اقتدار سے محرومی کے بعد سابق وزیر اعظم جناب عمران خان جس مستقل مزاجی اور تسلسل کے ساتھ موجودہ اتحادی حکومت کے خلاف جو متعدد بیانیے آگے بڑھا رہے ہیں ، ان میں ایک بڑا بیانیہ یہ ہے کہ ہم رُوس سے سستا تیل اور سستی گندم خریدنے میں کامیاب ہو ہی رہے تھے کہ ہماری حکومت امریکا نے ختم کروا دی ۔
خانصاحب مُصر ہیں کہ اُن کی حکومت رُوس سے 30فیصد سستا تیل خریدنے کے لیے کامیاب مذاکرات کررہی تھی ، اور یہ مذاکرات اور رُوسی صدر سے خان صاحب کی ملاقات مگر امریکی اسٹیبلشمنٹ کو منظور نہیں تھی ؛ چنانچہ امریکا ناراض ہو گیا اور اُس نے ’’ سازش‘‘ اور’’ مداخلت‘‘ کرکے عمران حکومت ختم کر ڈالی ۔اس بیانیے کو خانصاحب کے حواری اور حلیف بھی مسلسل بڑھاوا دے رہے ہیں ۔ جمعہ کو پی ٹی آئی کے کچھ ورکرز نے شہبازحکومت کے خلاف احتجاج کیا جس میں بعض نے پلے کارڈز اُٹھا رکھے تھے اور اُن پر لکھا تھا: رُوس سے سستا تیل خریدیں۔ جناب عمران خان اپنے ہر جلسے اور ہر انٹرویو میں تواتر کے ساتھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگرانڈیا،رُوس سے سستا تیل خرید کر 2ارب ڈالر کی بچت کرکے اپنے شہریوں کو سستا تیل فراہم کر سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں ؟
خان صاحب فرماتے ہیں:’’ لیکن موجودہ حکمران رُوس سے سستا تیل خریدنے کی جرأت نہیں کریں گے کیونکہ یہ ’’امپورٹڈ حکومت‘‘ امریکا سے ڈرتی ہے ۔‘‘ ہمارے ایک انگریزی معاصر نے بھی خبر دی ہے کہ حالیہ ایام میں بھارت نے 3کروڑ 40لاکھ بیرل رعایتی تیل رُوس سے خریدا ہے ۔ یوں مبینہ طور پر بھارت سرکار اور بھارتی شہریوں کو بڑا مالی ریلیف ملا ہے ۔جناب عمران خان کے اِس بیانیے یا پروپیگنڈے میں ایک عام پاکستانی شہری کے لیے بے پناہ کشش اور مقبولیت پائی جاتی ہے ۔ وزیر اعظم جناب شہباز شریف کی حکومت نے ایک ہفتے میں پٹرول کی قیمت میں 60روپے فی لٹر اضافہ کرکے جو یکے بعد دیگرے بم گرائے ہیں۔
اس ہوشربا اقدام نے ایک عام پاکستانی کی چیخیں نکال دی ہیں ؛ چنانچہ ایک غریب پاکستانی جناب عمران خان کے بیانیے سے متاثر ہو کر کہہ رہا ہے کہ آخر شہباز شریف حکومت رُوس سے سستا تیل کیوں نہیں خریدتی تاکہ پاکستانیوں کو مالی ریلیف مل سکے ؟رُوس سے مبینہ طور پر رعایتی نرخوں پر تیل نہ خریدنے کا سوال موجودہ اتحادی حکومت کے ہر اہم وزیر سے مسلسل پوچھا جا رہا ہے ۔ ہماری وزیر اطلاعات ، محترمہ مریم اورنگزیب ، اور ہمارے وزیر مملکت برائے پٹرولیم، جناب مصدق ملک، کا حق الیقین کے ساتھ کہنا ہے کہ عمران خان صاحب کا یہ دعویٰ مبنی برحقیقت نہیں ہے کہ اُن کی حکومت رُوس سے 30فیصد سستا تیل خرید رہی تھی لیکن عین موقع پر اُن کی حکومت ختم کر دی گئی۔
ان حکومتی ذمے داران کا اصرار کے ساتھ دعویٰ ہے کہ خان صاحب کی حکومت کے رُوسی حکومت کے ساتھ سرے سے ، اس ضمن میں ، مذاکرات ہی نہیں ہُوئے ۔ اگر ہُوئے تو اُن کا کوئی ایم او یو یا منٹس وغیرہ بطورِ ثبوت کہاں ہیں؟ مصدق ملک صاحب تو یہ بھی انکشاف کرتے ہیں کہ ’’ رُوس میں پاکستان کے سفیر بھی کہتے ہیں کہ رُوسی حکومت سے اس بارے میں کوئی مذاکرات ہُوئے ہی نہیں ۔ رُوسی وزیر تیل بھی خان صاحب کی حکومت کے اس قسم کے کسی سودے کی تصدیق نہیں کرتے ۔‘‘اب غریب پاکستانی کس کی بات پر یقین کرے ؟ خان صاحب کی زبان پر یا شہباز شریف کے وزرا پر ؟ تیل کی قیمتیں تو بہرحال حد سے زیادہ بڑھ چکی ہیں ۔ اس کا مگر ہمارے ہر قسم کے حکمران طبقے اور اشرافیہ پر کوئی اثر نہیں پڑ رہا کیونکہ یہ طبقات سرکار ی خزانے سے بے تحاشہ مراعات وصول کررہے ہیں ۔
