تاریخ کا ایک اُصول ہے، جب انصاف نہ رہے تو پھر سلطنت بھی نہیں رہتی، چاہے اس کا رقبہ ایک کروڑ 11 لاکھ مربع کلومیٹرز ہی کیوں نہ ہو یعنی دنیا آپ کے قدموں تلے ہو تب بھی۔ غلط سمت میں ایک کے بعد اٹھتا دوسرا قدم، ظلم و جبر کا راستہ، تنقید برائے اصلاح تک کو برداشت نہ کر پانا، اختلاف کی گنجائش ختم، اظہارِ رائے کی آزادی نہیں، قانون کے بجائے فردِ واحد کی حکمرانی کہ جس کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ حرفِ آخر ہو، اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ بالآخر معاملات ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔
اور لاوا پھٹ پڑا
اموی سلطنت کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور اتنا اچانک ہوا کہ چند ہی سالوں میں وسطِ ایشیا سے افریقہ تک، پوری سلطنت کی بساط ہی لپیٹ دی گئی۔ وہ خاندان کہ جس کی حکمرانی کبھی دریائے سندھ سے ہسپانیہ تک تھی، اس کے ہر رکن کو چُن چُن کر قتل کیا گیا اور اُن کے حق میں کوئی آواز تک بلند نہ ہوئی کیونکہ وہ عوام کے دلوں میں گھر نہیں بنا پائے تھے۔ واقعہ کربلا سے جو بے چینی پیدا ہوئی تھی، جو لاوا اندر ہی اندر پک رہا تھا، بالآخر پھٹ پڑا اور سب کچھ بہا کر لے گیا۔ یہ عباسی تحریک تھی جس نے بالآخر اموی اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔ اس انقلاب کی جائے پیدائش تھی خراسان، یعنی ہمارے وسطِ ایشیا کا اہم حصہ۔
ہم نے پچھلی قسط میں نصر ابن سیّار کا ذکر کیا تھا کہ جنہیں خراسان و ماورا النہر کا والی بنایا گیا تھا اور انہیں بہت بڑے چیلنج کا سامنا تھا۔ وہ وسطِ ایشیا میں اپنے تجربے کو بروئے کار لائے، بہت سے مشکل اور اہم فیصلے کیے، کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے لیکن در حقیقت ایسے فیصلے کرنے کا اصل وقت کہیں پہلے گزر چکا تھا۔
ابو مسلم خراسانی، ایک کرشماتی اور پُر اسرار شخصیت
عباسی تحریک جو اب تک زیرِ زمین تھی، نصر ابن سیّار کے دور میں خراسان میں منظرِ عام پر آئی اور اس کی قیادت تھی ایک ایسی شخصیت کے پاس جو کرشماتی بھی تھی، پُر اسرار بھی اور متنازع بھی، نام تھا ابو مسلم خراسانی۔ ابو مسلم کا اصل نام کیا تھا؟ یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا، تعلق کہاں سے تھا؟ یہ بھی نہیں پتہ۔ بس اتنا معلوم ہے کہ وہ عرب نہیں تھا اور کوفے میں کسی کی غلامی میں زندگی بسر کر رہا تھا ۔ سن 742ء میں چند عباسی مبلغ اسے ایک قید خانے نکال کر اپنے امام ابراہیم بن محمد کے پاس لے گئے جو اس کی باتوں سے بہت متاثر ہوئے۔ بتایا جاتا ہے کہ ملاقات کے دوران جب ابو مسلم سے نام پوچھا گیا تو اس نے بہزادان بتایا ، جس پر ابراہیم بن محمد نے کہا کہ "نہیں! آج سے تم عبد الرحمٰن ہو" اور پھر کچھ ضروری ہدایات کے ساتھ اسے خراسان بھیجا۔
