ہوم << قلم برداشت ادب - مشفق خواجہ

قلم برداشت ادب - مشفق خواجہ

Mushfiq-p1 ڈاکٹر سلیم اختر ہمارے دیرینہ کرم فرما ہیں۔ وہ نہ صرف اپنی کتابیں عنایت فرماتے رہتے ہیں بلکہ گاہ گاہ دوسروں کی تصانیف بھیج کر بھی ہماری ادبی و علمی تربیت کا فریضہ انجام دیتے رہتے ہیں۔ ہمارے علم کا ۹۵ فیصد حصہ ڈاکٹر صاحب ہی کی عطا کردہ کتابوں کا مرہون منت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باقی ۵ فیصد حصہ بھی ہمارے کام نہیں آیا۔ افسوس کہ ڈاکٹر صاحب اپنی تصانیف خود نہیں پڑھتے ، ورنہ آج وہ جس بلند مقام پر جلوہ گر ہیں ، اس سے کہیں بلند مقام پر فائز نظر آتے۔ ڈاکٹر صاحب اپنی تصنیف کردہ کتابیں شاید اسی وجہ سے نہیں پڑھتے جس وجہ سے ایک ہوٹل کا مالک اپنے ہوٹل کا کھانا نہیں کھاتا تھا ، ہمیشہ گھر سے منگواتا تھا۔ جب اس سے اس کا سبب پوچھا گیا تو اس نے بتایا '' اگر اپنے ہوٹل کا کھانا کھا کر مجھے کچھ ہوگیا تو گاہکوں کی خدمت کون کرے گا۔''
ڈاکٹر صاحب نے ہمارے ادبی ذوق کے لیے ایک دلچسپ کتاب عنایت کی ہے۔ اس کا نام ہے ''دلچسپ ملاقاتیں'' اور اس کے مرتب ہیں تنویر ظہور۔ اس میں چار درجن کے قریب ادیبوں کے انٹرویو ہیں۔ ان ادیبوں میں نصف تو وہ ہیں جن کے ادیب ہونے کی اطلاع اسی کتاب سے ملتی ہے اور یہ بیچارے بات کرنے سے بھی معذور نظر آتے ہیں۔ باقی نصف ہمارے عہد کے ممتاز اہل قلم ہیں جو بات کرنے اور بات بنانے ہی میں نہیں ، باتیں بھگارنے کے فن میں بھی طاق ہیں۔
اس مجموعے کا سب سے اچھا انٹرویو ڈاکٹر سلیم اختر کا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ زیر نظر کتاب انھی کی عنایت سے ہمیں ملی ہے اور اس کا شکریہ ادا کرنے کا مناسب ترین طریقہ یہی ہے کہ ان کے انٹرویو کو سب سے اچھا قرار دیا جائے۔ انٹرویو کے اچھا ہونے کی دوسری وجہ بھی کوئی ضرور ہوگی جو اس وقت یاد نہیں آرہی۔ اگر یاد آگئی تو آگے چل کر عرض کر دیں گے، ورنہ ڈاکٹر صاحب کو بذریعہ خط مطلع کر دیں گے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر صاحب سے ہمیں خط و کتابت کا شرف بھی حاصل ہے۔ ہمارے نام ان کے اتنے خط ہیں کہ اگر انھیں مرتب کر کے کتابی صورت میں چھپوا دیا جائے تو ڈاکٹر صاحب کی تصانیف کی تعداد اکاون ہوجائے۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ کتاب باقی پچاس کتابوں سے زیادہ مقبول ہوگی کیونکہ یہ ایسی تحریروں پر مشتمل ہوگی جو قلم برداشتہ لکھی گئی ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ایک واقعہ بیان کرناضروری ہے۔ پطرس سے کسی نے پوچھا ، اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ نے ہزار صفحات لکھے ہیں لیکن مقبولیت صرف ''پطرس کے مضامین'' کو حاصل ہوئی جب کہ یہ مختصر سی کتاب آپ کی جملہ تحریروں کے بیسویں حصے کے برابر بھی نہیں ہے۔ پطرس نے جواب دیا، میں نے اپنی تمام تحریروں پر بڑی محنت کی ہے مگر ''پطرس کے مضامین'' میں وہ تحریریں شامل ہیں جو میں نے بغیر محنت کے قلم برداشتہ لکھی ہیں۔
