برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز میں سائمن کلارک کی رپورٹ نے بہت تہلکہ مچا رکھا ہے لیکن تحقیق۔ ہر تہلکہ آخر کو تھم جاتا ہے، بالخصوص اگر اس رخ کا پی ٹی آئی کے خلاف ہو۔ پاکستان کی تاریخ ہمیشہ تہلکہ شکن رہی ہے۔
کوئی بھی سکینڈل کتنا ہی بڑا ہو، کوئی نتیجہ برآمد کئے بغیر میڈیا کے شہر خموشاں میں دفن ہو جاتا ہے اور پھر لوگ بھی اسے بھول جاتے ہیں اور اتنا زیادہ بھول جاتے ہیں کہ بعدازاں کسی موقع پر اچانک کسی کو یاد آ جائے تو وہ دوسرے سے پوچھتا ہے کہ اوے، وہ یاد ہے، وہ والا سکینڈل، اس میں کیا تھا اور دوسرا اسے بتاتا ہے کہ ہاں یاد تو ہے لیکن اس میں کیا تھا، ٹھیک سے یاد نہیں آ رہا۔ کچھ تھا ضرور۔ صرف ایک سکینڈل نے نتیجہ برآمد کیا اور بہت ہی دھماکہ خیز جس نے پاکستان کی تقدیر بدل دی۔ آج کل ہم اسی تبدیل شدہ تقدیر کے زرّیں دور سے گزر رہے ہیں۔ یہ تھا پانامہ سکینڈل جس میں لگ بھگ ساڑھے چارسو نام تھے۔
نواز شریف کا اس میں نام نہیں تھا لیکن اس سکینڈل نے اتنا تہلکہ مچایا کہ نواز شریف کی حکومت اورسیاست چھین کر ہی ٹلا۔ باقی ساڑھے چار سو ناموں میں سے کوئی نام کسی ادارے کو یاد ہے نہ اخبار کو۔ یہاں تک کہ کسی کو یہ بھی یاد نہیں کہ ساڑھے چارسو نام تھے۔ پانامہ سکینڈل کے دس والیم بنے، کسی سے کچھ خاص مال مواد برآمد نہیں ہو سکا، سوائے اس کے کہ نواز شریف نے اپنے بیٹے کی فرم سے تنخواہ نہیں لی تھی۔ چند سو درہم کی تنخواہ نواز شریف لے کر کیا کرتے، نہیں لی اور یہی نہ لینا پاکستان کی تاریخ کا سنگین ترین جرم بن گیا۔ نواز شریف کو اس کی سزا ملی اور سزا بھی تاحیات لیکن ان سے زیادہ سزا پاکستان کو ملی۔ خدا کرے یہ بھی تاحیات سزا ثابت نہ ہو۔
قصّہ مختصر، فنانشل ٹائمز کا تہلکہ بھی چند روز میڈیا پر رہے گا، پھر نئے بحران، نئے طوفان اس کی جگہ لے لیں گے ، عمران خان بدستور صادق و امین رہیں گے، ان کی مخالفت بدستور شرک رہے گی، وہ بدستور ریاست مدینہ بنانے کا اعلان کرتے رہیں گے، ان کی حمایت کرنا بدستور جہاد قرار پاتا رہے گا۔ کچھ تبدیل ہو گا تو محض اس حد تک کہ میر جعفروں میر صادقوں کا نام تقریروں میں آنا کم ہو جائے گا یا ختم ہو جائے گا یا کبھی بقدر ضرورت پھر آنا شروع ہو جائے گا۔ اللہ اللہ خیر سلاّ
فنانشل ٹائمز کی اس رپورٹ میں ہے کہ ایک پاکستانی ٹائیکون عارف نقوی لندن میں کیف و طرب کے میلے ٹھیلے سجاتے رہے جن میں آب رنگین و کیف آور کی پھوار بھی برستی تھی اور ان میلوں کی کمائی وہ پی ٹی آئی کو بھجواتے رہے۔ یہ ترسیل عرف عام میں فارن فنڈنگ کہلائی جس کا کیس پہلے ہی سات سال الیکشن کمشن چلتا رہا اور آخر اس کا فیصلہ سیاسی لوح محفوظ میں محفوظ کر دیا گیا۔ فنانشل ٹائمز کی رپورٹ نے فارن فنڈنگ والا معاملہ مزید سنگین بنا دیا ہے اور لوگ باگ کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کمشنر پر دبائو بڑھے گا کہ وہ محفوظ فیصلہ سنا دیں۔ مجھے اس خیال سے اتفاق نہیں ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ الیکشن کمشن کے اعصاب بہت مضبوط ہیں، وہ یہ اضافی دبائو برداشت کر لیں گے اور محفوظ شے کو غیر محفوظ بنانے یعنی فیصلہ سنانے سے گریز کے اپنے فیصلے پر قائم رہیں گے۔
