ہوم << لا کوئی نغمہ، کوئی صوت، تری عمر دراز-حماد یونس

لا کوئی نغمہ، کوئی صوت، تری عمر دراز-حماد یونس

زبان دانی ایسا ہنر ہے کہ جس کے حامل کا نام اور کام امر ہو جاتا ہے۔ خوبصورت زبان لکھنے یا بولنے والوں کی ایک دنیا مدّاح ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو نام ور ادیب اپنے فن پاروں کی زینت بناتے ہیں ۔ انسان کا لہجہ اور اندازِ بیاں اس کے پس منظر اور ذہنی اور شعوری سطح کا عکاس ہوا کرتا ہے۔ سقراط سے منسوب ہے کہ وہ اپنی محفل کے شرکا سے کہا کرتا تھا، کہ کچھ کہیے ، تا کہ آپ کو پہچانا جا سکے۔ اسی طرح جارج برنارڈ شا کے شہرہ آفاق ڈرامے ، 'Pygmalion' کے کردار ، Professor Henry Higgins کا دعویٰ تو ادبی دنیا میں معروف ہے۔
جبکہ اس سب سے بڑھ کر اہمیت کا حامل تو امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا نہج البلاغہ میں فرمان ہے کہ تَکَلّمُوا تُعرَفُواء ، فاِنّ المرءَ مخبوء تحت لسانہ۔ یعنی کچھ کہو تاکہ تمہاری شناخت ہو ، کہ بیشک انسان اپنی زبان تلے پوشیدہ ہوتا ہے۔

گزشتہ اور موجودہ دو صدیاں ، اردو زبان کے انحطاط اور زوال کے حادثے سے عبارت ہیں۔ بدیسی زبان جب ہم پر مسلط ہو گئی اور علاقائی تعصب نے الگ سر اٹھانا شروع کیا تو قومی زبان کہیں دب کر رہ گئی۔ عین ممکن تھا کہ اردو زبان چند مخصوص محافل اور حلقوں تک سکڑ کر، محدود ہو جاتی۔ ایسے میں ، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بہت سے شعراء اور ادِبّا کے علاوہ کُچھ لوگ ایسے بھی تھے جن کی زبان دانی اور فنِ ادائیگی کے برتر ہونے پر سب طبقے متفق تھے۔ مرحوم طارق عزیز، مرحوم کمال احمد رضوی، مرحوم قاضی واجد ، بھارت سے مرحوم یوسف خان (معروف بہ دلیپ کمار)، یہ وہ چند لوگ تھے جنہوں نے اردو زبان کو اس عہد میں سہارہ دیا اور ترو تازہ رکھا۔ مجید امجد نے کہا تھا، جو شمعِ بزمِ جہاں تھے ، کہاں گئے وہ لوگ؟ اللہ تعالیٰ سب کی مغفرت فرمائے.

ان سب ہستیوں سے بڑھ کر اہمیت کا حامل ایک نام ہے، جس نے اردو زبان کو سات دہائیوں تک سرفراز کیا ، اور جو آج بھی باراں دیدہ و نو آموز سبھوں کو اردو زبان اور اردو کے حوالے سے قرینہ سکھانے کی لگن لیے میدانِ عمل میں موجود ہیں ۔ ان کا لہجہ ، ریختہ کا لہجہ ہے، ان کا انداز اردو زبان کا انداز ہے ، اور تحت اللفظ میں ان کے پڑھے گئے اشعار، نظمیں ، غزلیں، نثر پارے ، اپنی ماہیت میں انہی کے انداز سے منسوب ہو گئے ہیں ۔ جنابِ ضیا محی الدین ، جن کی زبان اور زبان دانی ان کی شناخت بن چکی ہے۔ ان کی ادائیگی ، تلفظ ، لب و لہجہ اور انتخاب سب کا جواب نہیں ۔ آج وہ اردو زبان کا سب سے معتبر اور مستند حوالہ ہیں ۔ برسوں پاکستان ٹیلی ویژن پر ، تاریخ کے مقبول ےترین ٹی وی پروگرام ، ضیا محی الدین شو کے ذریعے نوجوان نسل کو اردو سے روشناس کروانے والے ضیا صاحب ایک اچھوتے ورثے کے امین ہیں۔

