مجھے ذاتی طور پر اعزاز سید سے کوئی مسئلہ نہیں۔ ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی، فیس بک پر ایڈ ہیں شاید۔ اعزاز سید اچھے صحافی ہیں، رپورٹنگ سے وابستہ رہے ہیں، خبر کھوج نکالتے ہیں، ان میں خبر تک پانے کا تجسس بھی ہے۔ محنتی بھی ہیں۔ کالم بھی وہ لکھتے ہیں، مگر کالم پر شاید محنت زیادہ نہیں کرتے،اس لیے تحریر میں چاشنی اور دلچسپی نہیں، رپورٹروں کے مخصوص ڈائری نما کالم کی طرح۔ اعزاز کی تحریریں پڑھنے اور خبریں دیکھنے سے اندازہ ہوا کہ کئی امور پر ان کی اپنی مخصوص آرا ہیں، پچھلے چند برسوں میں وہ ایک خاص قسم کی سیاسی عصبیت اور اینٹی عمران فیلنگز کے اسیر بھی رہے ہیں۔ اس کا ایک نقصان اینگلنگ کی صورت میں نکلتا ہے۔
خیر ایسا بھی ہوجاتا ہے۔ صحافی اپنی کچھ آرا رکھتے اور ان کو آگے بڑھاتے ہیں، عصبیت بھی کہیں نہ کہیں دبوچ ہی لیتی ہے۔ توازن برقرار نہ رہنا نامناسب اورغلط ہے، مگر یہ باعث تنقید ہے، باعث مذمت نہیں۔
اعزاز سید کی رپورٹنگ میں سب سے بھدا، نامناسب، برا اور صحافتی اعتبار سے غلط طریقہ غیر ضروری جارحانہ انداز میں مائیک منہ میں ٹھونسنا ہے۔ جس طرح وہ کرتے ہیں، وہ صحافت نہیں اور نہ ہی کوئی اچھا رپورٹر ایسا کرتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ کسی رپورٹر کو ایسا کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔
ایسا پہلی بار میں نے جنرل علی جان اورکزئی کی ویڈیو میں دیکھا۔ ہمارے ممدوح رپورٹر نے جنرل علی جان سے سوال پوچھا، انہوں نے جواب نہیں دیا ، سوال دہرایا تو انہوں نے نو کمنٹ کہا۔ وہاں پر صحافی کو رک جانا چاہیے تھا کہ یہی صحافتی اخلاقیات، ضابطہ اور طریقہ کار ہے۔ اس کے بجائے اعزاز سید نے اپنے کیمرہ مین کو ساتھ لیا اور باقاعدہ جنرل کے پیچھے دوڑنا شروع کر دیا۔ وہ غریب انکار میں سر ہلاتے اپنی گاڑی کی طرف تیز قدموں سے چل پڑے ۔ یہ پیچھے بھاگ بھاگ کر احمقانہ انداز میں سوال دہراتا رہے۔ یہ سب نہایت بھدا، فضول، احمقانہ، بچکانہ اور نان سینس لگ رہا تھا۔ بدقسمتی سے یہ سلسلہ جاری رہا۔ اسلم بیگ کے ساتھ ایسا ہوا اور شائد کئی اور لوگوں کے ساتھ بھی۔ افسوس کسی نے نوجوان رپورٹر کو نہیں سمجھایا اور بتایا کہ یہ کوئی طریقہ نہیں۔ ممکن ہے بتایا ہو مگر اپنے جوش وخروش اور سوشل میڈیائی جہادی جذبے سے سرشار ہو کر اعزاز سید نے اسے اپنا حصہ بنا لیا۔
کل پھر ایسا کرتے دیکھا۔ وہاں بھی اسی فضول انداز میں منہ میں مائیک ٹھونسنے کی کوشش کی گئی۔ ایک بندہ آپ سے بات نہیں کرنا چاہتا، آپ کے سوال کا جواب نہیں دینا چاہتا، یہ اس کا حق ہے۔ آپ کون ہوتے ہو اس پر جبر کرنے والے، اس کو ہراساں کرنے والے ۔ جی یہ ہراسانی ہی ہے۔
پھر سوال نہایت بچکانہ اور بیکار۔ اگر کوئی بندہ ملک کے خراب معاشی حالات کی بات کرے تو کیا اسے یہ سوال اٹھانے سے پہلے اپنی جائیداد بیچ کر سرکاری خزانہ میں جمع کرا دینی چاہیے۔ یہ کیا نان سینس ہے؟