ادھر ایک نامور تجزیہ نگار اینکر پرسن نے انکشاف کیا ہے کہ فیصلہ نہ سنانے کے لیے بھی دبائو ہے کہ پھر حالات خراب ہو جائیں گے۔رپورٹ میں بہت سی باتیں فنڈنگ کے حوالے سے ہیں اور اس سے ہٹ کر سوشل میڈیا پر عارف نقوی کی زیر ملکیت کے ۔ ای کا معاملہ بھی زیر بحث آ رہا ہے۔ عارف نقوی کے اسی مد میں 87 ارب روپے واجب الادا تھے جو خان صاحب نے حکومت میں آ کر معاف کر دئیے اور اس کی وجہ سے سوئی سدرن کا بیڑا تہہ آب چلا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ 87 ارب روپے کی یہ معافی انہی میلوں ٹھیلوں والی خدمات کا حقیر معاوضہ تھا۔ پی ٹی آئی اپنی فراخدلی میں ثانی نہیں رکھتی۔
ایک ٹائیکون کی برطانیہ میں چالیس ارب کی ناجائز کمائی برطانوی حکومت نے ضبط کر کے حکومت پاکستان کو لوٹا دی، حکومت نے فراخدلی کی روایت کو نبھاتے ہوئے یہ چالیس ارب ٹائیکون کو واپس کر دئیے، حق بحقدار رسید۔ برطانیہ کی کافر عدالتیں کیا جانیں کہ حق کیا ہوتا ہے اور حقدار کے حقوق کیا ہوا کرتے ہیں۔ رپورٹ میں بہت سی باتیں غضب کی سنسنی رکھتی ہیں۔ کچھ تو پرانی ہیں اور کچھ بالکل نئی اور ان نئی باتوں میں خاص طور سے قابل ذکر یہ ہے کہ خلیج کے ایک دوست ملک نے بھی اربوں روپے پی ٹی آئی کو محض اس ’’خدمت‘‘ کے لیے دئیے کہ وہ سی پیک کے منصوبے پر کام رکوا دے۔ ہو سکتا ہے یہ رپورٹ جھوٹ ہو لیکن یہ تو جھوٹ نہیں کہ ساڑھے تین سالہ حکومت کے دوران سی پیک پر کام نہ صرف رکا رہا بلکہ کچھ حوالوں سے سبوتاژ بھی ہوا۔
ہمارے بعض دوست ملکوں کو گوادر پورٹ پسند نہیں اور ساڑھے تین سال کے عرصے میں گوادر پورٹ بھی ’’منجمد‘‘ رہی۔ ساحل کے ساتھ ساتھ سمندر کی ایک طرح سے ’’بھل صفائی‘‘ لازم ہوا کرتی ہے تاکہ جہاز آ جا سکیں۔ تاریخ میں پہلی بار ساڑھے تین سال بھل صفائی روکے رکھی گئی، بڑے کیا چھوٹے جہازوں کا آنا بھی مشکل ہو گیا۔ ہو سکتا ہے، یہ محض اتفاق ہو۔ سی پیک رکنے سے جتنا نقصان چین کا ہوا، اس سے زیادہ پاکستان کا ہوا۔ کیا کیجیے، قومی مفاد کے تحت یہ نقصان بھی برداشت کرنا پڑا اور محض سی پیک ہی نہیں رکا، پاکستان اور افغانستان کے درمیان ریلوے لائنیں بچھانے کے منصوبے بھی غتربود ہو گئے، افغانستان کے راستے وسط ایشیا کی ریاستوں سے رابطے اور ان رابطوں کے ذریعے خوشحالی اورخودکفالت کے خواب بھی بکھر کر خواب ہائے پریشاں میں بدل گئے۔
عارف نقوی نے امریکی سرمایہ کار بل گیٹس سے سو ملین ڈالر کا فراڈ کیا۔ یعنی اتنی رقم اس سے ہتھیا لی۔ اخبار نے اس کو بھی نمایاں شہ سرخی کے ساتھ شائع کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے فواد چودھری نے عارف نقوی کی کیا خوب صفائی دی ہے۔ کہا ہے کہ کوئی پاکستانی مسلمان ’’ارب پتی‘‘ بن جائے تو دشمنوں کو یہ بات پسند نہیں آتی۔ عارف نقوی پاکستانی بھی ہے اور مسلمان بھی، ایک غیر ملکی کافر سے سو ملین لوٹ کر ارب پتی بن گیا تو کیا گناہ کیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ قیمتی اور برحق نکتہ امریکی عدالتوں کو کیسے اور کون سمجھائے۔ بہرحال، پاکستان میں پی ٹی آئی کو اس رپورٹ سے پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں۔ ان کے صادق و امین قائد کو ذرا سی گزند پہنچنے کا ذرا سا بھی امکان ہے نہ خدشہ۔ اللہ اللہ خیر سلّا
تبصرہ لکھیے