پھر ڈکٹیٹر مشرف کے زمانے میں جب میڈیا کو بے مہار آزادی مل گئی تو میڈیا سینٹرز پر تربیت کرنے والوں کا قحط ہو گیا اور مصنوعی ریٹنگز کی دوڑ لگ گئی۔چینلز کے نام پر نوٹ چھاپنے کی مشینیں جا بجا کھل گئیں۔ ایسے میں خالصتاً اصلاح اور فن کو اس کی ماہیت میں فرض اور قرض سمجھنے والے پس منظر میں چلے گئے ۔
جناب افتخار عارف نے کہا تھا ،
ستارہ وار جلے ، پھر بُجھا دِیے گئے ہم
پھر اُس کے بعد نظر سے گِرا دیے گئے ہم
اور
عزیز تھے ہمیں نو واردانِ کوچہِ عشق
سو پیچھے ہٹتے گئے، راستہ دِیے گئے ہم

ہم اپنی بات کہیں تو کوئی پندرہ برس پہلے، بیادِ فیض کسی کانفرنس میں پہلی بار ضیاء صاحب سے ، وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے ، سننے کا موقع ملا۔ اس میں لب پہ حرفِ غزل ، دِل میں "قِندیلِ" غم، میں "قِندیل" کی ادائیگی ہی ہمیں اس نابغہِ رُوزگار شخص کا اسیر کر گئی۔ باقی سب تو بہت بعد کی بات ہے۔ ضیا محی الدین صاحب ، جن کی زندگی کے 89 سن مکمل ہو چکے ہیں ، معتبر حلقے ان کو متفرق حوالوں سے جانتے ہیں۔ ای ایم فوسٹر کے شہرہ آفاق ناول ، A Passage to India کو جب 1965 میں برطانوی اسٹیج پر فلمایا گیا تو اس کا مرکزی کردار (ڈاکٹر عزیز) ضیا محی الدین صاحب کو دیا گیا۔ یہی نہیں ، 1962 کی ہالی ووڈ فلم لارنس آف عربیہ جیسی شان دار اور نمایاں فلم میں بھی اپنی لا جواب اداکاری اور انگریزی کے جوہر دکھائے۔

آج بھی ، ضیا محی الدین صاحب عمر کے اس حصے میں نہ صرف نیشنل اکیڈمی اوف پرفارمنگ آرٹس کراچی (NAPA) میں نوجوان نسل کو اداکاری، ڈائریکشن اور پروڈکشن کے اعلیٰ ترین اصولوں اور فنون سے روشناس کرنے کے ساتھ ساتھ کلاسیکل ڈرامے کی تجدید بھی کر رہے ہیں ۔ اس سب کے علاوہ، فیض فیسٹیول اور اسی نوعیت کی نمایاں ادبی محافل میں ان سے ان کے مخصوص ، انمول اور گراں مایہ انداز میں تحت اللفظ شاعری اور نثر سننے کا بھی موقع ملتا ہے۔ انہیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے 2003 میں ستارہِ امتیاز اور 2012 میں ہلالِ امتیاز دیا گیا۔ ضیا محی الدین صاحب نے فیض کی نظم ، "اک حرف" تحت اللفظ میں پڑھ رکھی ہے ، اسی کا ایک حصہ:
آج ہر موجِ ہَوا سے ہے سوالی خلقت
لا ،کوئی نغمہ ، کوئی صوت ،
تِری عمر دراز
نوحہِ غم ہی سہی
شورِ شہادت ہی سہی
صُورِ محشر ہی سہی
بانگِ قیامت ہی سہی

Comments

Click here to post a comment