یہ ایک دم توڑتے ستارے کی آخری ہچکی ہے جو ناسا نے آج ہی جاری کی ہے۔ اسے مرے ہوئے اڑھائی ہزار نوری سال سے زائد گزر چکے ہیں لیکن انسان تک یہ خبر تصویری شکل میں آج پہنچی ہے۔
ممکن ہے کہ کائنات کے کسی دور دراز کونے میں بیٹھی ہم جیسی کوئی مخلوق بھی آسمانوں پر نظریں جمائے بیٹھی ہو جس تک یہ خبر پہنچنے میں مزید ہزاروں نوری سال گزر جائیں۔
سائنس نے ہمارے سیارے کو اس وسیع و عریض کائنات میں ایک حقیر ذرہ ثابت کیا تو انسان اپنی اہمیت کے اس احساس سے محروم ہو گیا جس کی بدولت وہ مشکل سے مشکل مراحل طے کر جاتا تھا۔
جیسے کوئی اپنے محبوب کی نظروں میں غیراہم ہو جائے تو اس کی تمام تر توانائی نچڑ جاتی ہے، احساسات شل ہو جاتے ہیں، جذبوں کو فالج ہو جاتا ہے اور پھر وہ ایک آوارہ گھومتے شہاب ثاقب کی طرح فنا کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ گزشتہ چند صدیوں میں نسل انسانی پر بھی کچھ ایسا ہی دور ابتلا گزرا ہے۔
جس طرح شہروں کی نفسانفسی سے گھبرا کر انسان دور دراز برفانی علاقوں میں تنہائی کے سفر پر روانہ ہو جاتا ہے، ویسے ہی دل چاہتا ہے کہ ہم بھی کسی ایسے سیارے میں جا بسیں جہاں رہنے والی سادہ لوح مخلوق خود کو کائنات کا مرکز جان کر اتراتی پھرتی ہو، جہاں ابھی تک گلیلیو، کیپلر اور نیوٹن پیدا نہ ہوئے ہوں، جہاں روزانہ زمین کو چومتے سیب سوال پیدا نہ کرتے ہوں، جہاں خدا بیزار معاشرے کا قیام نہ ہوا ہو۔
ذات کی تنہائیوں کا شکار انسان جب خارجی کائنات کی بے کرانی میں بھی خود کو تنہا پاتا ہے تو اس دوہرے احساس غم سے چور چور ہو کر کسی ایسی متوازی کائنات کے خواب دیکھنا شروع کر دیتا ہے جہاں زندگی تو ہو مگر ایسی نہ ہو جو یہاں نصیب ہوئی ہے۔
یہ ستارہ پھر بھی خوش نصیب ہے کہ ہزاروں نوری سال بعد بھی اس کا نظارہ کرنے والی آنکھیں موجود ہیں، تسخیر کائنات کا عزم رکھنے والے دل جوش سے بھرے ہیں اور امیدوں کے چراغوں سے روشن پیشانیاں دمک رہی ہیں۔ مرتے ہوئے ستارے کو کسی نومولود بچے کی طرح نام بھی عطا کر دیا گیا ہے۔
ہم انسان دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو دیکھنے والی نظروں سے چند ہی گھنٹوں میں اوجھل ہو جاتے ہیں، جدائی کا کرب سہنے والے قلوب سے چند ماہ و سال میں مٹ جاتے ہیں اور چند نسلوں کی مسافت کے بعد یادداشت سے ہی محو ہو جاتے ہیں۔
جب انسان اسقدر کامل گمنامی کا سوچتا ہے تو غیراہم ہونے کے احساس کی تکون مکمل ہو جاتی ہے۔ اندر موجود تنہائی کا زاویہ خارج میں وسیع خلا سے ملتا ہے اور یادداشت سے مٹ جانے کے تصور سے ٹکراتا ہے تو انسان خود کو کسی یونانی المیے کے غیراہم کردار کی مانند محسوس کرتا ہے۔
لاعلمی واقعی بڑی نعمت ہے۔
تبصرہ لکھیے