نئی دہلی کے محلے کھجوری خاص میں ایک عورت نے اپنی 5 سالہ بچی کو عین دوپہر کے وقت چھت پر باندھ دیا۔ 45 درجے کی گرم چھت کتنی گرم ہو گی۔ پڑوس میں کسی نے یہ منظر دیکھا اور وڈیو بنا کر وائرل کر دی۔
وڈیو میں بچی بری طرح تڑپتی، چیختی اور خود کو ننگے فرش کی رسیوں سے چھڑانے کی کوشش کرتی نظر آ رہی ہے۔ پولیس تک یہ وڈیو پہنچی تو اس نے تلاش کر کے خاتون کو گرفتار کر لیا۔ خاتون نے بتایا کہ بچی نے سکول کا ہوم ورک نہیں کیا تھا جس پر محض پانچ سات منٹ کے لئے اسے سزا دی ۔ محض پانچ منٹ کے لئے گویا تپتے توے پر لٹا دیا۔بچی کا معائنہ کیا گیا تو اس کی پشت کی کھال بری طرح جلی ہوئی تھی۔
ماں کی بات بعد میں! پہلے یہ بے حسی دیکھئے کہ وڈیو بنانے والے نے پولیس کو اطلاع دی نہ محلے میں کسی سے کہا کہ بچی کو بچایا جائے بلکہ سوشل میڈیا پر ڈال دیا۔ یعنی ’’گلٹی پلئیر‘‘ (مجرمانہ کشید لذّت) کا تقاضا پورا کیا۔ پولیس تک وڈیو تب پہنچی جب وہ وائرل ہو چکی تھی۔ بہرحال، یہ بچی جس ٹراما سے گزری، وہ ایک مدّت تک آسیب کی طرح اس کے ساتھ رہے گا۔
فطرت کی تقسیم کچھ اس طرح سے ہے کہ عورت بالعموم مرد کے مقابلے میں تین گنا زیادہ رحم دل اور اتنی ہی زیادہ رقیق القلب ہوتی ہے لیکن جس طرح بعض مرد نرم دلی اور رقت قلبی کے حوالے سے عورتوں کو مات دے جاتے ہیں، اسی طرح کچھ عورتیں بھی بے رحمی اور بے حسی میں مردوں کے کان کاٹتی ہیں۔ کئی سال ہوئے، ملتان کے ایک علاقے کی خبر آئی تھی جہاں ایک ماں نے اپنے بیٹے کو چارپائی کے ساتھ باندھ کر لاٹھی سے اسے اتنا پیٹا کہ وہ مر گیا۔ نو سال اس کی عمر تھی۔ پچھلے سال بھارت کی ایک وڈیو آئی جس میں ایک 80,75 سالہ دادی نے اپنی سات سالہ پوتی کو بری طرح مارا۔ لاٹھی سے کوئی سو سے زیادہ وار کئے۔ یہ معجزہ ہی تھا کہ بچی زندہ بچ گئی لیکن حالت اس کی مُردوں سے بھی بدتر تھی۔ یہ سارا واقعہ پڑوس نے موبائل پر فلم بند کر لیا لیکن اس نے دادی کا ہاتھ روکنے کی کوشش نہیں کی۔
موبائل اور سی سی ٹی وی ٹیکنیک نے یہ کرم معاشرے پر کیا ہے کہ ظلم اور اذیت رسانی کے بہت سے واقعات قانون کی نظر میں آ جاتے ہیں۔ کچھ مظلوموں کو رہائی مل جاتی ہے، کچھ کو بعدازمرگ انصاف بھی مل جاتا ہے لیکن نہ جانے، اب بھی کتنے ظلم ایسے ڈھائے جاتے ہوں گے جو کیمرے کی آنکھ سے اوجھل ہی رہ جاتے ہوں گے اور اسی پر زمانہ ماقبل ازموبائل کیمرہ کا بھی قیاس ماپا جا سکتا ہے۔
زیر تبصرہ واقعے میں ظلم کا نشانہ بچی تھی۔ بچوں پر تشدد اور زیادتی کے واقعات فی زمانہ حیران کن حد تک بڑھ گئے ہیں اور ’’قدرتی تقسیم‘‘ کہہ لیجئے یا انسان کے ظلوماً و جہولا‘‘ ہونے کا ثبوت کہ ان بچوں میں زیادہ تعداد بچیوں کی ہوتی ہے، برا نہ منائیے تو یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ اس میں کچھ یا کچھ سے زیادہ عمل دخل ہماری ’’مشرقی تہذیب‘‘ کا بھی ہے۔ ہم اپنی اس مشرقی تہذیب کے تقدس کے اتنے قائل ہیں کہ تہذیب مغرب کی ناپائیداری پر طعنہ زنی کر کے خود فریبی کے تقاضے پورے کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ سچ مگر برعکس ہے اور وہ یہ کہ مشرقی تہذیب میں عورت درجہ دوئم کی شہری ہے۔ یہ بات بالعموم کے ضمن میں ہے، استثنیٰ کو بالخصوص کے درجے میں رکھا جانا چاہیے۔