1408412820_445 ڈاکٹر صاحب نے اپنے انٹرویو میں بہت سی کام کی باتیں بتائی ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ اپ نے کبھی شاعری بھی کی ہے۔ انھوں نے اعتراف کیا کہ ہاں جوانی کے دنوں میں ان سے یہ غلطی ہوئی تھی لیکن "جلد ہی مجھے احساس ہوگیا کہ میری طبیعت کو شاعری سے مناسبت نہیں ہے، اس لیے شاعری ترک کر دی۔ کاش شعراء کی اکثریت کو میری مانند وقت پر احساس ہوجاتا تو آج نقادوں کی الجھنوں میں خاصی کمی ہوجاتی۔"
ڈاکٹر صاحب نے بجا فرمایا کہ ان کے شاعری ترک کر دینے سے نقادوں کی الجھنوں میں کمی ہوگئی۔ لیکن یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ اس فیصلے کے نتیجے میں نقادوں کی تعداد میں ایک کا اضافہ ہوگیا۔ یہاں بھی ایک واقعہ بیان کیے بغیر بات واضح نہیں ہوسکتی۔ مشہور ناول نگار ایم اسلم ایک زمانے میں شاعری سے شوق فرماتے تھے۔ ایک دن وہ علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے، اپنا کلام سنایا اور شاعری کے سلسلے میں مشورے کے طالب ہوئے۔ علامہ نے فرمایا میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ شاعری ترک کر دیں کیونکہ یہ آپ کے بس کا روگ نہیں۔ اس کے بعد ایم اسلم نے ناول لکھنے شروع کر دیے۔ ایک روز انھوں نے دوستوں کی محفل میں بڑے فخر سے کہا کہ ، '' میں نے علامہ کے مشورے پر شاعری ترک کی تھی۔" اس پر ایک دوست نے ان لفظوں میں داد دی ، کاش نثر نگاری کے سلسلے میں بھی آپ ان سے مشورہ کر لیتے۔
اس واقعے کے بیان کرنے کے بعد یہ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو شاعری ترک کرنے کا خیال وقت پر آیا لیکن کسی قسم کا دوسرا خیال اتنا وقت گزر جانے کے بعد بھی نہیں آیا۔ اچھا ہی ہوا ورنہ اردو ادب پچاس بہترین کتابوں سے محروم رہ جاتا۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے بارے میں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ ، '' میں بچپن میں نہایت شرارتی لڑکا تھا۔ جب کالج پہنچا تو ایک لاابالی نوجوان بن چکا تھا. اس زمانے میں مجھے پڑھائی سے خاصی دلچسپی نہیں تھی. سکول میں میری شرارتیں رنگ لاتی رہتیں اور وقتا فوقتا ان شرارتوں کی بنا پر سزا پاتا رہتا."
ڈاکٹر صاحب کو بچپن میں پڑھائی سے دلچسپی نہیں تھی۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ بچپن ہی سے ان میں نقاد بننےکی صلاحیت موجود تھی۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات ، ایسے ہی موقعوں پر کہا جاتا ہے۔ شرارتی تو خیر ڈاکٹر صاحب اب بھی ہیں جس کا اندازہ انٹرویو سے بخوبی ہوجاتا ہے۔ دبستان سرگودھا کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وہ فرماتے ہیں ، "سرگودھا اسکول کی خدمات یقینا ہیں لیکن وہ ادب کے لیے نہیں بلکہ اس اسکول کے طالب علموں کے لیے۔" واضح رہے کہ ایک زمانے میں ڈاکٹر صاحب خود سرگودھا اسکول سے منسلک تھے، اب وہ فارغ التحصیل ہو چکے ہیں، تاہم انھیں وہ خدمات یاد ہیں جو اسکول نے اپنے طالب علموں کے لیے انجام دیں۔
