ہوم << معرکہ عظمیٰ - عبداللہ طارق سہیل

معرکہ عظمیٰ - عبداللہ طارق سہیل

تو جناب معرکہ عظمیٰ کا ان آن لگا۔ امربالمعروف کے لشکر آج اسلام آباد پہنچیں گے اور حقیقی آزادی کی جنگ لڑیں گے۔ لشکر کشی کا تقریباً سارا انحصار صوبہ پختونخواہ پر آ پڑا ہے کیونکہ پنجاب کی راہیں تو اہل باطل نے مسدود کر دی ہیں۔ سخت زیادتی کی بات ہے، راستے بند ہوں گے اور چھاپے پڑیں گے تو انقلاب کیسے آئے گا ۔

ابھی ایک ویڈیو کلپ دیکھا (بلکہ سنا) کہ ایک مجاہد کس طرح آدھے گھنٹے تک سٹور روم میں چھپا رہا کیونکہ باہر پولیس تھی۔ 25 لاکھ لشکری اسلام آباد آئے تھے، پنجاب میں کی جانے والی جکڑ بندی کے بعد دیکھئے اس ہدف کا کتنا حصہ حاصل ہو پاتا ہے۔ اطلاعات، اندازے، امیدیں یا اندیشے یہ ہیں کہ اس بار بہت سی وہ معرکہ آرائیاں نہیں ہو پائیں گی جو اسی طرح کے 2014ء میں ہونے والے معرکہ حق و باطل میں کامیابی سے سرانجام دی گئی تھیں۔ مثلاً پی ٹی وی پر قبضے والی معرکہ آرائی ۔ ریڈ زون میں جو انتظامات ہیں، انہوں نے راہ حق کے راہیوں کیلئے زمیں سخت اور آسماں دور ہے والی فضا پیدا کر دی ہے۔ ویسے بھی پی ٹی وی پر قبضے کی مہم کے خاتمے اور سالار ان دنوں ایوان صدر کے مکیں ہیں، اس شاندار عمارت کی شانداری کے مزے لے رہے ہیں۔ اسی طرح سے سپریم کورٹ کی عمارت پر ملبوسات لکھانے اور پارلیمنٹ کا محاصرہ کرنے والی معرکہ آرائیوں کی گنجائش بھی کم ہو گئی ہے۔

البتہ اور طرح کی معرکہ آرائیوں کی خبریں ہیں۔ مثلاً وہی شیخ رشید جن کی مسلسل پیش گوئیاں کرتے رہے ہیں ، ان کی پیش گوئی لاہور کی حد تک تو ٹھیک ہوتی نظر آئی جہاں ایک مجاہد نے گھر کی ’’ڈور بیل‘‘ بجانے والے پولیس اہلکار کو گولی مار کر قتل کر دیا۔ یہ پولیس والا مہم میں شامل تھا تو مذکورہ مجاہد کی گرفتاری کیلئے چھاپہ مارنے آئی تھی۔ پتہ نہیں اس واقعے کی مذمت کرنی چاہیے یا نہیں، بہرحال بعض اہل حق اسے اپنی پہلی فتح قرار دیتے ہوئے سنے گئے ہیں۔ ویسے ضرورت اس بات کی بھی تھی کہ شیخ رشید کو کسی تھانے دعوت پر بلایا جاتا اور ان سے خصوصی انٹرویو کر کے یہ پتہ چلانے کی کوشش کی جاتی کہ آخر یہ خونی انقلاب ہے کیا اور اس کے پیچھے کون ہیں۔ بہرحال سرکار کی پولیس سے توقع ہے کہ وہ اس طرح کے اقدامات نہیں کرے گی جو سال گزشتہ ایک مذہبی قسم کے لانگ مارچ سے نمٹنے کیلئے اس وقت کی اہل حق کی سرکار نے کئے تھے مثلاً تیزاب ملے پانی کی بوچھاڑ وغیرہ، اللہ خیر کرے۔ کسی بھی قسم کی زیادہ سختی نہ کی جائے کیونکہ ایسا کیا گیا تو پھر انقلاب کیسے آئے گا۔

حالات ہفتہ بھر پہلے کی فضا سے کچھ مختلف نظر آ رہے ہیں، ہو سکتا ہے یہ بھی نظر کا دھوکہ ہو۔ ہفتہ بھر پہلے یوں نظر آتا تھا کہ حکومت گئی کہ گئی لیکن اس دوران ’’اندر کھاتے‘‘ کچھ ایسا ہوا کہ حکومت کے قدم کچھ جمتے نظر آ ئے۔ سنا ہے کہ کچھ ایسی معاشی طلسم کاری کر لی گئی ہے کہ باہر سے مدد بھی مل جائے گی اور مہنگائی کم تو نہیں ہوئی لیکن مزید بڑھنے بھی نہیں دی جائے گی۔ ناقابل یقین ہے لیکن سننے میں یہی آ رہا ہے۔ ’’لگژری‘‘ آئٹمز کی درآمد پر پابندی سے بھی کچھ فائدہ ہوا ہے۔ اس پابندی سے ’’ایلیٹ کلاس‘‘ متاثر ہوئی ہے اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ’’امر بالمعروف‘‘ اور ’’حقیقی آزادی ‘‘ کی جنگ کے پیچھے اصل قوت یہی ’’ایلیٹ کلاس‘‘ ہے۔ کوئی بات نہیں، حالات اگر مزید بگڑنے سے بچ جاتے ہیں تو اس ’’لاڈلی برادری‘‘ کی ناراضگی مول لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

ایک خبر دیکھئے تو سب سے بڑی ہے ، دھرنے کی خبر سے بھی بڑی۔ خبر یہ ہے کہ شیران کے جنگلات میں لگی آگ پر قابو پانے کے لیے ایران سے ’’فائر فائٹر ہوائی جہاز‘‘ منگوایا گیا ہے۔ اصل خبر اس کے اندر ہے، یعنی یہ کہ پاکستان کے پاس ایسا کوئی جہاز ہے نہیں جو جنگلوں کی آگ بجھانے کیلئے استعمال کیا جا سکے۔ پاکستان میں جنگل ہیں اور ان میں آگ بھی لگتی ہے لیکن اس آگ کو بجھانے کا سامان نہیں ہے۔ انصاف سے بتائیے، بہت بڑی خبر ہے کہ نہیں۔ شیران کے جنگلات چلغوزے کے تھے، کئی دن سے آگ نے ہزاروں ایکڑ پر درخت اور جنگلی حیات بھسم کر دی اور اب کہیں جا کر اس کے بجھنے کی امید پیدا ہوئی ہے۔

عجب اتفاق ہے، گزشتہ چند برسوں سے پختونخواہ اور اسلام آباد کے جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں ماضی کی نسبت یک دم کئی گنا اضافہ ہو گیا، کبھی تو یہ اسرار کھلے گا۔ کچھ ٹک ٹاکرز بھی اپنے ویڈیو کلپ بنانے کیلئے درختوں کو آگ لگاتے پکڑے گئے۔ یعنی گھر کے چراغ ہی گھروں کو آگ لگا رہے ہیں۔ ان نوجوانوں نے کہاں سے یہ تربیت پائی ہے۔ پچھلے چند برسوں میں جنگلات کی جو کٹائی ہوئی، وہ بھی ماضی پر بازی لے گئی۔ ذرا بھارت کو دیکھئے، جنگلات کے تحفظ کیلئے کتنی کامیاب کوششیں کر رہا ہے۔

خبر ہے کہ یوکرائن کی جنگ کی وجہ سے روس کے اندر ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ نوجوان دھڑا دھڑ ملک چھوڑ رہے ہیں اور تین ماہ کے دوران 40 لاکھ نوجوان روس چھوڑ کر دوسرے یورپی ممالک میں پناہ لے چکے ہیں۔ خبر میں ہے کہ روسی عوام یوکرائن سے جنگ کے خلاف ہیں اور معاشی حالات اتنے پریشان کن ہیں کہ نوجوانوں کو اپنا مستقبل مایوس کن نظر آنے لگا ہے۔

حالات میں بہت بگاڑ پیدا ہو چکا ہے لیکن یہ تو محض شروعات ہے، یوکرائن پر حملہ اسی طرح جاری رہا تو مزید تین ماہ بعد روس کے لوگ روٹی کھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ یہ بات صدر پیوٹن کو بھی اچھی طرح پتہ ہے لیکن وہ اپنے غلط فیصلے پر ڈٹ گیا ہے اور فیصلہ واپس لے کر اپنے غلط ہونے کا اعتراف نہیں کرنا چاہتا۔

محض ایک ’’شخص ‘‘ کی ضد کس طرح بڑے بڑے ملکوں کو تباہ کر دیتی ہے، اس کی مثالیں تاریخ میں بہت ملتی ہیں اور پیوٹن ان مثالوں میں تازہ اضافہ ہے۔ دیکھئے، روس کی حکمران اشرافیہ اس ضدی سے کب نجات کا سوچتی ہے۔

کڈنی اینڈیور ہسپتال جو چار سال پہلے کسی کے ’’ذاتی کاروباری‘‘ مفادات کے تحفظ کیلئے ایک کجہ کلاہ نے بند کرایا تھا، پھر بحال ہو گیا ہے اور اس کے سربراہ ڈاکٹر سعید اختر جو سخت بے عزتی اور بدسلوکی کے باعث امریکہ چلے گئے تھے، واپس آ گئے ہیں اور ادارے کی سربراہی سنبھال لی ہے۔ تلک الایام نداولہا ۔

Comments

Click here to post a comment