رستا بستا یہ معاشرہ اجڑ کیوں رہا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ انصاف نام کی کوئی چیز نہیں۔ دعوے عمران خان نے بھی بہت کیے اور شہباز شریف توسراپا دعویٰ ہیں۔ ملک مگر پٹواریوں، تھانیداروں، غنڈوں اور ان سیاستدانوں کے ہاتھ میں تڑپ رہا ہے، جنہیں کبھی نہیں مرنا، کبھی خدا کے حضور پیش نہیں ہونا۔ آج ایک اور حادثہ ۔دھرنے کے دنوں میں دفتر میں مقید تھا۔ ایک میاں بیوی ملنے آئے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے رکنِ قومی اسمبلی صداقت عباسی کے ماموں نے ان کے پلاٹ پہ قبضہ کر کے مکان گرا دیا ہے۔در در ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں، سنتا کوئی نہیں۔ وعدہ نبھانے کے لیے ان کے ساتھ نواحِ مری کا قصد کیا۔ سب سے دلچسپ بات انہوں نے یہ بتائی کہ عمران خان سے شکایت کی گئی توصداقت عباسی کو انہوں نے طلب کیا۔ ڈانٹ ڈپٹ کی اور باز رہنے کوکہا۔ رتی برابر بھی اثر نہ ہوا۔ ان کے بقول صداقت عباسی عثمان بزدار کا نام لے کر دھمکیاں دیتے رہے۔ میاں سے، جو سرکاری ملازم ہیں‘یہ کہا: کسی دور دراز مقام پر تمہیں پھینکوا دوں گا۔ ایسا ہی ایک واقعہ پہلے رونما ہو چکا تھا، چھ ماہ جس کے لیے سرکاری افسروں سے الجھتا رہا۔
منڈی بہاؤالدین کے ایک رکنِ اسمبلی نے مری میں ایک عظیم الشان ہوٹل تعمیر کیا، اپنے فرنٹ مین کے نام پر۔ ان صاحب کا تعلق بھی پی ٹی آئی سے ہے۔ الیکشن 2018ء سے قبل شدید پریشانی کے عالم میں فون کیا: آپ جانتے ہیں کہ آزاد حیثیت سے جیت کر میں قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہوا تھا اور تحریکِ انصاف میں شامل ۔ اب وہ ٹکٹ دینے سے انکاری ہیں۔ کسی کا مقدر یاور ہو تو خیال سوجھتا ہے۔ ایک بارسوخ بزرگ سے درخواست کی۔ شام تک ٹکٹ مل گیا۔ چند برس پہلے یہ صاحب ملے تھے۔ ہوا کا رخ پہچان کر اب وہ پی ٹی آئی میں شمولیت کے آرزومند تھے۔ ان کا ہاتھ پکڑ کر عمران خان کے پاس لے گیا۔ خان صاحب نے انہیں کھانا کھلایا اور خوش آمدید کہا۔ خود میدان میں اترنے کی بجائے آئندہ الیکشن میں اپنے بھائی کو نامزد کیا۔ ناچیز سے مگر چھپائے رکھا۔ پچھلے برس ایک بزرگ ہستی کا پیغام ملا: ایک مظلوم کی مدد کی جائے۔
مری میں رہائش پذیر ایک خاتون۔ صدمے کا شکار تھیں ۔ کوہ مری اور اس کے نواح میں بلند و بالا عمارات کی تعمیر پہ پابندی ہے۔ متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر سے رابطہ کیا تو یقین اس نے دلایا کہ معاملہ قانون کے مطابق نمٹا دیا جائے گا۔ عمارت گرا دی جائے گی، پڑوسیوں کے لیے جو آزار کا باعث ہے۔ میٹھا بول منافق کا حربہ ہوتا ہے۔ جب بھی فون کرتا، تسلی دیتے۔ کبھی کوئی بہانہ تراش لیتے،’’عدالت کا حکم امتناعی ہے۔ ‘‘ہرگز کوئی حکمِ امتناعی نہ تھا۔ کوہ مری اور اس کے نوا ح میں تہہ خانہ اور دو منزلہ عمارت ہی بنائی جا سکتی ہے۔دریں اثنا خاتون کو دھمکیاں ملتی رہیں۔ گھر کا دروازہ توڑ دیا گیا۔ تعلیم یافتہ اور باہمت ہیں مگر جذباتی۔ تنگ آکر مقامی پولیس افسر کے دفتر میں جا گھسیں۔بلند آواز سے احتجاج کیا ۔
متکبر آدمی برہم ہوا اور بے چاری کو دھکے دیے۔ محترمہ نے کمال یہ کیا کہ ویڈیو بنا لی ۔کئی ماہ کی لیت و لعل سے ناچیز بھی تنگ آچکا تھا۔ چیف سیکرٹری پنجاب کامران افضل کے پاس پہنچا۔ بھلا آدمی تپاک سے پیش آیا۔ روداد سنی اور حیرت کا اظہار کیا۔ ’’تعجب ہے‘‘ انہوں نے کہا ’’کوہ مری میں چھ سات منزلہ عمارت بن کیسے سکتی ہے‘‘ بتایا: مشکوک اسسٹنٹ کمشنر کا تبادلہ ہو چکا۔ اس کی بجائے اب ڈھنگ کا ایک افسر متعین ہے۔ فون اٹھایا۔ اس سے بات کی۔ صاف اور سیدھے لہجے میں، شرفا کا جو دستور ہے، نئے اسسٹنٹ کمشنر سے انہوں نے کہا: رپورٹ بھیجئے اور انصاف یقینی بنائیے۔ شام ہونے کو آئی تھی۔ مجھے لاہور سے واپس اسلام آباد پہنچنا تھا۔ اب آئی جی پنجاب رائو سردار کو فون کیا۔
