معروف مؤرخ ابن خلدون اپنی مشہورِ زمانہ تاریخ میں لکھتے ہیں کہ انسانوں کی طرح سلطنتوں کی عمریں بھی طبعی ہوتی ہیں اور انہوں نے ایک سلطنت کی طبعی عمر کو 120 شمسی سال قرار دیا ہے۔ اس کے لیے ابن خلدون نے قرآن مجید کی ایک آیت حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً کو بنیاد بنایا ہے (ترجمہ: "یعنی جب انسان اپنی پوری طاقت کو پہنچا اور چالیس سال کا ہو گیا) اور ساتھ ہی انسانی تاریخ میں ایک قرن کو 40 سال کے مساوی قرار دیا ہے۔
اس حوالے سے انہوں نے بنی اسرائیل کے 40 سال تک بھٹکتے رہنے کا بھی حوالہ دیا ہے۔ اس کی مصلحت بیان کرتے ہوئے ابن خلدون کہتے ہیں کہ 40 سال کی مدت اس لیے کیونکہ جو بنی اسرائیل زندہ تھے، وہ مر کھپ جائیں اور ان کی جگہ ایک ایسی نئی پود جنم لے جو ذلّت اور رذالت کے جذبات اور غلامی و فرمانبرداری کے خیالات سے مکمل طور پر نا آشنا ہو۔
اِس بنیاد پر ابن خلدون کہتے ہیں کہ کسی سلطنت کی زندگی تین قرن سے تجاوز نہیں ہوتی۔ اِس میں پہلی پشت کے لوگ سخت مزاج اور جفاکش ہوتے ہیں اور اپنی زندگی میں ہر طرح کی تلخیاں اور سختیاں جھیلتے ہیں۔ کیونکہ ان کے مزاج ہی میں سختی آ جاتی ہے، اس لیے سب پر ان کی دھاک بیٹھی رہتی ہے اور وہ ان کے سامنے لرزتے رہتے ہیں۔
پھر اگلی قرن کے افراد ہیں جو اپنے آبا کی جدوجہد کے نتیجے میں بدویت سے نکل کر شہریت میں آ جاتے ہیں اور جفاکشی کے بجائے آرام طلبی اور تن آسانی اختیار کر لیتے ہیں۔ ان کے اندر جدوجہد کا مادّہ کھو جاتا ہے اور وہ پیش قدمی کی عادت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی اس نسل میں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے پچھلا زمانہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہوتا ہے اور وہ اُن حالات سے آگاہ ہوتے ہیں، اِس لیے یہ نسل پرانے لوگوں کی کچھ خصوصیات کی حامل رہتی ہے۔
لیکن تیسری قرن کے لوگ تو جفاکشی کو مکمل طور پر بھول چکے ہوتے ہیں۔ یہ ناز و نعمت میں پلے بڑھے اور عیش و عشرت میں پڑے ہوئے ہوتے ہیں اور حکومت کے قہر و غضب میں دبے رہتے ہیں اور عزت و عصبیت کو جانتے تک نہیں۔ اس قرن کے لوگ لڑائی بھڑائی، طرز و لباس، شہ سواری اور سپاہیانہ کرتبوں میں اکڑ دِکھا کر لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہوتی ہے کہ ان کی اکثریت عورتوں سے بھی زیادہ بزدل ہوتی ہے۔
اِس نسل کے بادشاہ جنگ و جدل کے لیے ایسی قوم کی مدد لیتے ہیں جن کے اندر شجاعت کا مادّہ ہو، یوں غلام بکثرت فوج میں بھرتی کیے جاتے ہیں اور بالآخر اُن کا وقت پورا ہو جاتا ہے۔
فلسفہ ابن خلدون اور عباسی حکومت
ابنِ خلدون کا یہی فلسفہ عباسی حکومت پر بھی صادق آتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہارون الرشید ایک عظیم بادشاہ تھا۔ ایسے حکمران کی عظمت کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ اُس کے فوراً بعد زوال کا آغاز ہو جاتا ہے۔ جیسے اورنگزیب عالمگیر کی آنکھیں بند ہوتے ہی ہندوستان میں مغل اقتدار ڈَولنے لگا، ویسے ہی ہارون الرشید کے گزرتے ہی عباسیوں کی حکومت خطرے میں پڑ گئی۔ اِس میں کچھ کردار ہارون الرشید کا اپنا بھی تھا، جس نے اپنی زندگی ہی میں سلطنت دو بیٹوں میں تقسیم کر دی تھی۔
