اس سے نفرت تھی، محبت تھی کہ بے زاری تھی
کوئی مر جائے اچانک تو پتا لگتا ہے
(جاوید صبا)
ہمارے ہاں ایک نظریہ یہ ہے کہ جب کوئی مر جائے تو اس کی برائیوں کو نظرانداز کرو اور اس کا ذکر کرو تو اچھے سے ورنہ سکوت اختیار کرو۔دوسرا نظریہ یہ ہے کہ زندگی میں اگر آپ کسی شخص کو محض سیاہ و سفید کی عینک سے دیکھنے کے عادی ہیں تو اس کی موت کے بعد بس اتنا کریں کہ اچھائیوں اور برائیوں کا مساویانہ بیان کریں تاکہ ایک حقیقی تصویر اجاگر ہو سکے۔
کیونکہ کوئی بھی عام انسان نہ تو مجسم فرشتہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی مجسم شیطان۔ہم سب میں بشری کمزوریاں بھی ہیں اور خوبیاں بھی۔اور مرنے کے بعد جب تذکرہ کیا جائے تو مندرجہ بالا دونوں عناصر پیشِ نظر رہنے چاہئیں۔
جب کوئی مرتا ہے تو عموماً دو طرح کے فوری ردِ عمل سامنے آتے ہیں۔زیادہ تر لوگ اپنے ذہنی تحفظات کے باوجود مرنے والے کو اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں اور کچھ لوگ اس کی بشری برائیوں کو بطورِ خاص اجاگر کرتے ہیں۔جو شخصیت جتنی اثر دار ، معروف یا چمکیلی ہو اس کے بارے میں یہ دونوں رجحانات اور کھل کے سامنے آتے ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ کچھ لوگ کسی کی موت پر مٹھائیاں تک بانٹتے ہیں اور کچھ لوگ اسی شخصیت کو بقول منٹو علیہہ رحمہ کی کھونٹی پر ٹانکنے میں دیر نہیں لگاتے۔
جو لوگ اس نظریے کے حامی ہیں کہ مرنے کے بعد کسی کو برا نہ کہو کیونکہ اب معاملہ انسان اور انسان کے درمیان نہیں بلکہ بندے اور اوپر والے کے درمیان ہے اور وہی فیصلہ کرے گا کہ یہ انسان کتنا گناہ گار ہے یا نہیں۔لہٰذا مرنے والے کے بارے میں حتمی رائے کا آسمانی اختیار استعمال کرنے سے گریز کیا جائے۔
مگر اس نظریے کو رد کرنے والے دلیل دیتے ہیں کہ اگر اس اصول کو کسوٹی مان لیا جائے تو پھر چنگیز خان ، ہلاکو ، ہٹلر ، مسولینی ، پول پاٹ ، یزید اور چاؤ شسکو کو بھی کیوں نہ اچھے انداز سے یاد کیا جائے۔ان پر یہ کلیہ کیوں لاگو نہیں کیا جاتا۔
اور جو لوگ اس نظریے کے حامی ہیں کہ اگر مرنے والے کا شخصی تجزیہ ہی مقصود ہے تو پھر ذاتی بغض یا محبت کو پرے رکھ کے اس کی بشری خامیوں اور اچھائیوں کا جائزہ لیا جائے۔مگر اس نظریے سے نہ اتفاق کرنے والے دلیل دیتے ہیں کہ اگر غیر جانبدارانہ تجزیے کا کلیہ ہر بشر پر لاگو کرنے کی کوشش کی جائے اور کچھ استثنیات و تحفظات کو ملحوظِ نہ رکھا جائے تو سماج میں مزید خلیج اور فساد بڑھ سکتا ہے۔چنانچہ عمومی خیر کی خاطر غیرجانبداری برتنے والے کلیے کا صد فیصد انطباق ممکن نہیں۔
اور تیسرا نظریہ وہی ہے جو اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ ہم کون ہوتے ہیں مرنے والے کے عیوب و فضائیل اپنی رائے کے ترازو میں تولنے والے۔ہم تو خود مجموعہِ اضداد ہیں۔لہٰذا بہتر یہی ہے کہ سکوت اختیار کیا جائے اور اپنے گریبان میں جھانکنے پر زیادہ توجہ دی جائے۔