دفتر سے وہ اٹھ چکے تھے اور گھر پہنچے نہ تھے۔ آخر کار موبائل پر مل گئے۔ تفصیل بیان کی تو کہا: زحمت کی ضرورت نہیں کہ میرے پاس آئیں۔ میں ابھی اس معاملے کو نمٹائے دیتا ہوں۔ اگلی صبح متکبر پولیس افسر مظلوم خاتون کی دہلیز پہ کھڑا تھا۔ معافی مانگی اور یقین دلایا کہ غیر قانونی عمارت گرا دی جائے گی۔ جذبات میں رندھی آواز۔محترم خاتون نے فون کیا۔ وہ آسودہ تھیں اور سراپا تشکر۔ دعائیں دیں اور دل سے۔ مہینوں کی مشقت کا صلہ مل گیا؛اگرچہ کاوش زیادہ تر انہی کی تھی۔ ایک آدھ د ن میں رکن اسمبلی کے بڑے بھائی کا فون آیا،ان کی بات سننے سے میں نے انکار کر دیا۔ بولے ’’میرا اس معاملے سے کوئی تعلق تو نہیں، بس ایک وضاحت مطلوب ہے‘‘۔ چھ ماہ اس آدمی نے پریشان کیا تھا، جس کا لہجہ شیریں اور دل پتھر تھا۔
اقتدار اور پیسے کے بھوکے لوگ۔ ناجائز کاروباری سرگرمیوں کے لیے جو سیاسی پارٹیوں میں پناہ لیتے ہیں۔ ایک آدھ نہیں، سبھی سیاسی جماعتوں میں۔ کوئی ایک چینل نہیں ہے جو ملک کے سب سے بڑے پراپرٹی ٹائیکون کے سامنے جھکا نہ ہو۔ 92نیوز کے سوا، جو ایشیا کی سب سے بڑی ہاؤسنگ سوسائٹی کے اشتہارات قبول نہیں کرتا۔ہر اخبار میں اس کے کارندے ہیں اور ہر سیاسی جماعت کو چندہ دیتا ہے۔ عمران خان کے ہاں بھی اس بے تکلفی سے آیاجایا کرتا جیسے پرنسپل سیکرٹری اعظم خاں۔ پی ٹی آئی کی بربادی میں اعظم خاں کا حصہ ہے۔ خاص طور پر خان صاحب کو جہانگیر ترین سے بدگمان کرنے میں۔ انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ سمیت اہم ترین مناصب پر اپنی پسند کے لوگ آنجناب نے فائز کر رکھے تھے۔
ایک زمانہ وہ تھا کہ سات کے سات آئی جی اس کی پسند کے تھے۔1200برس پہلے برامکہ کے بعداقتدار کے ایوانوں میں ایسے کتنے ہی شاطر ابھرے۔ اکثر برے انجام کو پہنچے۔ اعظم خاں اور ان کے رفقا شادکام ہیں۔ برمکی خاندان کے ایک ایک فرد کو ہارون الرشید نے چن چن کر مروا دیا تھا۔ رکنِ قومی اسمبلی کے بڑے بھائی سے عرض کیا کہ آئندہ وہ اپنی چونچ بند رکھیں۔ پیغامات بھیجتا ہی رہا کہ اس کے پاس بڑی بڑی سنسنی خیز خبریں ہیں۔ لیڈروں اور زرداروں کو دور سے سلام کرنا چاہئیے۔ عمران خان سے مختصر سی ملاقات کے بعد، جہاں کراچی سے آئے ایک دوست نے شوکت خانم ہسپتال کے لیے ایک کروڑ روپے کا چیک پیش کیا، تین بجے شکایت کرنے والی خاتون اور ان کے اعزہ و اقربا کے ساتھ نواح مری میں اس مقام پر پہنچا، جہاں صداقت عباسی کے ماموں پانچ چھ منزلہ ہوٹل تعمیر فرما رہے ہیں۔
ایک شاہانہ عمارت۔ پٹواری تھے، شاید اب بھی ہیں۔ پٹواری بے ہنر ہو تو لکھ پتی ہوتا ہے۔ ہنر مند ہو تو کروڑ پتی بلکہ ارب پتی۔ قومی اسمبلی کی ایک آدھ نشست بھی خرید سکتا ہے۔ یا للعجب، چالیس پچاس گھروں پر مشتمل اس گاؤں میں جانے سے پٹواری کے چوکیدار نے روکا۔ ’’اپنا نام بتائیے‘‘ اس نے کہا۔ ’’گاڑی سے دور ہٹ کر کھڑے ہو جاؤ‘‘۔ ایک ڈیڑھ منٹ کی مزاحمت کے بعد وہ ہٹ گیا۔ جیسے ہی اس پلا ٹ کے پاس ہم پہنچے، وائرلیس لیے ایک دوسرا آدمی نمودار ہوا۔ ’’آپ کہاں سے آئے ہیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
اس کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کیا گیا۔ اگرچہ مسلسل وہ نام بتانے پہ اصرار کرتا اور یہ کہتا رہا’’میری ڈیوٹی ہے جناب‘‘۔ اسے بتایا کہ ہم بھی ایک فرض کی بجا آوری کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ رستا بستا یہ معاشرہ اجڑ کیوں رہا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ انصاف نام کی کوئی چیز نہیں۔ دعوے عمران خان نے بھی بہت کیے اور شہباز شریف توسراپا دعویٰ ہیں۔ ملک مگر پٹواریوں، تھانیداروں، غنڈوں اور ان سیاستدانوں کے ہاتھ میں تڑپ رہا ہے، جنہیں کبھی نہیں مرنا، کبھی خدا کے حضور پیش نہیں ہونا۔
تبصرہ لکھیے