جب ابو مسلم خراسان آیا تو یہاں کے حالات ایسے تھے، گویا فصل پک چکی تھی، صرف کاٹنے والا درکار تھا۔ بنو امیہ کے مظالم سے تنگ، خاندانِ بنو ہاشم پر اُن کے مظالم سے نالاں اور فارس پر عرب کی فتح پر خار کھائے ہوئے، ابو مسلم نے سب کو اپنے ساتھ ملایا اور پھر یہاں ایسی بغاوت نے جنم لیا کہ نصر ابن سیّار جیسا والی بھی کچھ نہ کر پایا۔
امویوں کے سفید پرچم کے مقابلے میں کالے رنگ کے جھنڈے لیے ابو مسلم کے لشکر کچھ ہی عرصے میں مرو جیسے اہم شہر پر قابض ہو چکے تھے۔ پھر خراسان کا ہر شہر پکے ہوئے پھل کی طرح اُس کی گود میں گرتا رہا۔ شکست کے بعد نصر ابن سیّار ہمدان کی طرف نکلا، لیکن راستے میں بیمار پڑ گیا۔ دسمبر 748ء میں 85 برس کی عمر میں اُس کا انتقال ہو گیا۔ نصر کا زمانہ گزر گیا، ابو مسلم کا دَور شروع ہونے والا تھا، ایک مختصر لیکن پُر اثر دَور۔
بنو امیہ کا سورج غروب ہو گیا
اب خراسان پر ابو مسلم کا راج تھا اور بنو عباس کی افواج کے قدم دمشق کی جانب تھے۔ جنوری 750ء میں موجودہ عراق کے دریائے زاب کے کنارے ایک فیصلہ کُن جنگ ہوئی، جس میں بنو عباس نے فتح حاصل کی اور عرب دنیا میں بنو امیہ کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ آخری اموی بادشاہ مروان ثانی نہ صرف خود مارا گیا بلکہ شہر میں اس کے خاندان کا کوئی فرد نہیں بچا۔
ابو مسلم کا انجام
عباسیوں کی اس عظیم کامیابی میں سب سے نمایاں کردار ابو مسلم خراسانی کا ہی تھا۔ لیکن ایک شخص جو تنِ تنہا اتنا کچھ حاصل کر لے، وہ حکمرانِ وقت کے لیے بہت خطرناک ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فتحِ دمشق کے بعد ابو جعفر منصور نے اپنے بھائی اور پہلے عباسی سلطان عبد اللہ بن محمد سفاح کو مشورہ دیا تھا کہ ابو مسلم کا خاتمہ کر دیں۔ سفاح نے اس مشورے پر عمل نہیں کیا، لیکن جب ابو جعفر کا اپنا دَور آیا تو سن 755ء میں ابو مسلم کو بلوا کر قتل کر دیا۔
وسطِ ایشیا میں چین کے بڑھتے قدم
اُس زمانے میں بلادِ عرب و شام میں جو کچھ ہوا، وہ ہمارا موضوع نہیں بلکہ ہم ذکر کریں گے اُس دَور میں وسطِ ایشیا میں پیش آنے والے چند بہت اہم واقعات کا، ایسے واقعات جن کے تاریخ پر بہت اہم اثرات مرتب ہوئے۔ ہوا یہ کہ اس ہنگامہ خیز دَور میں طخارستان کے ایک شہزادے نے بلورستان کے خلاف چین سے مدد طلب کی۔ یہ بلورستان وہی علاقہ ہے جسے آجکل ہم گلگت کہتے ہیں۔ جی ہاں! پاکستان کے شمالی علاقوں میں واقع گلگت، جو ایسی سرزمین ہے جہاں تب تک مسلم افواج کے قدم نہیں پہنچے تھے۔ تب گلگت کا علاقہ تبت کی سلطنت کے ماتحت تھا بلکہ یہاں کا سردار شاہِ تبت کا داماد تھا۔
تب چین نے اپنے عظیم جرنیل گاؤ سیانچی کو بھیجا، جس نے قراقرم کے عظیم درّے پار کر کے 747ء میں بلورستان یعنی گلگت پر قبضہ کر لیا۔ کچھ ہی عرصے میں اس کے قدم چترال اور اس سے بھی آگے بڑھتے چلے گئے اور جلد ہی شاش یعنی تاشقند بھی گاؤ سیانچی کے قبضے میں تھا۔ تب شاش کے ایک شہزادے نے ابو مسلم خراسانی کا رخ کیا، جو تب سمرقند میں تھا اور مطالبہ کیا کہ انہیں اس افتاد سے نجات دلائیں۔
