وسطِ ایشیا میں جو کچھ ہو رہا تھا، عباسی اس سے کہیں دُور تھے، لیکن وہ ہر پیشرفت سے اچھی طرح آگاہ ضرور تھے۔ انہیں پورا اندازہ تھا کہ اُن کے مقرر کیے گئے والیوں پر ہی اُن کا زور نہیں چل رہا۔ یہی وجہ ہے کہ مرکز میں موجود حلقے بھی انہیں اب کمزور سمجھ رہے ہیں۔ اس لیے عباسیوں نے ایک جوا کھیلنے کا فیصلہ کیا، ایسا جوا جس سے خود اُن کا اپنا وجود خطرے میں پڑ گیا۔ مامون الرشید کے بعد اقتدار معتصم باللہ کو ملا، جس کے دور میں ترک غلاموں پر انحصار بڑھایا گیا۔ معتصم کا اہم ترین مشیر اور جرنیل افشین بھی ترک تھا، جس کا تعلق سمرقند سے تھا۔ لیکن نہ معتصم اور نہ ہی بعد میں آنے والا متوکل وسطِ ایشیا کے اثر و رسوخ کو گھٹا پایا، بلکہ الٹا یہ ترک اُنہی کے گلے پڑ گئے۔ 861ء میں ایک ترک غلام نے متوکل کو ہی قتل کر ڈالا۔ یوں فیصلہ ہو گیا کہ اب عباسی خاندان عالمِ اسلام کے سیاہ و سفید کا مالک نہیں۔
اِس صورت حال کا پہلا اثر وسطِ ایشیا ہی میں نظر آیا، یہی وہ علاقہ تھا جہاں سے سب سے پہلے ایک آزاد حکومت کا علَم بلند ہوا۔ طاہری خاندان بلاشبہ خود مختار تھا، لیکن وہ آخر تک عباسیوں کا وفادار رہا۔ اپنی تمام تر خواہش اور طاقت کے باوجود اس نے کبھی خود مختاری کا اعلان نہیں کیا۔ لیکن 873ء میں خطے کی ابھرتی ہوئی ایک نئی طاقت کے ہاتھوں طاہری حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ اس قوت کو تاریخ میں صفاری خاندان کہا جاتا ہے۔
تانبے کے برتن بنانے والا ڈاکو
صفاری کا مطلب ہے تانبے کے برتن بنانے والا۔ دراصل اِس حکومت کا بانی یعقوب بن لیث مس گر یعنی تانبے کا کام کرنے والا ہی تھا۔ وہ ایک عجیب و غریب اور پُر اسرار شخصیت کا مالک تھا۔ اپنا آبائی پیشہ چھوڑ کر بعد میں ڈاکو و رہزن بن گیا۔ ایسے ڈاکو نجانے کیوں حکمرانوں کو بہت پسند ہوتے ہیں۔ اس لیے مقامی حاکم نے بھی یعقوب کو اپنے فوجیوں کی کمان دے دی۔ لیکن یعقوب کی نظریں کہیں اور تھیں۔ وہ بعد میں اسی حاکم کے خلاف بغاوت کر کے پورے سیستان کا مالک بن گیا۔
صفاریوں کے بڑھتے قدم، پاکستان سے عراق تک
صفاریوں نے سیستان میں قدم مضبوط کرنے کے بعد مشرق کا رخ کیا۔ افغانستان میں بلخ، بامیان اور کابل حاصل کیا۔ اس خوف کے پیشِ نظر کہ کہیں خراسان اور عراق کے درمیان واقع اہم صوبے فارس پر قبضہ نہ کر لیں، خلیفہ نے بلخ، طخارستان اور سندھ کا علاقہ یعقوب صفاری کو دے دیا۔ اب اُس کی حکومت دریائے سندھ تک تھی یعنی آج کا آدھا پاکستان بھی صفاریوں کی جھولی میں تھا۔
خلیفہ کی خواہش کے برعکس یعقوب نے خراسان کی طرف قدم بڑھائے اور طاہریوں کو شکست دے کر 873ء میں پورے خراسان پر قابض ہو گیا۔ اس نے زرنج کو اپنا دارالحکومت بنایا۔ یہ شہر آج افغانستان میں واقع ہے اور اس کے صوبہ نمروز کا دارالحکومت ہے۔
اب یعقوب کے سر پر بغداد کا جنون سوار ہو گیا، یہاں تک کہ لشکر لے کر دریائے دجلہ کے کنارے تک پہنچ گیا۔ صلح کی تمام تر پیشکشیں ٹھکرا دیں یعنی عباسی حکومت کو براہِ راست للکارنے لگا۔ بالآخر 876ء میں جنگ کا میدان سجا۔ تاریخ میں اسے 'معرکہ دیر العاقول' کہا جاتا ہے۔ اس میں عباسیوں نے زبردست کامیابی حاصل کی اور یعقوب شکست کھا کر بھاگ نکلا۔ اس کے بعد صرف تین سال تک زندہ رہ سکا۔
کیا یعقوب ایک غاصب تھا؟