سب سے زیادہ رونا تو صحافی ڈالتے ہیں ۔ کیا ان سے یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ صحافی کالونی میں اپنے پلاٹ کو بیچ کر حکومت کو تحفہ میں دے دین، اپنی قسطوں پر لی یا خریدی ہوئی گاڑی بیچ دیں اور خود کھوتا گاڑی چلایا کریں؟
یہ سوال بھی عجیب تھا کہ آپ کے دور مین دو مئی ہوا ۔ تو کیا دو مئی جب ہوا ، تب وہ شخص اکیلا اس ملک میں رہتا تھا؟
اس ملک پر تب ایک منتخب سویلین حکومت تھی۔ ملک کے صدر نے امریکی صدر کو اس آپریشن پر باقاعدہ مبارک باد دی تھی۔ وزیراعظم نے بھی۔ کیا اعزاز سید یہ جرات کر سکتا ہے کہ آصف زرداری سے یہ سوال کرے؟ کیا وہ آصف زرداری صاحب کے منہ میں یوں مائیک ٹھونس سکتا ہے ؟ زرداری صاحب اگر نو کمنٹس کہیں یا جواب نہ دیں یا کہیں کہ کوئی اور بات کریں تو کیا اعزاز سید یا کوئی اور رپورٹر اپنا مائیک لے کر ان پر چڑھائی کر سکتا ہے کہ نہیں جواب دو، جواب دو۔ وہ جواب دیے بغیر چل پڑیں تو یہ مجاہد پیچھے بھاگ بھاگ کر مائیک آگے کرے کہ نہیں جواب دو۔ کیا اعزاز سید ایسا کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ وہ جانتا ہے کہ ایسا کیا تو جواب میں کیا بھگتنا پڑے گا۔ پہلے تو زرداری صاحب کے ساتھ موجود لوگ اور کارکن ہی تھوبڑا سیدھا کر دیں گے۔ اس کے بعد بھی بہت کچھ ہوگا۔
کیا اعزاز سید میاں نواز شریف سے ایسا کرنے کی ہمت کر سکتا تھا؟ نہیں ہرگز نہیں ۔ کیا اعزاز سید میاں شہباز شریف جو وزیراعظم ہیں، ان سے ایسا کرنے کی ہمت کر سکتا ہے؟ شہباز شریف جواب نہ دے تو یہ چڑھائی کر دے، انہیں کہے کہ جاتی عمرہ کی زمین بیچ ڈالو بیت المال میں جمع کراؤ، میرے سوال کا جواب دو ہر حال میں ، وغیرہ وغیرہ۔ کیا یہ ایسا کر سکتا ہے؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں کر سکتا۔ کیا اعزاز سید مریم نواز شریف سے اس انداز میں سوال پوچھ سکتا ہے؟ چلیں مریم نواز چھوڑیں مریم اورنگ زیب سے یوں سوال کر سکتا ہے؟
کیا اعزاز سید مولانافضل الرحمن کے ساتھ ایسا کر سکتا ہے؟ مولانا کو یوں ہراساں کر سکتا ہے؟ ان کے منہ میں مائیک ٹھونس سکتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ اسے معلوم ہے کہ اس کے ساتھ تب کیا ہوگا؟ مولانا کے کارکن کس طرح اس کا دماغ درست کر دیں گے۔
کیا اعزاز سید کسی بلوچ ، پشتون سردار کے ساتھ ایسا کر سکتا ہے؟ کیا وہ محمود خان اچکزئی سے یہ سوال یوں کر سکتا ہے، یوں چڑھائی کر سکتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ کیا اعزاز سید اسفند یار ولی سے یوں بات کر سکتا ہے؟ یوں چڑھائی کر سکتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ کیا یہ شاہ زین بگٹی سے یوں سوال کر سکتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ کیا یہ ذولفقار مرزا یا پیر صاحب پگاڑا سے یوں سوال کر سکتا ہے؟ نہیں ہرگز نہیں۔ تو پھر اعزاز سید کی جرات صرف کسی ریٹائر ستر سالہ فوجی افسر کو دیکھ کر ہی کیوں بیدار ہوتی ہے؟ کیا اس میں اتنی جرات ہے کہ کسی حاضر سروس جرنیل سے ایسا سوال کر سکے ؟ اس کا جواب ہمیں معلوم ہی ہے۔