اور یہ مراعات غریب پاکستانیوں کی ہڈیوں سے بھاری بھر کم ٹیکسوں کی شکل میں نچوڑی جارہی ہیں ۔ اب مگر غریب اور مہنگائی کی ماری یہ غریب عوام بھی بیک زبان مطالبہ کررہی ہے کہ ملک کی خاطر صرف ہمیں ہی قربانی کا بکرا کیوں بنایا جائے ؟ اس بے حس اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقات کو بھی مہنگائی ، مہنگے پٹرول و ڈیزل، مہنگی بجلی وغیرہ کا مزہ چکھایا جائے ؛ چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہر روز ملک کے کونے کونے سے عوامی مطالبہ شدت پکڑ رہا ہے کہ صدر ، وزیر اعظم ، گورنرز، مرکزی و صوبائی وزرا، اعلیٰ سول و غیر سول حکام کی مراعات اور جلی و خفی سبھی سرکاری سہولتیں ختم کی جائیں ۔مہنگائی اور گرانی کی حدت ان مراعات یافتہ طبقات تک پہنچے گی تو انھیں آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوگا ۔ حکومت کی طرف سے مہنگائی زدہ عوام کو 2ہزار روپے دینے کا وعدہ محض لالی پاپ ہے ۔دو ہزار روپے میں تو 10لٹر پٹرول بھی نہیں آتا ۔
اور دس لٹر پٹرول سے ایک موٹر سائیکل سوار کلرک صرف ایک ہفتہ دفتر جا سکتا ہے ۔ اس لیے عوام کا بیک زبان کہنا ہے کہ شہباز شریف حکومت غریب عوام کو دو ہزار روپے دینے کا وعدہ کرکے حاتم طائی کی قبر پر لات نہ مارے ۔عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ حاکم طبقہ بڑا ہی ظالم ہوتا ہے ۔ وہ غریب کی بے کسی پر اپنی عیاشیوں کے شادیانے بجانے پر شرم محسوس نہیں کرتا ، اس لیے پاکستان کے ان حاکم طبقات سے یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ فوری طور پر اپنی بے تحاشہ سرکاری مراعات اور سہولتوں سے دستکش ہوں گے ۔اس کے لیے عوام کو ان طبقات پر مسلسل دباؤ بڑھانا ہوگا ۔ یہ عوامی دباؤ اور اشرافیہ کی مراعات کے خلاف پائے جانے والے سخت عوامی طیش ہی کا نتیجہ ہے کہ سندھ ، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کی حکومتیں اپنے سرکاری مراعات یافتہ طبقات کی ، پٹرول کی مَد میں ، کٹوتی کرنے پر تیار ہو گئی ہیں ۔
اور یہی راستہ وفاقی حکومت ، بلوچستان اور پنجاب کے حکمرانوں کو بھی اپنانا پڑے گا ، وگرنہ عوامی طیش سب کچھ بہا لے جائے گا۔ عوام کی اکثریت موجودہ حکمرانوں کی یہ دلیل ماننے کے لیے تیار نہیں ہے کہ مجبوری کے عالم میں ساٹھ روپے فی لٹر پٹرول کی قیمت میں اضافہ کرنا پڑا ہے ، اور اگر ایسا نہ کرتے تو ملک دیوالیہ ہو جاتا ۔ عوام تو سادہ زبان میں موجودہ حکمرانوں کو فقط یہ کہتے ہیں کہ: اگر ان مجبوریوں کا آپکو پہلے سے علم تھا تو حکمرانی قبول ہی کیوں کی ؟ کسی کے گناہوںاور غلطیوں کا پشتارہ اپنی کمر پر کیوں لادا ؟پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں قیامت خیز اضافے سے ملک کی 90فیصد آبادی بلبلا اُٹھی ہے ۔ آہیں اور چیخیں آسمان تک پہنچ رہی ہیں ۔ اور ان آہوں اور چیخوں کے درمیان سندھ کی معروف ادیبہ، محترمہ نورالہدیٰ شاہ، کا ایک ٹویٹ بہت مشہور ہُوا ہے ۔
انھوں نے لکھا:’’ طاقتورو!تم پر مفت کا پٹرول حرام ہو جانا چاہیے ۔‘‘ بجلی مزید مہنگی ہُوئی ہے تو یہ بھی مطالبہ اُٹھنے لگا ہے کہ ملک بھر کے وہ تمام محکموں کے وابستگان جنھیں بجلی کے مفت یونٹس فراہم کیے جا رہے ہیں ، یہ سہولت بھی فوری طور پر ختم کی جائے ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ مہنگائی کے کارن ملک کے غریب طبقات کے گھروں میں تو ماتم برپا ہو اور مراعات یافتہ طبقات کے گھروں میں شادیانے بجتے رہیں ۔ یہی بتانے کے لیے امیرِ جماعتِ اسلامی ، جناب سراج الحق، کی قیادت میں 11جون کو ملک بھر میں مہنگائی کے مارے عوام کے حق میں اور مراعات یافتہ سرکاری طبقات کی بے تحاشہ سہولتوں کے خلاف باقاعدہ احتجاج ہو رہا ہے۔
تبصرہ لکھیے