ہوم << تعلیم یا ڈگری طعنہ کیوں - بلال ایوب بٹ

تعلیم یا ڈگری طعنہ کیوں - بلال ایوب بٹ

بلال بٹ کیا علم والے اور جاہل برابر ہیں؟ القرآن
علم کی طلب ہر مسلمان (مرد و زن) پر فرض ہے. حدیث
مزدور اللہ کا دوست ہے.حدیث.
اس آیت و احادیث اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جن لوگوں کو دنیامیں عزت و مقام عطا کیا گیا، ان میں علم والے اور محنتی(مزدور) نمایاں طبقات ہیں. آج فیس بک وال دیکھنے لگا تو سب سے پہلے جس پوسٹ پر نظر پڑی وہ میرے ایک نہایت قابل دوست کی تھی جو اعلی تعلیم یافتہ اور درمیانے درجے کے سرکاری افسر ہیں. پوسٹ کچھ یوں تھی کہ ڈگری تو ایک طعنہ ہی بن گئی ہے. ان کا مقصد شاید مزاح تھا لیکن یہ محض ایک فرد کا تجربہ یا تجزیہ نہیں بلکہ ایک اٹل حقیقت اور قومی المیہ ہے.
ہمارے معاشرے میں مسلط سودی اور سرمایہ دارانہ نظام معیشت اور تقریبا تمام سرکاری و نجی اداروں میں انتہا کی اقرباپروری اور رشوت خوری کے دور میں حقدار کو حق ملنا ناممکنات میں سے ہے. ایسے میں غریب اور متوسط گھرانوں کے نوجوان اعلی تعلیم کے لیے دن رات محنت اور اپنی بساط سے زیادہ رقم تعلیمی اخراجات کی مد میں خرچ کر کے آخرکار اعلی درجے کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، ان کے اور خاندان والوں کے دلوں میں روشن مستقبل کی بابت بڑے بڑے ارمان ہوتے ہیں. گلی محلوں میں مٹھائیاں بانٹی جاتی ہیں، شکرانے کے نوافل پڑھے جاتے ہیں. جب یہ نوجوان پرامید ہو کر بہتر روزگار کی تلاش میں نکلتے ہیں تو انھیں اور ان کےگھروالوں کو یہ یقین ہوتا ہے کہ اتنی بڑی ڈگری ہے، جاتے ہی اچھی سی نوکری مل جائے گی. مگر یہ دن تعلیم یافتہ نوجوان کی رسوائی کی شروعات کا پہلا دن ہوتا ہے جس کا ادراک کچھ ہی دنوں میں ہو جاتا ہے. وہ ایک سے ایک، اچھے سے اچھے ادارے میں جاتا، انٹرویو دیتا ہے اور وہاں سے مطمئن ہو کر خوشی خوشی پرامید گھر آتا ہے اور گھر والوں کو تسلیاں دیتا اور پھر ان سب نوکریوں کی فائنل کال کا انتظار کرنے لگتا ہے. انتظار کے لیے دی گئی آخری تاریخ گزرنے پر جب دوبارہ رابطہ کرتا ہے تو کہیں سے بھی تسلی بخش جواب نہ پاکر کچھ ناامیدی شروع ہوجاتی ہے. ادھر گلی محلے جنھوں نے مٹھائی کھائی تھی، مٹھائی ہضم ہوتے ہی سوالات شروع کر دیتے ہیں کہ بیٹا اتنی بڑی ڈگری لے لی ہے، کوئی نوکری ملی یا نہیں؟ نوجوان اس تمام صورتحال میں عجیب شش و پنج میں مبتلا ہو جاتا ہے. اسے گھر میں چین آتا ہے نہ دوستوں کی صحبت پسند آتی ہے، اور اس کی حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ باہر نکلتے کسی بھی جاننے والے سے سامنا نہ ہو. ورنہ پھر وہی چبھتے سوال.
کچھ عرصے کے بعد نوجوان یہ سوچ کر کہ 'ہمت مرداں مدد خدا' پھر کہیں روزگار کی تلاش میں نکل پڑتا ہے. نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ چلو ڈگری کے مطابق نہ سہی چھوٹے درجے کا ہی کوئی اچھا روزگار مل جائے. نجی اداروں میں پہلے سے موجود تعلیم یافتہ نوجوان کا استحصال دیکھ یہ نوجوان پھر مایوس ہوجاتا ہے. اب وقت شروع ہوتا ہے طعنوں کا. کچھ عرصے تک نوجوان کو بےروزگار دیکھ کر ہر جاننے والا تقریبا یہی طعنہ دیتا دکھائی دے گا کہ '' کی فائدہ اینی پڑھائی دا جدوں کوئی نوکری ای نئی لبھدی'' یا اگر کسی سے کوئی بحث چل پڑے تو اگلے کا آخری وار یہ ہوگا '' توں پڑھ تے کیڑھا افسر لگ گیا ایں'' اور بعض دفعہ یہ طعنہ سننے کو ملتا ہے کہ '' تیرے نالوں تے ان پڑھ مزدور چنگے جیڑے ٹھیک ٹھاک پیسے کماندے نے پے''.
