پاکستان تحریکِ انصاف کا سارا انقلاب چند مقدمات کی نذر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ جو کچھ پنجاب اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے حوالے سے ہوا ہے اور جو انداز پاکستان تحریکِ انصاف نے اپنایا ہے اس کے بعد کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ یہ سب ملے ہوئے ہیں اور عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔
پنجاب اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے حوالے سے پی ٹی آئی کی ناقص منصوبہ بندی نے مبینہ سازش اور جمہوری جدوجہد کے منصوبوں کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوڑ کر رکھ دی ہے۔ کیا کمال کے لوگ ہیں، کیا فکری سیاست دان ہیں،۔ جنہیں امپورٹڈ امپورٹڈ کہتے تھکتے نہیں، جن کے بارے ہر وقت یہ کہتے ہیں کہ مسلط کر دیا گیا ہے، جن کے بارے نامناسب الفاظ استعمال کرتے ہیں، جن کے بارے کہتے ہیں کہ انہیں حکومت کا کوئی حق نہیں ان کے ساتھ ہی بیٹھ کر مقدمات واپس کروانے کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں۔ اب یہ بھی کوئی عذر ہے کہ اراکین کا استحقاق مجروح ہوا ہے آئی جی پنجاب معافی مانگیں۔ اگر صرف آئی جی پنجاب سے معافی منگوانے کے لیے ہی اتنا تماشا کیا گیا ہے تو اس سیاست سے بہتر ہے کوئی اور کام کر لے۔
جن لوگوں کو یہ غیر آئینی، غیر قانونی کہتے تھے آج ان کے ساتھ بیٹھے مقدمات کی واپسی پر بجٹ پر سمجھوتا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پی ٹی آئی نے جو کچھ گذشتہ روز کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آج تک جو کچھ صدر پاکستان کر رہے ہیں وہ بھی نظام کے خلاف ہے اور انہیں یہ زیب نہیں دیتا، یہ ان کے عہدے کا تقاضا نہیں ہے اور صدر پاکستان سے پہلے جو تماشا چند دن کے گورنر عمر سرفراز چیمہ نے لگایا وہ سب کچھ بھی غیر آئینی اور غیر قانونی تھا۔ اگر اس سارے تماشے کے بعد یہ کچھ ہی کرنا تھا تو پھر قوم کو سچ بتانے میں کیا حرج ہے۔ کیوں قوم کا وقت ضائع کیا جا رہا ہے۔ یہ نمایاں نمایاں بڑے بڑے سیاستدان جنہیں مقامی حکومتوں کا الیکشن لڑنے میں بھی مسائل کا سامنا رہے وہ ہیرو بنے پھر رہے ہیں۔ ضرورت کے وقت نظر نہیں آتے اور جہاں کہیں افرادی قوت کا مظاہرہ کرنا ہو یا پھر عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہو وہاں سب کچھ چھوڑ بھاگ نکلے۔
پاکستان تحریکِ انصاف نے جس انداز میں پنجاب اسمبلی میں مقدمات کی واپسی کو بنیاد بنا کر واپسی کا راستہ نکالا ہے اسے دیکھ کر تیار رہنا چاہیے کہ وہ وقت دور نہیں ہے جب پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں بھی واپس آئے گی۔ قومی اسمبلی سے یہ غیر حاضری بھی ماسوائے شرمندگی کے کچھ نہ دلا سکے گی۔ قوم کو غلط راستے پر لگا کر، نوجوانوں کو امپورٹڈ حکومت کے دلفریب نعروں میں الجھا کر خود پاکستان تحریکِ انصاف کی اعلی قیادت واپسی کے راستے ڈھونڈ رہی ہے۔ یہی وہ طرز سیاست ہے جس کی وجہ سے ملک و قوم کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ کیا یہ ملک و قوم کی خدمت ہے، کیا اس سیاست سے پاکستان کا فائدہ ہوا ہے۔ ہر وقت دوسروں کو برا بھلا کہتے رہنا آسان اور خود قربانی دینا مشکل ہے۔ نظام کو نقصان پہنچانا اور معاشی بارودی سرنگیں بچھا کر جانا سب کچھ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہوا ہے بدقسمتی یہ ہے کہ ان فیصلوں کا نقصان بھی ووٹرز کو برداشت کرنا پڑا ہے کیا کسی کو اس طرز سیاست پر کوئی ندامت ہو گی؟؟؟؟
