عباسی دور میں مرو سیاسی قوت کے ساتھ ساتھ علم و فنون کا مرکز بھی بنا۔ تاریخ کے کئی بڑے نام اس شہر میں پیدا ہوئے، کچھ تو ایسے تھے جنہوں نے دنیا جہاں سے مرو کا رخ کیا اور اپنی زندگی کے قیمتی سال یہاں بِتائے اور چند ایسے کہ جنہوں نے مرو سے نکل کر دنیا بھر میں علم کے موتی بکھیرے۔
مرو کی معروف شخصیات
برمکی خاندان، جس کے انتظامی کردار کو آج دنیا صدیاں گزرنے کے بعد بھی یاد کرتی ہے، اسی مرو سے بغداد آیا تھا۔
اہلِ تشیع کے آٹھویں امام حضرت امام علی رضا تو مدینہ سے مرو منتقل ہوئے تھے، جہاں مامون الرشید نے انہیں اپنا جانشیں قرار دے دیا تھا۔
اسلامی دنیا کے اوّلین اور عظیم ترین سائنس دانوں میں سے ایک حبش الحاسب المروزی (پیدائش: 770ء) کا تعلق مرو ہی سے تھا۔ آپ کا اصل نام احمد بن عبد اللہ تھا لیکن غالباً سیاہ رنگت کی وجہ سے حبش کہلائے، ریاضی میں مہارت کی وجہ سے حاسب اور مرو میں پیدا ہونے کی وجہ سے مروزی۔
پھر برادرانِ بنو موسیٰ تھے، جن کے حیرت انگیز کارناموں کا ذکر بہت تفصیل سے ہو چکا ہے۔ وہ بھی اسی شہر کے رہنے والے تھے۔ پھر بنو موسیٰ کے کام کو آگے بڑھانے والے ابو حامد الصاغانی (وفات: 990ء) بھی مرو ہی سے تھے۔
امام احمد بن حنبل (پیدائش: 780ء) کا خاندان بھی مرو سے ہی ہجرت کر کے بغداد پہنچا تھا، جہاں بعد میں امام نے فتنہ خلق قرآن کے زمانے میں عزیمت کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ اس پر بھی ایک قسط میں تفصیلاً بات ہو چکی ہے۔
پھر سلجوقی دور میں مرو اپنے عروج پر پہنچا اور یہاں سے معروف شخصیات سامنے آئیں۔ ابو محمد عبد الجبار الخرَقی (وفات: 1138ء) بھی مرو ہی سے تھے۔ وہ ریاضی، فلکیات اور جغرافیہ کے علوم میں ایک نمایاں شخصیت ہیں۔
اُسی زمانے میں مرو کا ایک بڑا نام ابن سمعانی کا بھی ہے۔ آپ ایک زبردست مؤرخ تھے۔ ان کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ آپ کا لقب تاج الاسلام تھا۔ آپ 1113ء میں مرو میں پیدا ہوئے اور زندگی بھر سفر میں گزارنے کے بعد 1166ء میں اسی شہر میں اپنی آخری سانسیں لیں۔
پھر نام آتا ہے مرو کے سب سے بڑے علمی نام عبد الرحمٰن منصور الخازنی (پیدائش: 1077ء) کا۔ آپ بھی سلجوقی دور کے ایک بڑے ریاضی دان اور ماہرِ فلکیات تھے۔ آپ کی کتاب میزان الحکمت بہت مشہور ہوئی۔
اُس زمانے کے مشہور شاعر اور ریاضی دان عمر خیام (پیدائش: 1048ء) نے بھی کئی سال مرو کی رصد گاہ میں کام کیا۔
معروف جغرافیہ دان اور"معجم البلدان" کے مصنف یاقوت الحموی (پیدائش: 1179ء) نے بھی دو سال مرو میں گزارے اور یہاں کے عظیم کتب خانوں سے استفادہ کیا۔ انہوں نے شہر کے 10 بہت بڑے کتب خانوں کا ذکر کیا ہے۔ ان میں سے ایک جامع مسجد کا عزیزیہ کتب خانہ تھا کہ جس میں 12 ہزار سے زیادہ کتابیں تھیں۔
مرو، عباسیوں کے بعد
