ہوم << پنجاب میں اقتدار کی جنگ- ظہور دھریجہ

پنجاب میں اقتدار کی جنگ- ظہور دھریجہ

پنجاب اسمبلی میں جو کچھ ہوا ، اس بارے آئین کیا کہتا ہے؟ ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری وزارت اعلیٰ کے انتخاب کا جب نتیجہ سنا رہے تھے تو ق لیگ کے راجہ بشارت نے کہا کہ آئین کہتا ہے کہ یہ اختیار پارلیمانی پارٹی کا ہے کہ ووٹ کس کو دینا ہے، ہماری جماعت کی پارلیمانی پارٹی نے فیصلہ چوہدری پرویز الٰہی کے حق میں دیا ہے۔

دوسری طرف معروف قانون دان اور پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ درست نہیں ، وزارت اعلیٰ کا انتخاب چوہدری پرویز الٰہی جیت چکے ہیں۔ معروف ماہر قانون علی ظفر کا بھی وہی موقف ہے جو اعتزاز احسن کا ہے جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف نے چوہدری شجاعت کے کردار کو تاریخی قرار دیا ہے، مریم نواز کا کہنا ہے کہ عمران خان نے چوہدری خاندان میں پھوٹ ڈلوائی جبکہ دوسری طرف یہی الزام طارق چیمہ اور آصف زرداری پر عائد کیا گیا ہے ۔ سارے معاملے میں آئین کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آرٹیکل 63 اے کا پہلا حصہ پارلیمانی پارٹی اور دوسرا حصہ پارٹی سربراہ کے اختیار کا ہے، بہرحال یہ حقیقت ہے کہ درست فیصلہ پارلیمانی پارٹی کر سکتی ہے۔

چوہدری شجاعت کے خط نے سارے منظر نامے کو تبدیل کر دیا، عجب بات یہ ہے کہ وزارت اعلیٰ کے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی کا اپنا ووٹ بھی ان کے کام نہ آ سکا۔ سوال یہ ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی اور ق لیگ کے دیگر ارکان ووٹ دینے کے اہل نہ تھے اور ان کے ووٹ مسترد ہونے کے قابل تھے تو ان کو پولنگ میں حصہ کیوں لینے دیا گیا؟، پولنگ سے پہلے ان کو آگاہ کیوں نہ کیا گیا؟۔ یہ باتیں اور سوالات مسئلے کو حل کرنے کی بجائے مزید پیچیدہ بناتے نظر آتے ہیں، اس بات پر بھی لے دے ہو رہی ہے کہ اجلاس 4 بجے شروع ہونا تھا تین گھنٹے تاخیر سے کیوں شروع کیا گیا؟۔ وزارت اعلیٰ کے انتخاب کے بعد سوشل میڈیا پر بھی تنقید کی جا رہی ہے ، ایک صارف نے لکھا کہ پی ٹی آئی وسیب سے صوبے کا وعدہ پورا نہ کرنیکی بنا پر ناکام رہی۔ چودھری شجاعت کے حوالے سے بھی کچھ سخت اور کچھ دلچسپ جملوں کا استعمال ہو رہا ہے ، عیسیٰ خیل سے ہمارے سیاسی دوست اقبال مانک کا کہنا تھا کہ صوبہ نہ بنا کر پی ٹٰ آئی نے بہت غلطی کی، صوبہ بنا دیا ہوتا تو پنجاب میں نہ سہی کم از کم وسیب میں تو ان کی حکومت ہوتی۔

میں یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سب سے بڑے صوبے پنجاب کا سیاسی بحران شدید سے شدید تر جو ہوا سو ہوا مگر چوہدری خاندان اور ق لیگ میں جو دراڑیں پڑی ہیں ان کا شاید مداوا نہ ہو سکے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ق لیگ کے ارکان صوبائی اسمبلی کا کیا مستقبل ہوگا؟، سپریم کورٹ کی کیا رولنگ آتی ہے، الیکشن کمیشن کیا فیصلہ دیتا ہے؟ اگر ان ارکان کا شمار منحرفین میں ہوتا ہے تو ضمنی الیکشن میں یہ کس جماعت کے امیدوار ہوں گے ؟۔ سیاسی عدم استحکام کے باعث معیشت پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں، ڈالر آسمان پر چلا گیا ہے، مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے، غریب پس کر رہ گیا ہے،کیا حکمران اور سیاستدان غریب کا کچھ خیال کریں گے؟۔ زین قریشی کا ووٹ سب سے پہلے شمار کرایا گیا کہ آئین میں لکھا ہے کہ اگر کوئی رکن ایک اسمبلی کا رکن ہونے کے بعد دوسری اسمبلی میں حلف اٹھاتا ہے تو وہ پہلے والی اسمبلی سے خود بخود ڈی سیٹ ہو جاتا ہے.

زین قریشی اب قومی اسمبلی کے ممبر نہیں رہے، دیکھنا یہ ہے کہ ضمنی الیکشن کب ہوتا ہے اور کون حصہ لیتا ہے کہ تحریک انصاف کے ارکان نے سپیکر قومی اسمبلی کو استعفے بھیج رکھے ہیں۔ پنجاب کے موجودہ الیکشن سے ملک میں بڑا سیاسی بحران پیدا ہو چکا ہے، بحران کی ایک وجہ پنجاب کا بڑا حجم بھی ہے، وزارت عظمیٰ سے بڑھ کر پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی لڑائیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی کہتے ہیں کہ ظلم دیکھو کہ میرا ڈپٹی سپیکر مجھے کہتا ہے کہ آپ خود کو اور آپ کی پارٹی آپ کو ووٹ نہیں دے سکتی ، سرائیکستان صوبہ محاذ کے کرنل (ر) عبدالجبار عباسی و دیگر نے اپنے بیان میں کہا کہ پنجاب کے سیاسی بحران اور آئے روز کی سیاسی کشمکش کا واحد حل سرائیکی صوبہ کا قیام ہے .

اس سے وفاق متوازن ہوگا اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے نام پر جھگڑے بھی ختم ہو جائیں گے کہ پنجاب بہت حد تک بیلنس ہو جائے گا۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ چوہدری شجاعت حسین نے ملک کو فساد سے محفوظ کر دیا، حالانکہ فساد بڑھنے کا خدشہ ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ آخری دن تک چوہدری شجاعت حسین کہتے رہے کہ وزارت اعلیٰ کیلئے ہماری جماعت ق لیگ کا امیدار چوہدری پرویز الٰہی ہے ، عین وقت پر یوٹرن کیوں لیا گیا پارٹی ورکرز کی آرا مختلف ہیں ۔ق لیگ کے کارکنوں نے طارق چیمہ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نعرے بھی لگائے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ طارق چیمہ کے پینل سے بہاولپور کے حلقہ پی پی 249سے احسان الحق اور پی پی 250 سے محمد افضل نے بھی طارق چیمہ کی بجائے پرویز الٰہی کا ساتھ دیا اور ان کے حق میں ووٹ کاسٹ کیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کرسی اقتدار کی بجائے ملک و قوم کی بہتری کیلئے فیصلے کئے جائیں اور سیاسی بحران ختم کر کے قوم کو ذہنی اذیت سے نجات دلائی جائے ۔

Comments

Click here to post a comment