یہ وہ زمانہ تھا جب چین پر تانگ خاندان کی حکومت تھی۔ یہ خاندان 618ء میں برسرِ اقتدار آیا تھا اور چین کی سرحد مغرب کی جانب بڑھاتے ہوئے بالآخر فرغانہ تک پہنچ گیا۔ وہی علاقہ جو بعد میں مسلم سلطنت کی آخری حد بنا۔ سرحدیں مل جانے کی وجہ سے تصادم تو ناگزیر تھا ہی لیکن معاملہ چھوٹی جھڑپوں سے آگے نہیں بڑھا۔ لیکن جب مسلم علاقوں میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو چین نے موقع غنیمت جانا اور وسطِ ایشیا پر گرفت حاصل کرنے کی کوششیں تیز کر دیں۔
معرکہ تالاس، آخری عظیم فتح
بہرحال، ابو مسلم نے ایک جرنیل زیاد بن صالح کی قیادت میں گاؤ سیانچی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک لشکر بھیجا اور پھر ہوا تاریخ میں عرب اور چینی افواج کا پہلا، اور آخری، براہِ راست ٹکراؤ۔ چین کے لشکر میں فرغانہ کے اتحادی اور قارلُق ترک (Karluk Turks) بھی شامل تھے اور جولائی751ء میں تالاس کے مقام پر دونوں افواج کا سامنا ہوا۔ یہ جگہ سمرقند سے تقریباً 300 میل دُور ہے اور آج قزاقستان اور قرغزستان کی سرحد پر واقع ہے۔
جنگ تالاس پانچ دن جاری رہی، یہاں تک کہ قارلق ترکوں کے ساتھ چھوڑ جانے کی وجہ سے چینی لشکر کو بُری طرح شکست ہوئی۔ گاؤ سیانچی بمشکل اپنی جان بچا کر بھاگا۔
جنگ تالاس کا ذکر عموماً ہمارے ہاں نہیں کیا جاتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تاریخ کی اہم جنگوں میں سے ایک ہے۔ کئی جدید مؤرخین نے تو اسے تاریخ کی فیصلہ کن ترین جنگوں میں شمار کیا ہے کیونکہ اس کے اثرات بہت گہرے پڑے۔ اس جنگ کے نتیجے میں یہ طے ہو گیا کہ وسطِ ایشیا کا مستقبل اسلام ہے، چینی تہذیب نہیں۔ اس کے بعد ایک ہزار سال تک چینی افواج نے اس علاقے کا رخ نہیں کیا۔ یعنی کہا جا سکتا ہے کہ اس جنگ نے وسطِ ایشیا کے مغربی حصوں پر چین کے اثر و رسوخ کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا۔
جس طرح مغرب میں معرکہ بلاط الشہدا مسلمانوں کی آخری حد ثابت ہوا، جہاں انہوں نے شکست کھائی اور پھر کبھی فرانس پر قدم نہ رکھ سکے، اسی طرح تالاس مشرق میں اسلام کی آخری حد بنا لیکن یہاں ایک عظیم کامیابی حاصل کی۔
معرکہ تالاس کو جدید مؤرخین اس لیے بھی اہمیت دیتے ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں عربوں کو کاغذ سازی کے ہنر کے بارے میں پتہ چلا۔ کہا جاتا ہے کہ جنگ تالاس میں پکڑے گئے چند قیدی کاغذ بنانے کے ماہر تھے، جن سے مسلمانوں نے یہ فن سیکھا اور یوں کاغذ عرب دنیا میں مقبول ہوا اور یہیں سے مغربی دنیا تک بھی پہنچا۔
بہرحال، جنگِ تالاس آخری بڑی کامیابی ثابت ہوئی کیونکہ اس کے بعد کم و بیش تین صدیوں تک مسلم دنیا کی سرحدوں میں کوئی بڑی اور واضح تبدیلی نہیں آئی یعنی اس کے ساتھ عظیم فتوحات کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔
تبصرہ لکھیے