ڈاکٹر سلیم اختر کے انٹرویو کے بعد دوسرا اہم انٹرویو ممتاز شاعر قتیل شفائی کا ہے۔ انھوں نے تفصیل سے بتایا کہ ان کی عملی زندگی کا آغاز تجارت سے ہوا۔ پہلے انھوں نے کھیلوں کے سامان کی دکان کھولی لیکن مال نایاب ہونے کے باوجود گاہک بےخبر رہے۔ پھر کپڑے کی دکان میں طالع آزمائی کی لیکن مندی کا رجحان ایسا تھا کہ کسی عاشق نے بھی گریبان کا چارہ گر کپڑا خریدنے کی زحمت نہ کی۔ مجبوراً اس دکان کو بھی بڑھانا پڑا۔ اس کے بعد ایک عزیز کو منافع کی توقع پر کچھ رقم دی، منافع تو کیا ملتا اصل رقم بھی ڈوب گئی۔ ان حالات سے دل برداشتہ ہو کر انھوں نے شاعری شروع کر دی۔ خدا نے اس کاروبار میں اتنی ترقی دی کہ آج قتیل صاحب کا شمار بڑے شاعروں میں ہوتا ہے۔ اگر خدانخواستہ کپڑے کی دکان چل نکلتی تو آج قتیل شفائی بہت بڑے تاجر ہوتے لیکن اردو ادب ایک طرح دار شاعر سے محروم رہ جاتا۔
1 مرتب کتاب نے جناب قتیل شفائی سے بعض گستاخانہ قسم کے سوال بھی کیے ہیں جو کم از کم ہمیں پسند نہیں آئے۔ قتیل شفائی کی ہمت قابل داد ہے کہ انہوں نے بڑے تحمل سے یہ سوالات سنے اور نہایت تحمل سے ان کے جوابات دیے۔ ایک سوال یہ تھا کہ آپ تو ترقی پسند ہیں، پھر آپ نے ضیاء الحق کو اپنی کتابیں کیوں بھیجیں؟ قتیل صاحب کا جواب یہ تھا ، "مجھ پر لعنت اگر میں نے ضیاء الحق کو کتاب بھیجی ہو۔ ایک مرتبہ ضیاء الحق نے غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اہل قلم کانفرنس میں ضیاء الحق نے مجھے دیکھ کر کہا، قتیل صاحب آپ کی کتابیں مجھے مل گئی ہیں۔ میں نے ان کی رسید آپ کو بھیج دی ہے۔ اب میں کیا کہتا۔ سب میں جھٹلا بھی نہیں سکتا تھا۔"
ضیاء الحق کی زندگی میں نہ سہی، اب سہی، قتیل صاحب نے بہرحال مرحوم کو جھٹلا کر اپنا فرض ادا کر دیا ہے، لیکن یہ بات پھر بھی سمجھ نہیں آئی کہ جو اہل قلم کی کانفرنس ضیاء الحق کی ایما پر منعقد ہوئی تھی، اس میں قتیل صاحب جیسے مستند ترقی پسند نے شرکت کیوں کی؟ یہ مسئلہ جب ہم نے استاد لاغر مراد آبادی کے سامنے رکھا تو انھوں نے فرمایا ، "غیر ترقی پسندوں کی اہل قلم کانفرنس کے مقاصد سے قتیل صاحب کو کوئی دلچسپی نہیں تھی، وہ تو وہاں اپنی کتابوں کی رسید لینے گئے تھے۔"
ایک سوال یہ بھی کیا گیا کہ گزشتہ دور حکومت میں کیا آپ کو بھی پلاٹ ملا تھا۔ قتیل صاحب نے فرمایا ۔ '' سب کو ملے ہیں جی۔ میں نے ایک لیا جو میرا حق تھا۔ اوروں نے تو دو دو تین تین حاصل کیے اور کئی دوسری ناجائز مراعات بھی۔'' لاہور کے ادیب خوش قسمت ہیں کہ ہر حکومت انھیں پلاٹ دیتی ہے، کراچی والوں کو تو کوئی پوچھتا ہی نہیں، زمین کا پلاٹ تو کیا، حکومت نے کراچی کے کسی ادیب کو ناول یا افسانے کا پلاٹ بھی نہیں دیا۔
اردو ادب کے مشہور دبستان جن کے سربراہ جناب احمد ندیم قاسمی اور ڈاکٹر وزیر آغا ہیں۔ اس کتاب کا خاص الخاص موضوع ہیں۔ کتاب کے مرتب نے تقریباً ہر ادیب سے ان دبستانوں کے بارے میں سوال کیا ہے۔ بعض نے بہت دلچسپ جواب دیے ہیں لیکن ہم انھیں نقل کرنے کی جسارت نہیں کر سکتے کیونکہ ان میں کسی ایک دبستان کی طرف جھکاؤ پایا جاتا ہے۔ ہماری طرح دونوں کی طرف جھکاؤ نہیں ہے۔ اس کتاب سے پہلی مرتبہ معلوم ہوتا ہے کہ جھگڑے کا آغاز کس طرح ہوا۔ قاسمی صاحب اور آغا صاحب نے اپنے اپنے بیانات میں ایک دوسرے سے مختلف اور متضاد وجوہات بیان کی ہیں۔ ہمارا یہ منصب نہیں کہ ہم یہ دیکھیں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط؟ کیوں کہ ہمارے لیے دونوں ہی قابل احترام ہیں اور احترام کا تقاضا ہے کہ دونوں کو صحیح سمجھا جائے۔
از
مزید خامہ بگوشیاں
مرتبین:
ڈاکٹر انور سدید
خواجہ عبد الرحمن طارق

Comments

Click here to post a comment