میری اپنی ادنیٰ سی رائے یہ ہے کہ کسی بھی آنجہانی یا مرحوم یا مرحومہ کے بارے میں ہماری کوئی بھی مثبت یا منفی رائے ہو سکتی ہے لیکن جیسے جیسے وقت گذرتا جاتا ہے وہ اس شخصیت کے اصل خد و خال پر پڑی نفرت یا عقیدت کی دھند صاف کرتا چلا جاتا ہے۔ آئینہ جس قدر فاصلے پر ہو گا اتنا ہی بڑا منظر دکھا پائے گا۔
لہٰذا آنے والی نسلیں اس شخصیت کو وقت کے آئینے میں پرکھنے کی زیادہ بہتر پوزیشن میں ہوتی ہیں۔ انھیں تحقیق کا وہ اوزار دستیاب ہوتا ہے جس کے استعمال سے غلو اور حقیقت کو زیادہ بہتر انداز میں غیر جذباتی طریقے سے الگ الگ کیا جا سکتا ہے۔
یہاں آپ یہ اعتراض بھی اٹھا سکتے ہیں کہ مورخ بھی تو متعصب ہو سکتا ہے ، کسی درباری و عقیدتی دباؤ میں آ کر ڈنڈی مار سکتا ہے اور ضروری نہیں کہ وہ پورا آئینہ اور اس آئینے میں بننے والی واضح تصویر دکھا پائے اور پھر اس تصویر کی ایک معروضی و عقلی شرح بھی شرحِ صدر کے ساتھ کر سکے۔
یہ خدشہ اپنی جگہ درست ہے۔مگر کاغذ قلم و دستار سے مزین روایتی مورخ سے بھی طاقتور وہ گمنام مورخ ہے جو نسل در نسل سینہ بسینہ ضرب المثال ، لوک داستانوں اور گیتوں کی شکل میں سفر کرتا رہتا ہے۔ اصل تاریخ اسی سینہ بسینہ خزانے میں کہیں پوشیدہ ہوتی ہے۔بس ایک ماہر جوہری درکار ہے جو کھوٹ اور کھرے پن کو ایک عام سے نیم خواندہ کے لیے بھی آسان بنانے کی خاطر الگ الگ کر پائے۔
مثلاً احمد شاہ ابدالی بھلے افغانوں کا ہیرو ہو اور اسے ایک بکھری ہوئی ریاست کو ایک متحد ملک میں ڈھالنے کا کریڈٹ جاتا ہو لیکن افغانستان سے باہر اسے کیسے دیکھا جاتا ہے ؟ اس کے لیے پنجاب کے حافظے میں پیوست نسل در نسل سفر کرنے والے ایک محاورے کے کوزے میں پورا دریا دیکھا جا سکتا ہے۔
’’ کھادا پیتا واہے دا باقی احمد شاہے دا ‘‘( جو تم نے کھا پی لیا وہی تمہارا ہے باقی تو احمد شاہ لوٹ لے گا )۔ نوشیرواں میں بہت سی بشری کمزوریاں ہوں گی مگر ہم تک سینہ بسینہ وقت کی چھلنی سے چھن چھنا کر بس ایک ہی بات پہنچ سکی یعنی نوشیرواں عادل۔ حجاج بن یوسف نے یقیناً قرآنِ کریم کی آسان قرات کے لیے اعراب لگانے کا احسان کیا۔
مگر ہم تک حجاج ظلم کے استعارے اور کعبے پر سنگ باری کرنے والے عمل دار کے طور پر ہی سینہ بسینہ پہنچا اور دستیاب تواریخ و روایات بھی اس سینہ بسینگی کی توثیق کرتی ہیں۔ہم لوگ مرنے والے کی عظمت بیان کرنے کے لیے اسے بھی کسوٹی مانتے ہیں کہ دیکھو اس کا جنازہ کتنا بڑا تھا یا اس کے جنازے میں کتنے کم لوگ تھے۔ اگر یہ کسوٹی عظمت کی دلیل ہے تو پھر ضیا الحق کے جنازے میں دس لاکھ اور ذوالفقار علی بھٹو کے جنازے میں بشمکل دس لوگ تھے۔ اب اس کا کیا کریں ؟
تبصرہ لکھیے