ہوم << گوپی چند نارنگ- امجد اسلام امجد

گوپی چند نارنگ- امجد اسلام امجد

کیسی عجیب بات ہے پرسوں شام مجھے برادرم وکیل انصاری کا امریکا سے ایک وائس میسج ملا کہ وہ 19 جون کو ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے اعزاز میں اُنکے ساتھ ایک خصوصی نشست کا اہتمام کر رہے ہیں.

اور یہ کہ اگر میں کسی وجہ سے Zoom پر براہِ راست شرکت نہ کر سکوں تو نارنگ صاحب کی خدمات اور شخصیت کے حوالے سے ایک وڈیو میسیج ضرور بھجوا دوں کہ یہ اُنکی بھی فرمائش ہے اور نارنگ صاحب کی بھی ۔ اب ہو ا یوں کہ کل شام میں نے اپنے بیٹے علی ذی شان کو یہ بات بتائی اور کہا کہ وہ آج ہی ریکارڈنگ کرلے تاکہ یہ وقت پر منتظمین تک پہنچ سکے۔

وہ مجھے آدھ گھنٹے کا کہہ کر اپنے کمرے کی طرف گیا اور میں دل ہی دل میں یہ فیصلہ کرنے لگا کہ اتنی بے شمار اور خوب صورت یادوں کو چار پانچ منٹ میں کیسے سمیٹا جائے کہ اچانک میری نظر برادرم عازم کوہلی کے واٹس ایپ پیغام پر پڑی کہ ابھی کچھ دیر پہلے ڈاکٹر گوپی چند کا امریکا میں اپنے بیٹے کے گھر میں انتقال ہوگیا ہے، میں نے فوراً ً عازم کوہلی سے فون پر رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ خبر بالکل سچ ہے، اتنے میں علی ذی شان اپنے پروفیشنل کیمرے کے ساتھ واپس آگیا اور بولا، چلیے میں آپ کی ریکارڈنگ کردوں۔ اتفاق کی بات ہے کہ گزشتہ تقریباً چالیس برس میں یہ واحد سال تھا جب نارنگ صاحب سے ملاقات یا بات نہیں ہوئی لیکن ان چند منٹوں نے سارا منظر نامہ کچھ اس طرح سے بدل دیا ہے کہ اب آیندہ ان کے بجائے صرف ان کے بارے میں ہی بات ہوسکے گی ۔

گوپی چند نارنگ بلاشبہ ہمارے عہد کے ایک بے مثال اور منفرد نقاد اور محقق اورماہرِ لسانیات اور اُردو دنیا میں تحریر و تقریر دونوں حوالوں سے ایک انتہائی مقبول شخصیت تھے، اردو زبان وادب کی تاریخ میں بے شمار نامور شاعر اور فکشن نگار گزرے ہیں لیکن کسی نقاد، محقق یا ماہرِ لسانیات قسم کی شخصیت کا اس قدر مشہور و معروف و مقبول ہونا شاید قدرت نے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ہی کے نصیبوں میں لکھ رکھا تھا، مجھے اچھی طرح یاد ہے اسّی کی دہائی میں میں نے اُن کو پہلی بار دیکھا اور سناتھا، وہ میرؔ کی شاعری پر تقریباً سوا گھنٹہ منہ زبانی بولے مگر ان کی گفتگو میں ایسا رچاؤ ، تسلسل اور علمیت تھی کہ ساری محفل پر ایک جادو سا چھایا لگ رہا تھا۔

اس پر اُن کی آواز اور طرز ادا میں ایک ایسی دلکشی تھی کہ تنقید ی محفل پر محفلِ موسیقی کا سا گمان ہوتا تھا اور جی چاہتا تھا کہ وہ بولتے رہیں اور ہم سنتے رہیں ،کچھ عرصہ بعد راجندر ملہوترہ کے ’’شام بہار‘‘ مشاعرے کے ضمن میں ابنالے جانا ہوا تو جامعہ ملیہ دہلی کے شعبہ اُردو کی طرف سے ہمارے وفد کو ایک خصوصی تقریب میں بھی مدعو کیا گیا جس کے صدر شعبہ ہمارے گوپی چند نارنگ ہی تھے، سو ایک بار پھر نثر کی جادوگری دیکھنے اور سننے کا موقع ملا اور وہاں سے اُن سے دوستی اور محبت کا ایک ایسا رشتہ قائم ہوا جس میں کبھی خلل نہیں پڑا ، آگے چل کر اُن کی بیگم منورما بھابھی، بیٹے ڈاکٹر ترون اور اُن کی پہلی بیوی سے ہونے والے بیٹے مقیم امریکا سے بھی ملاقات رہی اور اندازہ ہوا کہ ہمہ خانہ آفتاب است کسے کہتے ہیں۔