یہ تو رہی جرات اور دلیری کی بات۔ ثابت ہوا کہ رپورٹر کی جرات صرف کمزور، بے سہارا اور ریٹائر فرد واحد کو دیکھ کر بیدار ہوتی ہے ۔ اسے معلوم ہے کہ اس کی مدد کو کوئی نہیں آئے گا۔ اس کی اولاد ہی ساتھ نہین ، ورنہ وہ اپنے بوڑھے باپ کی بے عزتی پر رپورٹر کے کھنے سینک دے ۔
اب بات ہے صحافتی اخلاقیات، آداب اور طور طریقوں کی۔ مجھے صحافت میں اعزاز سید سے زیادہ وقت ہوگیا ہوگا۔ ستائیس برس ہوچکے۔ پاکستان کے چار سب سے بڑے اردو اخبارات، جنگ، ایکسپریس، دنیا، نائنٹی ٹونیوز میں کام کر چکا ہون۔ میں نے کسی رپورٹر کو ایسے فضول انداز میں سوال کرتے نہیں دیکھا۔ ہم نے خود بہت سے انٹرویوز میگزین کے لئے کئے، ایک کتاب زیرطبع ہے ۔ انٹرویو نگاری میں صحافت کے بڑے بڑے ناموں کو پڑھا ہے، الطاف حسن قریشی سے سہیل وڑائچ تک، کسی کو ایسا کرتے نہیں دیکھا ۔
ہم نے دنیا بھر کے بہت سے نامی گرامی صحافیوں کو پڑھا، انہیں سنا۔ نوم چومسکی، ایڈورڈ سعید، البرٹ مائیکل جیسے مزاحمتی سوچ رکھنے والے لکھاریوں کو پڑھا، اقبال احمد کو پڑھا، رابرٹ فسک جیسے صحافی کو برسوں پڑھا۔ ایرک مارگولس کو پڑھا۔ اروندھتی رائے جیسے بے باک لکھنے والی کو پڑھا، سنا۔
لیری کنگ کے بے شمار انٹرویوز سنے، فرید زکریا کے پروگرام ، انٹرویوز سنے، ڈیوڈ فراسٹ کے انٹرویوز سنے پڑھے۔ اوریانہ فلاچی کے انٹرویوز کی شہرہ آفاق کتاب پڑھی، اس کے بہت سے آرٹیکلز پڑھے۔ رپورٹنگ پر کئی عالمی پایہ کی کتابیں ، جرنل پڑھے۔ کرن تھاپر، برکھا دت کے تیکھے نوکیلے سوال دیکھے، سنے۔ مگر کہیں پر اعزاز سید والا انداز نہیں پایا۔ کہیں پر یہ نہیں پایا کہ ایسے انداز میں سوال پوچھے جائیں۔ سوال پوچھنا صحافی کا حق ہے، مگر جواب نہ دینا بھی ہر ایک کا حق ہے۔
نوکمنٹس صحافتی روایات مین ایک بہت مضبوط اور واضح چیز ہے۔ جب کوئی شخص سوال کا جواب نہیں دینا چاہتا تو آپ کو رک جانا چاہیے ، آپ کو اس کا پیچھا نہیں کرنا چاہیے، اس کی تذلیل کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
یہ صحافت نہیں، یہ بدمعاشی ہے، غنڈہ گردی ہے، جہالت ہے، تکبر ہے۔ یہ سب کچھ ہوسکتا ہے، صحافت یا رپورٹنگ نہیں۔ میں بطور ایک صحافی، اس سب کچھ سے برات کا اعلان کرتا ہوں۔ یہ صحافت نہیں، صحافی ایسا نہیں کرتے۔ براہ کرم اس امر پر تنقید کرتے ہوئے صحافت کو تنقیدکا نشانہ نہ بنائیے۔ یہ اعزاز سید کا انفرادی فعل ہے۔ اس کی غلطی ہے۔
نوٹ: یہ واضح رہے کہ اس ریٹائر فوجی افسر نے یہ بات غلط کہی کہ تم اپنے جنازے کا انتظام کرو۔ یہ ایک نہایت فضول اوربیکار جملہ تھا۔ اگر وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ تم اپنی آخرت کی فکر کرو، ہر ایک نے قبرمیں جانا ہے وغیرہ تو اس کا اظہار یوں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اگر اس میں کوئی دھمکی پوشیدہ ہے تو اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ کسی کو ایسی دھمکی کا حق نہیں۔ البتہ ایسی ہراسانی پر کوئی بدزبانی یا رپورٹر پر دشنام طرازی پر اتر آئے تو وہ اس کا اور رپورٹر کا معاملہ ہے، رپورٹر ہی نے اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔
تبصرہ لکھیے