ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نئے میلینیم کی پہلی دہائی میں پاکستان کی الیکڑانک میڈیا انڈسٹری کا حصہ بنے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ آیا اس نے دیکھا اور فتح کر لیا کی مثال بن گئے۔ایک بڑے میڈیا گروپ کے چینل سے عالم آن لائن پروگرام شروع کیا ۔
اس سے پہلے پی ٹی وی پر مذہبی پروگرام سنجیدہ انداز کے ہوتے۔سیٹ کا ماحول بھی متانت سے لبریز ہوتا ۔ڈاکٹر اسرار احمد ،علامہ طاہرلقادری جیسے جید عالم اس متانت اور سنجیدگی کے ساتھ دینی گفتگو فرماتے کہ کبھی ان کو ہم نے ہلکا سا مسکرا تے ہوئے بھی نہ دیکھا تھا ۔ نیو میلینیم کے آغاز پر جب ٹی وی انڈسٹری کا ایک نیا دور شروع ہوا ،تو عالم آن لائن میں ایک نوجوان مذہبی سکالر کڑھائی والے کرتے پہنے دکھائی دیا، اس کے بولنے کا انداز میزبانی کے ساتھ نعت خوانی بھی۔ پھر پروگرام کے سیٹوں کی رنگارنگی کی الگ سے حصہ داری ایسی تھی کہ جلد ہی یہ منفرد مذہبی پروگرام لوگوں میں بے حد مقبول ہوا۔ہر مسلک اور ہر مکتبہ فکر کے علماء کو بلایا جاتا ہے جنہیں ہلکے پھلکے ماحول میں بات کرتے اور مسکراتے ہوئے پہلی بار لوگوں نے سکرین پر دیکھا۔
رفتہ رفتہ یہ مذہبی پروگرام کمرشل ہونے لگے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے مذہبی پروگراموں کو انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے مقابل لا کھڑا کیا۔مگر یہ بھی سچ ہے گذشتہ دو دہائیوں میں مذہب کو کمرشلائز کر کے اس سے ٹی وی چینل کی ریٹنگ بڑھانے کے عمل کو سنجیدہ حلقوں نے کبھی پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔مگر کمرشل دنیا کے تقاضے اور ہیں جہاں ریٹنگ کی گیم ہے اور اسی گیم کے گرد زندگی رقص کرتی ہے۔ افسوس کے عامر لیاقت حسین اپنی بے پناہ خداد صلاحیتوں کے ساتھ اس سارے کلچر کو پروان چڑھانے میں حصہ دار بھی رہے اور اس کی نذر بھی ہوگئے۔ رمضان میں سحری اور افطاری کی طویل دورانیے کی ٹرانسمیشن کے بانی بنے اور بابرکت راتوں کو فیسٹیول کی شکل دی۔ہر چینل کی خواہش ہوتی کہ اس بار رمضان میں عامر لیاقت ان کے چینل پر ہوں۔ وہ جس چینل کے ساتھ منسلک ہوتے ٹی وی چینلز کے 80 فیصد ناظرین اسی چینل سے بندھے رہتے ہیں۔
فن گفتگو کے ساتھ دیگر صلاحیتوں کے بل بوتے پر بلاشبہ وہ ریٹنگ لینے کے بادشاہ تھے۔ چینلز انڈسٹری میں بس عامر لیاقت کے نام کا ڈنکا بجتا تھا ،وہ ایک ایسا پارس تھے جس نے بہت سوں کو سونا بنادیا تھا۔شیخ لیاقت حسین اور محمودہ سلطانہ کے بیٹے عامر لیاقت حسین کے اندر تخلیقی صلاحیتوں سے چھلکتی ایک بے چین روح تھی۔ڈاکٹر کے مداحین کو سب سے پہلا دھچکا تب لگا جب وہ مذہبی پروگراموں سے سے نیلام گھر جیسے پروگراموں کی طرف آگئے جو ہر قسم کے تفریحی مصالحوں سے مزین مکمل انٹرٹینمنٹ پروگرام تھے۔ایک بار پھر ڈاکٹر عامر لیاقت حسین اس طرز کے پروگراموں کے ٹرینڈ سیٹر بنے۔