نارنگ صاحب 1931میں بلوچستان کے ایک دُور افتادہ علاقے دُکی میں پیدا ہوئے جہاں اُن کے والد سرکار ی ملازمت کررہے تھے۔ ایک برس کی عمر میں وہ موسیٰ خیل اور پھر میٹرک پاس کرنے کے بعد کوئٹہ میں ایک ملازمت کررہے تھے کہ ملک تقسیم ہوگیا اور وہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ ریڈکراس کے جہاز کے ذریعے دہلی پہنچے جب کہ اُن کی والدہ باقی ماندہ آٹھ بچوں کے ساتھ بہت مشکل اور طویل سفر کے بعد کسی نہ کسی طرح دہلی پہنچ گئیں مگر اُن کے والد 1956 تک پاکستان میں رہنے کے بعد ریٹائرمنٹ پر اپنی فیملی سے ملے ۔

نارنگ صاحب کے بیان کے مطابق اُن کا بچپن تو خاندان کے ساتھ خیر سے گزر گیا مگر لڑکپن سے جوانی تک کا زمانہ بہت مشکل تھا پھر بھی انھوں نے حالات سے ہار نہیں مانی اور بہت سے معاشی مسائل کے باوجود اپنی لیاقت اور ہمت کے باعث ایم اے اور پھر پی ایچ ڈی کرنے میں کامیاب ہوگئے، اپنے استاد کے مشورے پر وسکانسن یونیورسٹی کے وظیفے پر وہاں پڑھے بھی اور پڑھایا بھی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ بھارت میں اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہنے کے ساتھ وہ پوری اُردو دنیا کی چنیدہ ادبی شخصیات میں شامل ہوئے اور پوری اُردو دنیا ان کی علمیت سے مستفید ہوئی، وہ مشتاق احمد یوسفی کے ساتھ مجلس فروغِ اُردو ادب دوحہ کے تاحیات سر پرست بھی رہے اور ہر سال بھارت سے عالمی ادبی ایوارڈ حاصل کرنے والی شخصیات کا انتخاب بھی کرتے رہے۔ اُن کے ہم عصروں میں اُن کی طرح طویل اور شاندار زندگی گزارنے والے دو اور اہم اور باکمال لوگ شمس الرحمن فاروقی اور شمیم حنفی بھی گزشتہ دو برسوں میں ہم سے جدا ہوگئے ہیں۔

میں نے ان تینوں کی موجودگی میں اُردو تحقیق و تنقید کا وہ روشن دور بہت قریب سے دیکھا ہے جو اپنی مثال آپ تھااور نارنگ صاحب کی وفات سے اب وہ تاریخ کا ایک حصہ بن گیا ہے۔بطور انسان وہ بہت محبت کرنے اور رشتوں اور دوستیوں کو نبھانے والے آدمی تھے کہ اب دنیا ایسے خوش وضع اور بے لوث انسانوں سے تقریباً خالی ہوتی جارہی ہے ۔ عمر کے آخری چند برسوں میں وہ گھٹنوں کی تبدیلی سے گزرے جس کے بعد نہ صرف اُن کاآنا جانا محدود ہوگیا بلکہ وہ بیماری اور کمزوری کی وجہ سے اپنے بہت سے جاری منصوبوں پر بھی اُس دلجمعی سے کام نہ کرسکے .

جو تمام عمر اُن کا شیوہ رہی تھی، اُن کے جانے سے اُردو دنیا اپنے عہد کے سب سے اہم مدّرس ، نقاد، محقق اور ایک عہد ساز شخصیت سے محروم ہوگئی ہے، اُن کی یادیں اور کارنامے یقینا ایسے ہیں کہ اُن کے لیے اُردو ادب کے ہر قاری اور لکھاری کا دعا کرنا بنتا ہے ۔

Comments

Click here to post a comment