عدم اعتماد کی تحریک کو ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی نے (جو اب سابق ہو چکے) جس ’سازش‘ کا بہانہ بنا کر مسترد کیا تھا، سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں اسے مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ایسی کسی سازش کا کوئی واضح ثبوت ہے نہ دلیل۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بغیر ثبوت کے غیر پارلیمانی اقدامات کیے گئے۔ ان کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ ڈپٹی سپیکر کا اقدام متعصب اور بدنیتی پر مبنی ہے۔ پی ٹی آئی کے لیے یہ کچھ ’ڈرائونا‘ فیصلہ نہیں؟ عمران خان نے تو اپنی حکومت کے آخری دنوں سے ہی اس ’سازش‘ کو اپنی سیاست کا محور بنا رکھا ہے، ان کی ساری سیاست اسی سازش کے گرد گھوم رہی ہے جسے سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے نے غتربود کر دیا ہے۔
غتربود تو خیر قومی سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس نے بھی کر دیا تھا اور آئی ایس پی آر کی بریفنگ نے بھی، لیکن عمران خان ٹھہرے ایسے ثابت قدم کہ ایک بار کہہ دیا کہ سازش ہے تو بس کہہ دیا اور ابھی تک اسی پر جمے ہوئے ہیں اور اس بات کی پروا بھی نہیں کر رہے کہ سازش بیانیے کے تارپود ہی نہیں، ان کی سیاست اور ساکھ بھی اکھڑتی جا رہی ہے۔ دیکھیں بات یہ ہے کہ خود ان کی جماعت کے ایسے رہنمائوں کی تعداد بھی کم ہوتی جا رہی ہے جو اس سازش بیانیہ کی تائید کریں۔ خدا نہ کرے، خان صاحب اکیلے ہی رہ جائیں۔
حکومت کے پاس سازش بیانیہ کی نفی میں بہت سی دلیلیں ہیں لیکن اس نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ یعنی خان صاحب کو رسید تک نہیں دے رہی۔ اس رسید کے نہ ملنے سے خان صاحب کا غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اسے رسید نہ ملنے کا احساس محرومی بھی کہا جا سکتا ہے۔ احساس محرومی بڑی خطرے کی شے ہے، اس کا شکار خود کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتا اور یہ تو ہم دیکھ بھی رہے ہیں۔ اس سازش کا محور خان صاحب کے نزدیک وہ ’نیوٹرل‘ ہیں جنھیں خان صاحب مسلسل میر جعفر اور میر قاسم کا خطاب دیے چلے جا رہے ہیں اور مزے کی بات یہ بھی ہے کہ نیوٹرل حضرات بھی حکومت کی طرح کوئی جواب نہیں دے رہے۔ یعنی رسید دینے سے وہ بھی انکاری ہیں۔ یوں دو دو رسیدیں نہ ملنے سے خان صاحب کا احساس محرومی دوچند ہو گیا ہے۔
بیچ میں ایک وقفہ ضرور آیا تھا۔ خان صاحب نے میر جعفر اور میر صادق کا خطاب کچھ دنوں کے لیے معطل کر دیا تھا بلکہ ایک موقع پر تو یہ وضاحت بھی کی کہ میر جعفر تو شہبازشریف کو کہا تھا۔ میر صادق کسے کہا تھا، یہ وضاحت انھوں نے نہیں کی لیکن ظاہر ہے کہ یہ انھوں نے آصف زرداری کے لیے ہی کہا ہوگا۔ یعنی میر جعفر شہبازشریف اور میر صادق آصف زرداری۔ لیکن یہ معطلی کچھ دن سے ختم ہو چکی ہے۔ دونوں خطابات اپنے حقیقی روئے سخن کی طرف بحال ہو چکے ہیں اور خطاب رسائی کی شدت بھی بڑھ گئی ہے۔ خصوصاً جنوبی پنجاب میں انھوں نے جو جلسے کیے، ان میں یہ خطابات پہلو بدل بدل کر دیے اور بار بار دیے۔ پہلو بدلنے کی ایک وجہ شاید یہ اطلاع بھی ہے کہ ان شہروں میں مریم نواز کے جلسے خان صاحب کے جلسوں سے بڑے تھے، ان پر سبقت لے گئے تھے حالانکہ سنٹرل پنجاب کے مقابلے میں جنوبی پنجاب مسلم لیگ کی مقبولیت کے حوالے سے ہمیشہ ہی سے قدرے پیچھے رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ بیچ میں وقفہ کیوں آیا تھا؟ آگے چلیںگے دم لے کر والا معاملہ تو نہیں لگتا۔ اس سوال کے جواب کی کھوج میں کچھ مزیدار باتوں کا پتا چلا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ کچھ لوگ بیچ میں پڑے تھے کہ ہم صلح صفائی کرا دیں گے، معافی تلافی ہو جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ ان افراد میں ایک بہت بڑے ’مولانا‘ بھی شامل تھے جن کا سرکار دربار پر روحانی اثر و رسوخ خان صاحب کے اطمینان کا باعث تھا لیکن ہوا یہ کہ کئی دنوں تک جاری رہنے والے اس سلسلہ جنبانی کو کسی بھی قسم کی جنبش پیدا کرنے میں ناکامی ہوئی ۔ اور تو اور مولانا صاحب کا تانگہ بھی خالی آگیا۔ تانگہ خالی آنے کے بعد خان صاحب کا احساس محرومی پھر سے انگڑائی لے کر ایسا جاگا کہ اسپ تازی بن گیا لیکن ہر بارش کٹائو لاتی ہے۔ چنانچہ خان صاحب کے لہجے میں بھی یہ کٹائو آیا۔ دھمک لہجے کی ویسی ہی رہی، چمک کچھ ماند پڑ گئی۔
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں والے ماحول میں نیا پہلو روحانیات کا آگیا ہے۔ اب خان صاحب ہر جلسے میں یہ ’ابہام‘ سنا رہے ہیں کہ قیامت کے روز آپ سب سے (حاضرین جلسہ بھی، ٹی وی پر دیکھنے سننے والے باقی عوام بھی) پوچھ گچھ ہوگی کہ آپ نے امپورٹڈ حکومت کے خلاف جہاد کیوں نہیں کی۔ (خان صاحب مذہب ہی نہیں، لسانیات کے بھی مجدد ہیں، جہاد کو انھوں نے مؤنث بنا دیا ہے اور ان کے عقیدت مندوں نے تذکیر کی اس تانیث سازی کو قبول بھی کر لیا ہے۔ آ ج صبح ایک واقف کار کہہ رہے تھے کہ جہاد تو اب ہوکر ہی رہے گی۔) نیز یہ بھی پوچھا جائے گا کہ جب ایک شخص تمھیں غلامی سے بچانے کے لیے اور حقیقی آزادی دلانے کے لیے اٹھا تھا تو تم نے اس کا ساتھ کیوں نہیں دیا تھا۔
ہمارا خیال ہے، قیامت کے روز یہی سوال نہیں پوچھے جائیں گے بلکہ شاید یہ بھی پوچھا جائے گا، جو عمر تمھیں دی گئی تھی، اس میں کتنے دھرنوں میں شرکت کی اور اگر نہیں کی تو کیوں نہیں کی۔ نیز یہ بھی کہ 92 ء کا ورلڈکپ دیکھا تھا کہ نہیں؟ دینی معلومات میںگراں قدر اضافے کے ساتھ ساتھ خان صاحب یہ اطلاع بھی دے رہے ہیں کہ ملک سری لنکا بن جائے گا۔ انھوں نے فرمایا ہے کہ نیوٹرل خود فیصلہ کریں، مجھے اقتدار میں واپس لانا ہے یا ملک کو سری لنکا بنانا ہے۔
اقتدار میں ان کی واپسی کا سوال تو سوالنامے سے نکال ہی دیا گیا ہے۔ چنانچہ واحد آپشن یہی رہ گیا ہے کہ ملک سری لنکا بن جائے۔ لیکن اگر … بنا تو… ’روحانی اصطلاح‘ میں وعید کو بھی ’بشارت‘ کہہ دیا جاتا ہے۔ مثلاً کوئی بزرگ جلال میں آکر کسی سے کہہ دیں کہ تم برباد ہو جائو گے تو مرید اس ملفوظے کو یوں بیان کرتے ہیں کہ پیر صاحب نے حکمران کی بربادی کی بشارت دیدی ہے۔ راولپنڈی میں بشارتوں کا اجارہ قبلہ شیخ صاحب کے پاس ہے۔ دو تین مہینے پہلے وہ یہ بشارتیں ایک تواتر سے دیتے رہے ہیں کہ خونی انقلاب آنے والا ہے۔ یہ بشارت بھی دی کہ 25 اپریل کا لانگ مارچ خونی ہوگا۔ خون کے دریا بہیں گے۔ وہ بشارتیں تو ذرا بھی پوری نہ ہو سکیں۔
خون کے دریا تو دور کی بات، کسی کا قطرۂ خون تک نہ نکلا۔ ایک چھوٹا سا انقلاب ابھی ڈی چوک کے قریب پہنچا ہی تھا کہ رانا ثناء اللہ نے ’ہش‘ کرکے بھگا دیا۔ شیخ جی کی کوئی بشارت پوری نہیں ہوئی۔ چلیے، کوئی بات نہیں لیکن اگر ہمارے خان صاحب کی یہ سری لنکا بننے والی بشارت بھی پوری نہ ہوئی تو کیا ہوگا؟ کہیں احبابِ انصاف کے اس ایمان کی سلامتی خطرے میں نہ پڑ جائے جو وہ بقول خود، بزعم خود، صاحب امر بالمعروف پر رکھتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے