سپریم کورٹ آف پاکستان کے معاملات بھی میڈیا اور عوامی سطح پر زیر بحث ہیں۔ اس سے پہلے افواجِ پاکستان کے خلاف منظم مہم چلائی گئی اور یہ مہم اس شدت سے چلائی گئی کہ عام آدمی بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔
فوج کے خلاف ہمارے سیاستدان بھی باتیں کرتے ہیں اور اپنے ووٹرز کو متحرک کرنے کے لیے دفاعی اداروں کے حوالے سے غیر ذمہ دارانہ گفتگو کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے سربراہان یا اہم رہنماؤں کی طرف سے ایسی گفتگو کا مقصد صرف اور صرف یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ہم طاقتور حلقوں کے سامنے ڈٹ گئے تھے۔ وہ اپنی گفتگو کے ذریعے عوامی جذبات بھڑکانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ جذباتی ووٹرز سڑکوں پر لایا جائے اور اداروں پر دباؤ بڑھایا جائے۔ اب سیاست دان ایسی گفتگو کرتے ہوئے قومی مفاد کو نظر انداز کرتے ہیں اور صرف سیاسی فائدے کے لیے ملک کو عدم استحکام کی طرف دھکیلتے ہیں۔ ایسا ہی ان دنوں ہو رہا ہے۔ اب عدلیہ نشانے پر ہے۔ یقیناً اس مرتبہ نشانے لگانے والے کوئی اور ہیں لیکن سب کا مقصد اپنا اقتدار ہی ہوتا ہے۔
اداروں کے حوالے سے ایسی منظم مہم سے یقیناً عدم استحکام میں اضافہ ہوتا ہے ناصرف عدم استحکام بلکہ عدم اعتماد میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ بیرونی دنیا میں ملک کی ساکھ خراب ہوتی ہے۔ سرمایہ کاری متاثر ہوتی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے حوالے سے منفی بیان بازی ہو گی تو اس کا اثر ہر ادارے پر پڑتا ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ ایسے معاملات میں بردباری، تحمل مزاجی اور اتفاق رائے کا راستہ اختیار کیا جائے۔ ملک میں اہم عہدوں پر موجود شخصیات کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے عہدوں سے انصاف کریں۔ حدود سے تجاوز یا کسی کے ساتھ ذاتی اختلاف کسی بھی جگہ آئین و قانون اور فیصلوں پر حاوی نہیں ہونے چاہئیں۔
ایک تو ہم جلد باز ہیں، ہم ناشکرے بھی ہیں، ہم نااتفاقی پسند کرتے ہیں، لعن طعن پر اتراتے ہیں۔ ہمارا طرز زندگی ایسا نہیں کہ مثال دی جا سکے۔ ہم ہر دوسرے کے کام میں ٹانگ اڑانا پسند کرتے ہیں، کسی کے راستے میں روڑے اٹکانا ہمارا محبوب مشغلہ ہے۔ ہم میں سے کوئی سیکیورٹی گارڈ بھی ہو تو اس کے بھی بہت نخرے ہوتے ہیں، ہم میں سے ہر کوئی اپنی اپنی جگہ ایک بہت بڑا اور سخت افسر ہے لیکن یہ ساری سختی دوسروں کے لیے ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر ہمیں اپنے طرز زندگی پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی اوپر بیٹھے افراد کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتا ہے لیکن اپنی اصلاح پر توجہ نہیں دیتا۔ مان لیں اداروں میں خامیاں ہیں ، غلط فیصلے بھی ہوتے ہوں گے لیکن کیا ہم سب غلطیوں اور خامیوں سے پاک ہیں۔ یقیناً ایسا نہیں ہے لیکن ہم کسی دوسرے کی غلطی کو بنیاد بنا کر اپنی غلطیوں کو چھپانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ ہم لاکھ چھپاتے رہیں لیکن کہیں نہ کہیں تو سب کچھ ریکارڈ ہو رہا ہے اور ہم سب کو جواب دینا پڑے گا۔
ہم دوسروں کو حد سے بڑھنے کا طعنہ دیتے ہیں لیکن کیا ہم حدود سے تجاوز نہیں کرتے۔ ہم ان مسائل سے کیسے نکل سکتے ہیں۔ آپ اس حوالے سے ٹیلیویڑن چینلز پر بحث سنتے رہتے ہیں لیکن کہیں بھی اصل مسئلے پر بات نہیں ہوتی۔ درحقیقت ان تمام مسائل کی جڑ ہمارا اخلاقی انحطاط ہے۔ ہم اخلاقی طور پر اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ غلط اور درست کے مابین فرق تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے، ہم آزادی کے نام پر بدتہذیبی و بداخلاقی کو عام کر رہے ہیں۔ ہم بغیر سوچے سمجھے بولے جا رہے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ ہمیں ایک ایک لفظ کا حساب دینا ہے۔ ہم مانیٹر ہو رہے ہیں، ایک ایک حرکت پر نظر ہے۔ ایک ایسی جگہ جہاں ہمیں اپنے ہر عمل کا خود جواب دینا ہو گا۔ اگر یہ سوچ ہمارے اندر واپس آئے تو کوئی وجہ نہیں کہ رویے تبدیل ہوں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس سوچ کی طرف کیسے آ سکتے ہیں۔
اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں اجتماعی توبہ کرنا ہو گی۔ پھر ہمیں دین کی طرف واپس آنا ہو گا۔ اگر ہم قرآن کریم پر عمل کریں، سنتوں پر عمل کرتے رہیں تو معاشرے میں نظر آنے والے بڑے بڑے مسائل ختم ہوتے جائیں گے۔ اسلام نے زندگی گذارنے کا بہترین طریقہ بتایا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی پیاری پیاری باتیں ہمیں مشکلات سے بچانے کے لیے ہیں۔ یہ بدقسمتی ہے کہ ہم فلاح کا راستہ چھوڑ کر آگ پر چل رہے ہیں اور الزام دوسروں کو دیتے رہتے ہیں۔ ہمیں نگاہ خود پر رکھنی چاہیے لیکن ہم ہر وقت دوسروں پر وقت ضائع کرتے ہیں۔
قرآن کریم میں ہے کہ
ترجمہ۔ اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان میں صلح کراؤ پھر اگر ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس زیادتی والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے پھر اگر پلٹ آئے تو انصاف کے ساتھ ان میں اصلاح کر دو اور عدل کرو بیشک عدل والے اللہ کو پیارے ہیں۔
عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ’’بیشک انصاف کرنے والے اللہ کے ہاں نور کے منبروں پر ہوں گے، یہ وہ لوگ ہوں گے جو اپنی رعایا اور اہل و عیال اور جس کا انہیں ذمہ دار بنایا جاتا ان میں عدل و انصاف کرتے ہوں گے۔
قرآن کریم میں ہے کہ
ترجمہ۔بیشک اللہ حد سے بڑھنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے۔
کوئی پڑھے تو، کوئی توجہ تو دے، کسی کے پاس وقت ہو تو غور کرے مسائل کی وجہ ہم خود ہیں۔ یہ ہمارے پیدا کردہ مسائل ہیں اور ہمیں توبہ کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ جو مرضی کرتے رہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کوئی کتنا ہی بڑا افسر نہ ہو، ملک میں سب سے بڑے عہدے پر ہی کیوں نہ ہو سب کے لیے طریقہ موجود ہے اگر ہم عمل نہ کریں اور ہر وقت غیر ضروری بحث کرتے رہیں تو یہی کچھ ہوتا رہے گا جو اب ہو رہا ہے۔
تبصرہ لکھیے