انقلاب اور بیرونی سازش کا بیانیہ چند دنوں کے لیے تو پرکشش ہو سکتا ہے لیکن جیسے جیسے وقت گذر رہا ہے ویسے ویسے حقائق عوام کے سامنے آتے جا رہے ہیں اور خود پاکستان تحریک انصاف یا اس کے حمایتی رازوں سے پردہ اٹھا رہے ہیں۔ آنے والے دن ان جذباتی ووٹرز کے لیے بھی بڑا امتحان ہیں جنہوں نے سب کچھ داؤ پر لگا کر پی ٹی آئی کے بیانیے کو سچا ثابت کرنے کے لیے دن رات محنت کی تھی۔ نہ کوئی انقلاب آیا نہ کوئی انقلابی رہا نہ کوئی دشمن ثابت ہو سکا نہ کوئی دشمن کھڑا ملا بس جدھر دیکھیں اپنے ہی نظر آتے ہیں۔ معاشی بارودی سرنگوں کے ساتھ ساتھ سیاسی بارودی سرنگیں بھی ہیں لیکن ان کا نشانہ سرنگیں بچھانے والے خود ہی بن رہے ہیں۔
ایک طرف پاکستان تحریکِ انصاف انقلاب اور حقیقی آزادی کا بیانیہ لے کر آگے بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو اپنی مراعات کا غم لگا ہوا ہے۔ وہ کئی ہفتوں سے غائب تھے یار لوگوں کو پریشانی تھی کہ وہ اکیلے کچھ کر نہ بیٹھیں، لوگ ان کی عدم موجودگی میں طرح طرح کی باتیں کر رہے تھے لیکن اب معلوم ہوا کہ وہ اتنے گہرے غائب اس لیے تھے کیونکہ اپنی مراعات حاصل کرنے کے لیے کیس کی تیاری میں مصروف تھے۔ اس کیس کی تیاری میں انہوں نے اتنی توجہ سے کام کیا کہ سب کچھ بھلا دیا حتیٰ کہ پارٹی کے نئے بیانیے کو بھی قربان کر دیا۔ حقیقی آزادی کا بیانیہ کچھ لوگوں کے لیے ضرور معنی رکھتا ہو گا لیکن حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے مراعات سب سے بڑھ کر ہیں۔
اسی لیے عثمان بزدار نے بطور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب مراعات کیلئے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔ انہوں نے درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ پنجاب منسٹرز مراعات ایکٹ کے تحت بطور سابق وزیر اعلیٰ مراعات سے محروم رکھا جا رہا ہے، 23 مئی سے قانون کے تحت بطور سابق وزیر اعلیٰ کو حاصل مراعات نہیں دی جا رہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ نے استدعا کی کہ مراعات کے حصول کیلئے دائر درخواست کو پرنسپل نشست پر سنا جائے اور قانون کے تحت سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کو حاصل مراعات بھی دینے کا حکم دیا جائے۔ رجسٹرار آفس نے درخواست پر اعتراض عائد کیا، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس محمد امیر بھٹی آج بطور اعتراضی کیس کی سماعت کریں گے۔
یہ صورت حال ملک کے سب سے بڑے صوبے اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے سب سے بڑے سپاہی کی ہے۔ پارٹی چیئرمین کے مطابق ملک کو شدید خطرات لاحق ہیں لیکن ان کے سب سے بڑے سپاہی کو ملک کو درپیش خطرات سے زیادہ مراعات کی فکر ہے۔ یہ تباہی ایسے ہی نہیں ہوئی، چمن کو اجاڑنے میں ایسے کئی کرداروں کے نام شامل ہیں یاد رکھیے وقت آنے پر سب سامنے آتے جائیں گے۔ رہے نام اللہ کا!!!!!
تبصرہ لکھیے