یعقوب بن لیث کو تاریخ کی زیادہ تر کتابوں میں ایک غاصب کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر اگر اُس کا تقابل طاہری اور سامانی خاندانوں سے کیا جائے تو۔ لیکن کیا محض یعقوب ہی غاصب تھا؟ ملوکیت کے اس گھن چکر میں آخر کون غاصب نہیں تھا؟ بنو امیہ نے پوری امتِ مسلمہ سے خلیفہ کے چناؤ کا حق چھینا، کیا وہ غاصب نہیں تھے؟ بنو عباس نے اہلِ بیت کے نام پر خلافت کو اپنے خاندان کا حق بنا لیا، کیا انہیں غاصب نہ کہا جائے؟ ملوکیت اصل میں اِن غاصبوں کا ہی تو کھیل تھا۔ ہاں! جب کوئی ایک غاصب حد سے زیادہ طاقتور ہو جاتا تو دوسرا پریشان ہو جاتا تھا۔ عباسیوں کا بھی یہی حال ہوا۔ ایسے ہی خطرات سے نمٹنے کے لیے انہوں نے ترک غلاموں پر مشتمل فوج بنائی تھی، جو یعقوب صفاری کے خلاف خوب کام آئی۔
یعقوب صفاری، ایک پُر اسرار شخصیت
غاصب ہو یا نہ ہو، لیکن یعقوب بن لیث پُر اسرار شخص ضرور تھا، کیونکہ اس کے دوست کم تھے اور دشمن زیادہ۔ اور جب آپ کی تاریخ دشمن لکھے تو پھر ایسی ہی متضاد شخصیت سامنے آتی ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک وہ ایک سخت گیر شیعہ تھا، کچھ اسے ایک شدت پسند سنّی کہتے ہیں، چند کی نظر میں خارجی تھا اور پھر کچھ لوگ اسے عرب کے مقابلے میں فارس کی عظمت کا علَم دوبارہ بلند کرنے والا قرار دیتے ہیں۔ یعقوب جیسی پُر اسرار شخصیات ہماری لوک کہانیوں میں بھی بڑی مقبولیت حاصل کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کے بڑے عجیب و غریب قصے ملتے ہیں جو آج تک اسے مقبول بنائے ہوئے ہیں۔ ایسی ہی اِدھر اُدھر کی کہانیوں سے صفاریوں کا کچھ "امیج" بنانے کی کوشش بھی کی گئی، جیسا کہ فارس کی عظمت کے ڈھنڈورے پیٹے گئے۔ آج ایران کے شہر زابل اور تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں تو یعقوب بن لیث صفاری کے مجسمے بھی نصب ہیں۔
وسطِ ایشیا پھر تقسیم
صفاریوں کی حکومت شرقاً غرباً دریائے سندھ سے دریائے دجلہ اور شمالاً جنوباً خلیجِ فارس سے آمو دریا تک پھیلی ہوئی تھی، یعنی ان کی وجہ سے وسطِ ایشیا ایک مرتبہ پھر دو حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔ حدِ فاصل تھی ایک مرتبہ پھر دریائے آمو، وہ قدرتی سرحد جو طاہری دور میں ختم ہو گئی تھی، ایک مرتبہ پھر ابھری۔ اب اِدھر صفاری خاندان تھا اور اُدھر سامانی خاندان۔
عمرو صفاری، عروج سے زوال تک
یعقوب بن لیث کے بعد اس کا بھائی عمرو صفاری اگلا حکمران بنا۔ وہ 879ء سے 901 تک برسرِ اقتدار رہا۔ عباسی حکومت نے اپنا کام نکلوانے کے لیے اس کے اقتدار کو تسلیم بھی کیا، یہاں تک کہ خلیفہ معتضد باللہ نے اسے خراسان کا گورنر تک مقرر کر دیا۔ اس فیصلے کا مطلب تھا سامانی خاندان سے براہِ راست ٹکراؤ۔ جو ہوا اور نتیجہ صفاریوں کے حق میں نہیں نکلا۔
سن 900ء میں معرکہ بلخ میں صفاریوں اور سامانیوں کا آمنا سامنا ہوا۔ اسماعیل سامانی نے ایک شاندار کامیابی حاصل کی، عمرو بن لیث گرفتار ہوا اور پا بجولاں بغداد بھیج دیا گیا۔ جہاں معتضد باللہ کے انتقال کے بعد 902ء میں اسے سزائے موت دے دی گئی۔
عمرو کے بعد صفاری خاندان کا زور بڑی حد تک ٹوٹ چکا تھا، البتہ سیستان اُن کے پاس رہا، جہاں اُن کی حیثیت سامانیوں کے باجگزار کی سی تھی۔ بالآخر 1003ء میں غزنویوں نے ہمیشہ کے لیے صفاریوں کا خاتمہ کر دیا۔
صفاریوں کی باضابطہ حکومت کُل 27 سال قائم رہی۔ ان کے پاس ایسا کوئی قابلِ ذکر کارنامہ تو نہیں کہ جس پر فخر کیا جائے لیکن دو کام ایسے ہیں، جن کی وجہ سے تاریخ میں ان کی کچھ اہمیت بنتی ہے۔ ایک: انہوں نے خراسان میں عباسی طاقت کا زور توڑا اور دوسرا: انہوں نے اسلامی دنیا کے مشرقی علاقوں سے خارجیوں کا بڑی حد تک خاتمہ کر دیا۔ پھر فارسی زبان کے احیا کو بھی اُن کا ایک کارنامہ قرار دیا جاتا ہے کیونکہ صفاری دربار کی سرکاری زبان عربی نہیں فارسی تھی۔ تقریباً دو صدیوں کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ کسی مسلم دربار میں فارسی کو یہ درجہ ملا ہے۔
تبصرہ لکھیے