1973 میں جب روس میں کمیونزم کا طوطی بولتا تھا اور دنیا کہہ رہی تھی کہ پورا ایشیا سرخ ہوجائے گا، ان دنوں میں ہمارے ایک دوست ماسکو ٹریننگ کے لیے گئے. وہ بتاتے ہیں کہ جمعہ کے دن میں نے دوستوں سے نماز جمعہ کی ادائیگی کےلیے چلنے کو کہا تو جواب ملا کہ یہاں اکثر مساجد کو گودام جبکہ کچھ کو سیاحوں کی قیام گاہ بنا دیا گیا ہے. شہر میں صرف دو مسجدیں بچی ہیں جو کبھی بند اور کبھی کھلتی ہیں. ان سے پتہ لیا اور خود ایک مسجد چلا گیا. وہاں پہنچا تو مسجد بند تھی، پڑوس میں ہی ایک بندے کے پاس چابی تھی. اس آدمی سے دروازہ کھولنے کو کہا اور بتایا کہ مجھے نماز پڑھنی ہے. اس نے کہا کہ دروازہ تو میں کھول دوں گا لیکن اگر آپ کو کوئی نقصان پہنچا تو میں ذمہ دار نہیں ہوں گا. میں نے کہا کہ دیکھیں جناب! میں پاکستان میں بھی مسلمان تھا اور روس کے ماسکو میں بھی مسلمان ہی ہوں، پاکستان کے کراچی میں بھی نماز ادا کرتا تھا اور روس کے ماسکو میں بھی نماز ادا کروں گا، چاہے کچھ بھی ہوجائے. اس نے مسجد کا دروازہ کھولا تو اندر کا ماحول بہت خراب تھا. میں نے جلدی جلدی صفائی کی اور پھر بلند آواز سے اذان دی. اذان کی آواز سن کر بوڑھے بچے مرد عورت جوان سب مسجد کے دروازے پہ جمع ہوگئے کہ یہ کون ہے جس نے موت کو آواز دی ہے، لیکن مسجد کے اندر کوی بھی نہیں آیا، خیر میں نے نماز جمعہ تو ادا نہیں کی کیونکہ اکیلا تھا، بس ظہر کی نماز ادا کی اور مسجد سے باہر آگیا. واپسی پر لوگ مجھے ایسے دیکھ رہے تھے جیسے میں نماز ادا کر باہر نہیں نکلا بلکہ کوئی نیا کام متعارف کروا کر باہر آیا ہوں.
ایک بچہ میرے پاس آیا اور کہا کہ آپ ہمارے گھر چاۓ پینے آئیے. اس کے لہجے میں خلوص ایسا تھا کہ انکار نہ کرسکا، گھر پہنچے تو وہاں طرح طرح کے پکوان بن چکے تھے اور سب بہت خوش دکھائی دے رہے تھے. کھانا کھایا، چائے پی اور ساتھ بیٹھے ایک بچے سے پوچھا آپ کو قرآن پاک پڑھنا آتا ہے؟ بچے نے جواب دیا، جی بالکل قرآن پاک تو ہم سب کو آتا ہے. میں نے جیب سے قرآن کا چھوٹا نسحہ نکالا اور کہا یہ پڑھ کر سنائو مجھے. بچے نے قرآن کو دیکھا، پھر مجھے دیکھا، پھر قرآن کو دیکھا، ماں باپ کو دیکھ کر دروازے کو دیکھا، پھر مجھے دیکھا. میں نے سوچا کہ اس کو قرآن پڑھنا نہیں آتا. میں نے کہا بیٹا قرآن کی یہ آیت پڑھو اور انگلی
[pullquote]يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ
[/pullquote]
رکھی تو وہ فرفر پڑھنے لگا، قرآن کو دیکھے بنا ہی. مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا کہ یہ تو قرآن کو دیکھے بنا ہی پڑھ رہا ہے. میں نے اس کے والدین سے پوچھا" حضرات یہ کیا معاملہ ہے؟ انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا " دراصل ہمارے پاس قرآن پاک موجود نہیں، کسی کے گھر سے قرآن پاک کی آیت کا ایک ٹکڑا بھی مل جائے تو اس تمام خاندان کو پھانسی کی سزا دے دی جاتی ہے، اس وجہ سے ہم لوگ قرآن پاک نہیں رکھتے گھروں میں"
"تو پھر اس بچے نے قرآن کیسے حفظ کیا، کیونکہ قرآن پاک تو کسی کے پاس ہے ہی نہیں" میں نے مزید حیران ہوکر پوچھا
"ہمارے پاس قرآن کے کئی حافظ ہیں، کوئی درزی ہے، کوئی دکاندار، کوئی سبزی فروش اور کوئی کسان، ہم ان کے پاس اپنے بچے بھیج دیتے ہیں محنت مزدوری کے بہانے. وہ ان کو الحمدللہ سے والناس تک زبانی قرآن پڑھاتے ہیں، اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ حافظ قرآن بن جاتے ہیں. کسی کے پاس قرآن کا نسحہ ہے نہیں، اس لیے ہماری نئی نسل کو ناظرہ قرآن پڑھنا نہیں آتا. اس وقت ہماری گلیوں میں آپ کو جتنے بچے دکھائی دے رہے ہیں، یہ سب حافظ قرآن ہیں. جب آپ نے اس بچے کے سامنے قرآن رکھا تو اس کو پڑھنا نہیں آیا لیکن جب آپ نے آیت سنائی تو وہ فرفر سنانے لگا. اگر آپ نہ روکتے تو یہ سارا قرآن ہی پڑھ کر سنا دیتا.
ہمارا دوست کہتا ہے کہ میں نے قرآن کے ایک نہیں کئی ہزار معجزے دیکھے. جس معاشرے میں قرآن پڑھنے اور گھر میں رکھنے پر پابندی لگا دی گئی تھی، اس معاشرے کےبچوں کے سینوں میں قرآن محفوظ ہو گیا تھا. میں جب باہر نکلا تو کئی بچے دیکھے، ان سے قرآن سننے کی فرمائش کی تو کئی نے قرآن سنایا. دفعتا دل میں خیال آیا کہ کمیونسٹوں نے قرآن رکھنے پر پابندی لگا دی لیکن سینوں میں قرآن محفوظ کرنے پر پابندی نہ لگا سکے. تب مجھے اللہ پاک کے اس ارشاد کی حقانیت سمجھ آ گئی.
[pullquote]إِنَّا نَحنُ نَزَّلْنَا الذِّكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
[/pullquote]
بے شک یہ ذکر (قران) ہم نے نازل فرمایا ہے اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں.
تبصرہ لکھیے