ہماری معاشرتی سوچ یہی ہے کہ تعلیم کا اصل مقصد اچھی نوکری کا حصول یا دنیاوی ٹھاٹهہ باٹھ ہے. معاشرے میں یہ سوچ ناپید ہے کہ تعلیم انسان کے لیے دنیا وآخرت دونوں کے لیے ضروری ہے اور یہ انسان کی تربیت، اصلاح، بہتری، ترقی اور فلاح کا نام ہے. زمانے کے ان نہ تھمنے والے طعنوں کے طوفان سے نمٹنے میں ناکامی پر ایسے نوجوان دلبرداشتہ ہو کر منفی رجحانات کی طرف مائل ہونا شروع ہو جاتے ہیں. کچھ نوجوان مثبت اور تعمیری سوچ کے ساتھ '' محنت میں عظمت'' کا نعرہ لگا کر دفتروں، نوکریوں کے علاوہ کوئی بھی کام کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کر لیتے ہیں، اور کہیں مزدوری کرنے لگ جاتے ہیں. مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اللہ کے دوست (مزدور) کو کمی کمین کہا جاتا ہے. حالانکہ اسلامی معاشرے میں مزدور کی عزت اور وقار ان دفتری نوکریوں سے کہیں بڑھ کر ہے. خیر نوجوان دل لگا کر مزدوری کرنے لگتا ہے تو ظالم معاشرے کے طعنے اس کا یہاں بھی پیچھا نہیں چھوڑتے. اکثر یہ کہتے دکھائی دیں گے کہ ''جے ایہناں پڑھ کے وی مزدوری کرنی سی تے گھر والیاں دے پیسے تے اپنا وقت کیوں پڑھائی وچ برباد کر دتا ای''.
اس تمام صورتحال کے بعد بعض اوقات پڑھا لکھا نوجوان بھی یہ سوچنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ "واقعی اگر میں پڑھائی کی جگہ کچھ اور کام کر لیتا تو زیادہ بہتر ہوتا". اور بعض اوقات اتنا مایوس اور دلبرداشتہ ہو جاتا ہے کہ اپنی اسناد کو " آگ"" تک لگا دیتا ہے. حالانکہ ان چند طعنے والی سرکاروں کے علاوہ بہت سے لوگ اس نوجوان کی عزت عام آدمی کی نسبت زیادہ کرتے ہیں اور سبب صرف تعلیم. چاہے یہ نوجوان مزدوری ہی کیوں نہ کر رہا ہو. ایک اور حقیقت یہ بھی ہے کہ پڑھے لکھے نوجوان کو جو عزت ادنی طبقہ دیتا ہے، ویسی عزت اعلی طبقہ، دفتری شان و شوکت والی نوکری میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. '' اللہ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے. القرآن ''
ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے میں اسلامی تعلیمات عام کی جائیں تاکہ زندگی کے اصل مقصد کو روشناس کرایا جائے اور معاشرے کے ناسور مادہ پرستی کی بیخ کنی کی جائے، کیونکہ مادہ پرستی کی بدولت معاشرہ ہر علم اور ہر عمل کو مادی فوائد میں جانچتا اور پرکھتا ہے. تعلیم یافتہ لوگ یہ عہد کریں کہ بے شک مال و دولت کا حصول زندگی کی اہم ضرورت ہے. لیکن معاشرے کے چند نادان سرپھروں کے طعنوں کی زد میں آ کر اپنی تعلیم پر شرم محسوس نہ کریں کیونکہ یہ سوچ دین کی اس ہدایت کے خلاف ہے کہ ''اے ایمان والو! اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو. القران''. انسانی زندگی کے لیے جس طرح خوراک ناگزیر ہے اسی طرح تعلیم اور مذہب ہے. مذہب سے لگاؤ انسان کی روحانی تسکین کا ذریعہ ہے. اگر روح مطمئن ہو تو دنیاوی اغراض ہماری زندگی کو پیچیدہ یا مشکل نہیں بنا سکتیں. تعلیم کو معاشرے کی بہتری میں جس حد تک ہو استعمال کریں. اس کے لیے ہمیں کسی خاص پلیٹ فارم یا کسی عہدے کی ضرورت نہیں. چاہے ہم مزدوری کریں، نوکری کریں، کاروبار کریں، ہمارا مقصد معاشرے کی فلاح اور بہتری ہونا چاہیے، اور نفع بخش علم انسان کےلیے باعث عزت و فخر ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی. ان شاء اللہ

Comments

Click here to post a comment