ہمارے گھرانوں میں بالعموم بچیاں بعد میں، پہلے بچے کھانا کھاتے ہیں۔ بچوں کی فرمائش کو ترجیح دی جاتی ہے۔ قرآن پاک کے الفاظ ہیں، کسی کو پتہ چلے کہ وہ بچی کا باپ بن گیا ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے۔ پھر زندگی بھر وہ ذمہ داری بلکہ بوجھ بنی رہتی ہے۔ عرب معاشرے میں لوگ بچیوں کو زندہ گاڑ دیتے تھے۔ عرب میں تو بڑی حد تک اصلاح ہو گئی، برصغیر کی ’’مقدس مشرقی تہذیب‘‘ بدستور انسانی قدروں سے نوری سالوں کی دوری پر ہے۔ پاکستان ہو یا بھارت، ہندو ہوں یا مسلمان، کم جہیز لانے والی دلہن کے ساتھ یکساں سلوک ہوتا ہے۔
وہ زندہ جل جاتی ہے، پنکھے سے ازخود لٹک جاتی ہے یا کسی بھی دوسرے طریقے سے غیر قدرتی موت کا شکار ہو جاتی ہے۔ یہاں بچیوں کے نکاح قرآن پاک سے کر دئیے جاتے ہیں تو بھارت میں جائیداد بچانے کیلئے اپنی بچیوں کو مندر کی داسی بنا دیا جاتا ہے۔ عورت گلی میں جھانکے تو ’’کاری‘‘ ہے، پھر اس کی جان لینے کا حق محض اس کے ماں باپ ہی کو نہیں، اس کا چچا، ماموں، کزن حتیٰ کہ دیور بھی اس حق م یں برابر کا حق دار ہے۔ کتنے ہی واقعات ہیں جن میں بیٹوں نے غیرت کے نام پر اپنی مائوں کو قتل کر دیا ہے۔ بچی پیدا ہو جائے تو ماں کو مار دیا جاتا ہے۔ بعض ’’رحم دل‘‘ شوہر البتہ ایک موقع اور دیتے ہیں، یہ الٹی میٹم دے کر کہ اس بار تو ہوا جو ہوا، اگلی بار بھی بیٹی پیدا کی تو تمہیں مار دیا جائیگا۔ پھر وہ یہ عہد نبھاتے بھی ہیں۔
معاشرہ بدل رہا ہے، بچیوں کے ساتھ مساوی سلوک کرنے والے گھرانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن بڑھنے کی یہ رفتار ابھی کچھوے سے بھی پیچھے ہے۔ میں نے یوٹیوب پر کئی ایسی وڈیوز دیکھی ہیں جن میں علما یہ بتاتے ہیں کہ کس طرح عورت کو جائیداد میں اس کے حصے سے محروم رکھنے کے لیے لوگ ان سے ’’حیلہ‘‘ مانگتے ہیں۔ یعنی خدا کے خوف کا خیال ہے، اس لیے حیلہ چاہیے۔ خدا سے حیلہ؟؟
مغربی تہذیب میں عریانی کا عنصر نکال دیجئے اور کارپوریٹ سیکٹر کے استحصالی ہتھکنڈوں کو بھی (کہ وہ معاشرے کا حصہ ہیں نہ تہذیب کا، وہ ’’ریاست‘‘ کا مسلط کردہ عنصر ہے) تو پتہ چلے گا کہ اصل میں یہی وہ آشیانہ ہے جو مضبوط شاخوں پر پائیداری کے ساتھ استوار ہے۔ سنگین جرائم، عورتوں اور بچوں بلکہ ہر کمزور کا قتل وہاں بھی ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں کے مقابلے میں کم اور وہاں دادرسی کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ یہاں تو قتل کے مقدمے چلتے ہی نہیں، چلتے ہیں تو بالآخر مجرم بری ہو جاتے ہیں اور بے گناہ پھانسی پر لٹک جاتے ہیں۔ کل ہی کی خبر ہے، دو بے گناہ سگے بھائی ، پھانسی کے تختے پر لٹکنے کے دس سال بعد عدالت سے بری قرار پائے۔
اسلام اور دوسرے الہامی مذاہب میں عورت مرد، پہلے اور بچی کی جان ایک برابر ہے اور حقوق بھی ایک جیسے لیکن ہمارے ہاں اس کی نفی ہے۔ پیرس اور نیویارک میں اکیلی عورت آدھی رات کو کہیں کا بھی سفر کر سکتی ہے، کیا ہمارے ہاں بھی ایسا ہے؟
تبصرہ لکھیے