بھارت کو جواہر لال نہرو اورموہن داس کرم چند گاندھی نے ایک سیکیولر ریاست کے طور پر پروان چڑھایا تھا۔ بھارت کو ایک ایسا دیس قرار دیا گیا جہاں تمام نظریات اور عقائد کے حامل لوگوں کو آزادی سے جینے کی آزادی ہو گی۔ بھارتی ترنگا پرچم ، مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کی علامت قرار دیا جاتاہے ، جس میں زعفرانی رنگ ہندو مت ، سبز رنگ اسلام اور سفید رنگ دیگر تمام اقلیتوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ جبکہ پرچم کے عین درمیان میں اشوک چکر ، بدھ مت اور قانون کی اٹل حکمرانی کا نشان ہے۔
بظاہر دیکھا جائے تو یہ سب عناصر اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بھارت ایک روشن خیال ، جمہوری ملک ہے۔ کاغذات پر تو یہی لکھا ہے۔ مگر کیا حقیقت بھی یہی ہے؟
بھارت کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کا سب سے بڑا سیکیولر جمہوری ملک ہے، جہاں تمام مذاہب کو آزادی حاصل ہے۔ مگر زمینی حقائق کسی طور بھی اس دعوے کا ساتھ نہیں دیتے۔
بھارت وہ ملک ہے جہاں آئے روز مسلمانوں کو یہ الزام لگا کر قتل کر دیا جاتا ہے ، کہ انہوں نے گئو کشی ،یعنی گائے کی قربانی کی ہے۔ ہزار ہا مسلمانوں کو شیو سینا ، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ ، وشوا ہندو پریشد ، اور موجودہ بھارتی حکمران جماعت، بھارتی جنتا پارٹی نے پچھلے پندرہ بیس برس میں ہی قتل کیا ہے۔ گجرات ، کشمیر سمیت بھارت کی تقریباً تمام ریاستوں میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی ہے۔
بھارتی ریاست مسلمانوں کو ایک مہذب شہری کا حق دینے کو تیار نہیں ، جبکہ مسلمان تو بھارت میں بیس کروڑ سے زائد ہیں۔ اتنی بڑی حقیقت کو جھٹلانے والی بھارتی ریاست ، دیگر ، تعداد میں کم اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہو گی؟
بھارت ، جہاں ہندوؤں ، (بلکہ اونچی ذات کے ہندوؤں) کے علاوہ کسی کو جینے کا حق حاصل نہیں وہاں رہنے والی ان اقلیتوں کی حالتِ زار کیا ہو گی؟
مگر مودی سرکار یعنی بھارتی جنتا پارٹی ، جو بذاتِ خود ایک انتہا پسند دہشت گرد تنظیم کے حوالے سے خاصی شہرت رکھتی ہے، اس کے عزائم سب سے ہٹ کر ہیں ۔ بابری مسجد کی شہادت سے اب تک ، کتنی ہی عبادت گاہوں اور مذہبی مقامات کے تقدس کو پامال کیا گیا۔ورانسی (سابقہ بنارس) کی گیان واپی مسجد پر بد ترین پروپیگنڈا کیا گیا ، یہاں تک کہ بالآخر اس کو مسلمانوں سے چھین لیا گیا۔
اور حال ہی میں ، مختلف مقامات پر عید گاہوں اور نماز کے لیے مخصوص میدانوں پر بھی تنازعات کھڑے کیے جا رہے ہیں ۔کرناٹکا میں ایک 9 کنال کا میدان ، جو ریاست کی جانب سے 1920 میں انجمن حمایت اسلام کو نماز کے لیے دیا گیا تھا، اس کو بھارتی حکومت اور انتہا پسند ہندو ، تنازع کی جگہ قرار دے رہے ہیں ، جبکہ واضح طور پر یہ مسلمانوں کی جگہ ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اسے ایک عام عوامی میدان بنا دیا جائے جہاں بھارتی پرچم لہرانے کی رسم ادا کی جائے۔ مسلمانوں کو پرچم لہرانے سے کوئی مسئلہ نہیں، مگر ریاستی وسائل اور طاقت کا بے جا استعمال کر کے مسلمانوں سے نماز ادا کرنے کی جگہ چھیننا کہاں کا انصاف ہے۔ بنگلور کی عید گاہ کا بھی یہی معاملہ ہے، جہاں ریاست نت نئے قضیے کھڑے کر کے مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔
بنیادی طور پر بھارتی حکومت کو مسئلہ صرف مسلمانوں اور مسلمانوں کے تصورِ امت سے ہے۔
اس حوالے سے افتخار گیلانی کا لکھا یاد رکھیے ، کہ بھارت کے حاضر سروس بریگیڈیئر نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ
"بھارتی مسلمان بھارت ہی میں مکہ یا کعبہ کا کوئی ماڈل تیار کر کے اس کا طواف کریں یا ہر سال سعودی عرب جانے کے بجائے اجمیر کی درگاہ میں جاکر اپنی عبادت کرلیں ،کیونکہ مسلمانوں کا تصورِ اُمّت ہی مسئلہ کشمیر کی جڑ ہے۔"
مسلمانوں کے تصورِ امت سے ہراساں بھارتی انتہا پسند ہندو فاشسٹ حکومت ، اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے کس حد تک جائے گی، یہ سوچنا ہم سب اہلِ دل پہ لازم ہے۔ اور دنیا جان لے کہ بھارت ، سیکیولر جمہوریہ کے پردے تلے ایک نازی دیس ہے، جہاں ریاست کے عقائد پر ایمان نہ لانے والے جینے کے حقدار نہیں سمجھے جاتے۔
ماضی کے نازی ہٹلر کو صبح و شام کوستا ہوا مغرب ، آج کے نازی مودی کے خلاف کب اقدامات کرے گا؟
تبصرہ لکھیے