سیاست میں بھی ڈاکٹر عامر لیاقت ہمہ وقت متحرک رہے ،آغازایم کیو ایم سے آغاز کیا، مشرف دور میں وزیر مملکت برائے مذہبی امور ہے، پھر پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے۔تحریک انصاف عمران خان سے جس بے تکلفی سے سے عام لیاقت حسین گفتگو کر لیتے تھے شاید پی ٹی آئی میں کوئی بھی اس بے تکلفی کا مظاہرہ نہ کرتا ہو۔ محبت اور ناراضگی ہر دو صورتوں کا اظہا کھلم کھلا کیا آخر میں پی ٹی آئی کو خیر باد کہ دیا۔ زندگی کے ہر محاذ پر عامر لیاقت حسین مختلف طرح کے تنازعات میں گھرے رہے ان کی ازدواجی بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ 20 سالہ ازدواجی زندگی کے بعد دوسری شادی نے ان کے بچوں کو باپ سے بدظن کردیا ،دوسری شادی جلد ہی تنازعات کا شکار ہوکر اختتام پذیر ہوئی تو ساتھ ہی تیسری شادی کی خبر تصویر کے ساتھ سوشل میڈیا پر دی سنہری شیروانی میں ڈاکٹر لیاقت حسین لودھراں کی اٹھارہ سالہ دلہن کے ساتھ موجود تھے۔
تیسری شادی ڈاکٹر عامر لیاقت کی زندگی کا بدترین فیصلہ ثابت ہوئی۔جو کچھ ان کی زندگی میں ہورہا تھا نہ جانے کیوں وہ اسے خود سوشل میڈیا پر شئیر کرتے ۔ ڈاکٹر عامر لیاقت کی زندگی ایک تماشا بن چکی اور سوشل میڈیا صارفین بے رحم بڑبولے تماشائی جو تبصرے کے خانوں میں بدعائیں اور نفرت لکھتے رہے۔تیسری شادی بھی اختتام کو پہنچی تنہائی اور بے بسی سے لبریز ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی زندگی قابل رحم نظر آتی۔ محبت عزت وقار میڈیا انڈسٹری کی شاندار نوکری سب کچھ اب ان کی دسترس سے باہر ہو گیا وہ اس شعر کی قبولیت کی عملی تصویر دکھائی دینے لگے یہ دل میسر و موجود سے بہلتا نہیں کوئی تو ہو جو میری دسترس سے باہر ہو۔ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی زندگی کا آخری حصہ کسی داستان کا آخری المناک باب نظر آتا ہے۔
عروج سے زوال تک کا یہ ڈاؤن فال ہمیں شیکسپیئر کے ٹریجک ہیرو کی یاد دلاتا ہے۔ ٹی وی چینلوں کی ریٹنگ بڑھانے والا بادشاہ گر محفلوں کی جان وہ جو کبھی ٹی وی چینلز انڈسٹری کا سب سے بڑا نام تھا اس بے چارگی کے عالم میں وقت کی حدود پار کر تا ہے کہ اس پاس کوئی اپنا نہیں ہوتا۔ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی اچانک موت کی خبر نے ہر فرد کو چونکا دیا افسردہ کیا اور زندگی کی بے ثباتی پر یقین اور گہرا کردیا۔ ڈاکٹر عامر لیاقت کی موت پراسرا حالات میں ہوئی اس بھید پر پردہ پڑا رہے گا۔ ایک کامیاب زندگی کا انجام بہت المناک ہوا۔یہ تحریر صرف یہ سمجھنے کی کوشش ہے کہ خواہش و خواب کے سفر میں اگر سمت درست نہ ہو تو اور سے اور کے حصول کا یہ سیلاب تباہ کن ہو تا ہے ۔خواہشوں کے سیلاب پر بھی بندھ باندھنے کی ضرورت ہے بعض اوقات بہت زیادہ ایمبیشس۔ آدمی خواہشوں کے بھنور میں ایسا گرفتار ہوتا ہے اس سے غلط فیصلے سر زد ہونے لگتے ہیں۔
ایک غلط فیصلہ پھر محض غلط فیصلہ نہیں رہتا۔ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے کیس میں ہم نے نعمتوں کے بدترین زوال کو دیکھا۔ اللہ تعالی سے ہمیشہ صحیح فیصلوں کی توفیق طلب کرتے رہیں دعا کریں کہ رب کریم ہمیں نعمتوں کے زوال سے بچائے۔ڈاکٹر عامر لیاقت حسین اللہ کے حضور پیش ہوچکے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو قبول فرمائیں اور ان کی روح کو اپنی رحمتوں میں آسودہ رکھے۔ اپنی خوبیوں اور خامیوں سمیت وہ پاکستان کی الیکٹرانک میڈیا کی تاریخ کے ناقابل فراموش کردار رہیں گے۔
تبصرہ لکھیے