مامون کے بغداد چلے جانے سے منگولوں کے حملے تک مرو نے کئی ادوار دیکھے۔ خود مامون کے دور میں ہی خراسان اور مرو عباسی گرفت سے نکل کر نیم خود مختار ہو چکے تھے۔ والئ خراسان طاہر بن حسین کا خاندان سن 821ء سے 873ء تک مرو سے خطے پر راج کرتا رہا۔
پھر صفاری، سامانی اور غزنوی خاندان ابھرے، جنہوں نے مرو پر بھی حکومت کی۔ یہاں تک کہ گیارہویں صدی میں ترک سلجوقوں نے یہاں قدم رکھے۔ یہ اوغوز ترک قبائل کی ایک شاخ سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا اصل وطن بحیرۂ ارال کے مشرق میں تھا۔ لیکن پھر ان کا اثر و رسوخ بڑھتا ہی چلا گیا۔ یہاں تک کہ 1037ء میں انہوں نے اپنے رہنما طغرل کی قیادت میں مرو فتح کر لیا۔
تب سے سلجوق حکومت کے خاتمے تک دار الحکومت مرو ہی رہا۔ یہ تمام سلجوق سلطانوں کا پسندیدہ شہر تھا۔ حالانکہ سلجوقوں کے قدم فلسطین سے مکران اور اناطولیہ سے خراسان تک پھیلے ہوئے تھے، لیکن ان کی نظرِ انتخاب اور التفات ہمیشہ مرو پر رہی۔
سلجوق سلطنت کے بانیوں میں سے شمار ہونے والے داؤد چغری بیگ اور عظیم ترین بادشاہ الپ ارسلان اور سلطان احمد سنجر، سب مرو ہی میں دفن ہیں۔
مرو ام البلاد بن گیا
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مرو نے اصل عروج سلجوق دور میں پایا۔ یہ سلجوقوں کی مشرقی سلطنت کا دار الحکومت تھا۔ تب یہ دنیا کا سب سے بڑا شہر بنا، جس کی آبادی 5 لاکھ سے زیادہ تھی، یعنی قسطنطنیہ اور بغداد سے بھی زیادہ۔ اُس زمانے کے جغرافیہ دان مرو کو "ام البلاد" یعنی شہروں کی ماں کہتے تھے۔ اس سے مرو کی عظمت و شہرت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
یاقوت الحموی کے مطابق ابھی شہر پہنچنے میں ایک دن کا سفر باقی ہوتا تھا، لیکن اس کی عمارتیں نظر آنا شروع ہو جاتی تھیں۔
سلجوقوں کے مشہور وزیر نظام الملک طوسی (پیدائش: 1018ء) نے اپنا مشہور مدرسہ یہیں بنایا تھا، جو مدرسہ نظامیہ کے نام سے آج بھی جانا جاتا ہے۔
نقطہ عروج، نقطہ زوال
سلطان احمد سنجر کا دور سلجوقی سلطنت کا نقطہ عروج تھا، ساتھ ہی نقطہ زوال بھی ثابت ہوا۔ قرا خطائی سلطنت اور خوارزم کے ساتھ تصادم کا نتیجہ بالآخر سنجر کی شکست کی صورت میں نکلا اور ساتھ ہی مرو کی عظمت کا باب بھی بند ہو گیا کیونکہ مشرقی سلجوقی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔
پھر مرو سالہا سال تک خوارزم، ترکمن اور غوریوں کے درمیان فٹ بال بنا رہا۔ یہاں تک کہ خوارزم شاہ نے اسے مکمل طور پر فتح کر لیا۔
اللہ کا عذاب
خوارزمیوں کے دور میں امتِ مسلمہ پر عذابِ الٰہی کا کوڑا پڑا، چنگیز خان نے بلادِ اسلامیہ پر حملہ کر دیا۔ منگول ایک آندھی کی طرح اٹھے، طوفان کی طرح چھا گئے اور اپنے پیچھے خس و خاشاک چھوڑ گئے۔ جو شہر سب سے پہلے برباد ہوئے، اُن میں سے ایک مرو تھا۔
منگول جتھوں نے 1221ء میں مرو پر قبضہ کیا اور پھر تاریخ کا بد ترین قتلِ عام کیا۔ ایک اندازے کے مطابق 7 لاکھ منگولوں کے ہاتھوں مارے گئے۔
