن ایکٹ کے تحت فارن فنڈنگ لینے والی جماعت اپنا وزیر برقرار نہیں رکھ سکتی ، اس کے تمام عطیات ضبط ہو سکتے ہیں ، پارٹی تحلیل ہو سکتی ہے، پارلیمنٹ ، صوبائی اور مقامی حکومتوں سے نا اہل بھی کیا جا سکتا ہے۔ دراصل فارن فنڈنگ ایکٹ ایک حساس معاملہ ہے اگر یہ بات آگے بڑھتی ہے تو وہ مذہبی جماعتیں جو سیاست میں بھی حصہ لیتی ہیں جس طرح جماعت اسلامی ، جمعیت علماء اسلام، جمعیت اہلحدیث، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ، جمعیت علمائے پاکستان ، تحریک لبیک اور اس طرح کی بہت سی مذہبی جماعتوں کا کچھ نہیں بچے گا کہ ان کے زیادہ معاملات فارن فنڈنگ سے پورے ہوتے ہیں۔ تھوڑا پس منظر میں جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ میںالیکشن کمیشن نے صرف ایک سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کی تھی ،سابق وزیر ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اس جماعت پر غداری اور انڈیا سے فنڈز حاصل کرنے پر الزامات عائد ہونے کے بعد اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔
نیشنل عوامی پارٹی کی بنیاد 1958ء میں اس وقت کے مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں عبدالمجید خان بھاشانی نے رکھی تھی، اس جماعت نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ پی ٹی آئی کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کا معاملہ 2014ء میں سامنے آیا، تحریک انصاف کے بانی رکن ایس بابر اس کیس کو الیکشن کمیشن آف پاکستان میں لے گئے، اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن میں موقف اختیار کیا کہ پی ٹی آئی نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے علاوہ غیر ملکیوں سے بھی فنڈز حاصل کئے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے 21 جون کو تحریک انصاف کے ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ محفوظ کیا ، ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے کی رپورٹ نشر ہونے کے بعد سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن پر دبائو بڑھانا شروع کر دیا تھاکہ الیکشن کمیشن اس فیصلے کا اعلان کرے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ثابت ہوا کہ پی ٹی آئی نے فنڈلئے، نامعلوم اکائونٹ سامنے آئے، امریکا ، آسٹریلیا اور یو اے ای سے عطیات لئے گئے، عارف نقوی کی کمپنی ووٹن کرکٹ سے اکیس لاکھ اکیس ہزار پانچ سو امریکی ڈالر فنڈ لئے گئے، عمران خان نے فارم ون جمع کرایا جو غلط بیانی اور جھوٹ پر مبنی ہے، پارٹی اکائونٹس سے متعلق دیا گیا بیان حلفی بھی جھوٹا ہے۔ سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو ارکان اسمبلی جو گوشوارے حلفیہ بیان کے ساتھ جمع کراتے ہیں کیا وہ درست ہوتے ہیں؟۔ یہ ٹھیک ہے کہ معاملات کو قواعد کے مطابق ہونا چاہئے، قوانین کی پاسداری ہونی چاہئے مگر یہ پاسداری کون کرائے گا؟۔ اب اکائونٹس چھپانے کی بات ہے تو کس کو پتہ نہیں کہ پاناما لیکس کیا تھی ؟جعلی اکائونٹس کس کس کے ثابت نہیں ہوئے؟۔ ان تمام باتوں کا الیکشن کمیشن کو بھی پتہ ہے، اداروں کو بھی پتہ ہے ، سوال یہ ہے کہ آج جو لوگ اعتراض اٹھا رہے ہیں.
یہ اعتراضات 2018ء سے پہلے کیوں نہ اٹھائے گئے؟۔ انصاف کے تقاضوں کے مطابق پسند نا پسند کا معاملہ ختم ہونا چاہئے جس کو رعایت دینی ہو اس کے تمام گناہوں پر پردہ پوشی کر دی جاتی ہے اور جس پر غصہ نکالنا ہو اور سزا دینی ہو تو پھر قوانین اور ضابطوں کو آگے لا کر کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ دراصل یہی پریکٹس انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
تبصرہ لکھیے