عبد اللہ ہارون الرشید بڑا بیٹا تھا، لیکن اُس کی ماں عجمی تھی، جس کا تعلق ہرات کے علاقے بادغیس سے تھا یعنی موجودہ افغانستان سے۔ وہ سن 786ء میں اُسی رات پیدا ہوا، جس میں خلیفہ الہادی کا انتقال ہوا تھا اور اُس کی جگہ ہارون الرشید تخت پر بیٹھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے 'تین خلفا کی رات' کہا جاتا ہے۔
دوسری جانب ملکہ زبیدہ کے بطن سے پیدا ہونے والا ابو موسیٰ محمد بن ہارون الرشید خالص عرب اور عباسی خون تھا، ننھیال و ددھیال دونوں طرف سے عباسی۔ تو ہارون الرشید نے خاندانی دباؤ کی وجہ سے چھوٹے بیٹے محمد کو اپنا جانشیں مقرر کیا جو امین الرشید کے نام سے اگلا عباسی خلیفہ بنا۔ جبکہ فیصلہ کیا گیا کہ اُس کے بعد اگلا حکمران عبد اللہ ہوگا، جو بعد میں مامون الرشید کے نام سے مشہور ہوا۔ لیکن خلافت سے قبل اسے فوری طور پر خراسان، ماورا النہر، فارس، کرمان، رے طبرستان، زابل، کابل اور ترکستان کے علاقوں کی گورنری دی گئی۔
جانشینی کا ناکام فارمولا
جانشینی کا یہ فارمولا ایک معاہدے کی صورت میں لکھا گیا اور ہارون الرشید کے عہد میں ہی سن 802ء میں حج بیت اللہ کے موقع پر اس کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔ تمام فریقین نے وعدہ کیا لیکن ہارون کے گزر جانے کے بعد بیت اللہ میں کیا گیا معاہدہ بھی فریقین کو تصادم سے روک نہیں پایا۔ جیسے ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں، ویسے ہی ایک سلطنت کے دو بادشاہ کیسے ہو سکتے ہیں؟ پھر چاہے وہ بھائی ہی کیوں نہ ہوں۔
بہرحال، سفرِ حج سے واپسی پر ہی ہارون الرشید نے برمکی خاندان کی طاقت کا خاتمہ بھی کیا۔ یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جس نے سلطنت کی چولیں ہلا دِیں۔ اس فیصلے کا سب سے بڑا نقصان مامون الرشید کو ہی پہنچا کیونکہ وہ برمکی خاندان کے بہت قریب تھا۔ یہی وجہ ہے کہ چند مورخین کی نظر میں ہارون الرشید نے امین الرشید کو جانشیں بنانے کا اعلان کیا تو اُس کا راستہ صاف کرنے کو بھی ضروری سمجھا اور اس لیے برمکی خاندان کا زور توڑنے کے لیے یہ قدم اٹھایا۔
تصادم عرب و عجم کا
جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ امین الرشید کو عرب حلقوں کی حمایت حاصل تھی کیونکہ وہ ملکہ زبیدہ کا بیٹا تھا، جو دوسرے عباسی خلیفہ ابو جعفر المنصور کی پوتی تھیں۔ اس کے مقابلے میں مامون الرشید عجمی حلقوں میں مقبول تھا اور اسی تقسیم نے عباسی سلطنت کو بڑا نقصان پہنچایا۔ عالم یہ تھا کہ سلطنت کے دو دعویدار دو طاقتور حلقوں کی پشت پناہی کے ساتھ آمنے سامنے تھے۔ مامون نے خراسان میں ذرا خود مختار ہونے کی کوشش کی تو امین مخالفت پر اتر آیا اور 811ء میں ایک فوج کے ذریعے خراسان پر حملہ کر دیا۔ یہ تختِ بغداد کی بہت بڑی غلطی تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مامون کے جرنیل طاہر بن حسین نے قدم آگے بڑھائے اور ایک کے بعد دوسری کامیابی سمیٹتا ہوا بغداد کے دروازے تک پہنچ گیا۔
تبصرہ لکھیے