ذرا تصور کیجیے، اُس زمانے میں جب بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والا کوئی ہتھیار نہیں تھا، نہ بارود تھا، نہ بم، تب لاکھوں لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح کیسے قتل کیا گیا ہوگا۔
غالباً یہ کسی شہر کی فتح کے بعد تاریخ کا بد ترین قتلِ عام ہوگا۔ یوں مرو کی عظمتوں کا خاتمہ ہو گیا۔ اس کی ماضی کی شان و شوکت دوبارہ کبھی بحال نہ ہو سکی۔
ایک عظیم شہر کی پرچھائیں
منگولوں کے دور میں مرو ایل خانی سلطنت کا حصہ بنا اور چغتائیوں نے اس شہر کو بارہا لوٹا۔ البتہ پندرہویں صدی کے اوائل میں امیر تیمور کے دور میں مرو کی رونقیں کسی حد تک بحال ہو گئیں۔
سولہویں صدی میں ازبک مرو پر قابض ہوئے، جنہیں صفوی سلطنت کے شاہ اسماعیل نے نکال باہر کیا۔ صفوی ایک سخت گیر شیعہ حکومت تھی، جس نے انتہائی نوعیت کے اقدامات اٹھائے، جن کا نتیجہ خطے میں زبردست شیعہ سنّی تصادم کی صورت میں نکلا۔ صفوی دور میں مرو کو شیعیت کا گڑھ بنا دیا گیا۔ سنّی ازبکوں نے اس شہر کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اس پر کئی حملے کیے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب بحری تجارت زور پکڑتی جا رہی تھی۔ شاہراہ ریشم کے تمام قدیم تجارتی راستے منگولوں کے قبضے میں تھے۔ بحری تجارت کے فروغ اور متبادل راستوں کی اہمیت بھی اسی لیے بڑھ گئی تھی۔ یوں مرو کی حیثیت بھی گھٹتی چلی گئیں۔
یہاں تک کہ 1788ء میں بخارا کے ازبک حکمران شاہ مراد نے شہر پر حملہ کر دیا۔ یہاں کا حکمران قاچار خاندان شہر کا دفاع نہ کر سکا۔ ازبکوں نے مرو سے نجانے کون سے بدلے لیے؟ اسے ملیا میٹ کر دیا، نہری نظام تباہ و برباد کر دیا اور شہر اور گرد و نواح کی ایک لاکھ کی آبادی کو اپنے ساتھ بخارا لے گئے۔
چند ہی سالوں بعد سن 1800ء تک مرو مکمل طور پر کھنڈر بن چکا تھا۔ آج انہی کھنڈرات کو اقوامِ متحدہ نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دے رکھا ہے۔
مرو کے قریب واقع ماری کا جدید شہر روس نے 1884ء میں بسایا تھا، لیکن وہ عظیم مرو کی محض ایک پرچھائیں ہے۔
موجودہ مرو
آجکل مرو کے کھنڈرات کے قریب ترین جو شہر موجود ہے اسے بیرام علی کہتے ہیں جبکہ جس شہر کو مرو کا جانشیں سمجھا جاتا ہے وہ ماری ہے۔ یہ مرو کے آثارِ قدیمہ سے تقریباً 30 کلومیٹرز کے فاصلے پر واقع ہے اور ماری نام کے صوبے ہی کا دار الحکومت بھی ہے۔ ماری شہر کی آبادی سوا سے ڈیڑھ لاکھ کے درمیان ہے۔ یہ ترکمنستان کا چوتھا سب سے بڑا شہر ہے۔
1968ء میں یہاں گیس کے عظیم ذخائر دریافت ہوئے تھے۔ زراعت میں کپاس کی کاشت پہلے ہی عام تھی۔ دریائے مرغاب کے ساتھ ساتھ واقع نخلستان اپنی زرخیزی کے لیے ویسے ہی مشہور تھے۔ یوں ماری ایک اہم صنعتی مرکز بن گیا۔ لیکن اس کے کارخانوں سے میلوں دُور صحرا میں جہاں ہوائیں دھول اڑاتی پھرتی ہیں، وہیں منوں مٹی تلے ماضی کی عظمت دفن ہے، منوں مٹی تلے مرو کا شہر دبا ہوا ہے۔
تبصرہ لکھیے